عدلیہ کن حالات میں صدر کو حکم جاری کر سکتی ہے؟

عدلیہ کن حالات میں صدر کو حکم جاری کر سکتی ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


       (تجزیہ:سعید چودھری) 
دو روز قبل 22اپریل کو لاہورہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹرجسٹس محمد امیر بھٹی نے حمزہ شہباز شریف کی درخواست نمٹاتے ہوئے فیصلہ جاری کیا کہ صدر مملکت نومنتخب وزیراعلیٰ حمزہ شہبازشریف سے حلف لینے کے لئے نمائندہ مقررکریں،عدالت نے عمل درآمد کے لئے اپنے فیصلہ کی نقل بھی بذریعہ فیکس ایوان صدر بھجواتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا کہ گورنر پنجاب کے کسی مراسلہ کا انتظار کئے بغیر صدر عارف علوی حلف برداری کے لئے نمائندہ کریں گے،اس فیصلے کے بعد متعدد آئینی سوالات زیربحث ہیں کہ کیا عدالت صدرکو حکم جاری کرسکتی ہے؟اور یہ کہ کیا عدالت کو اس معاملہ میں مداخلت کااختیار حاصل تھا؟آئین کے آرٹیکل 248کے تحت صدر مملکت اور کسی صوبہ کے گورنر کے خلاف فوجدرای کارروائی نہیں ہوسکتی،اگر ان کے خلاف پہلے سے کوئی مقدمہ درج ہو تو اس پر کارروائی منجمد کردی جاتی ہے تا وقتیکہ وہ اپنے عہدہ سے سبکدوش نہ ہوجائیں تاہم ان کے خلاف کسی جرم کی بنیاد پر ایف آئی آر درج ہوسکتی ہے،سول معاملات میں صدر اور گورنر کے خلاف ذاتی حیثیت میں کارروائی کی گنجائش موجود ہے تاہم اس کے لئے انہیں کم از کم 60دن کا نوٹس دینا ضروری ہے،اس حوالے سے فاروق لغاری کی صدارت کے دور میں ان کے خلاف جماعت اسلامی کے امیر کے ہرجانہ کے دعویٰ کی مثال موجود ہے۔عدالتوں کے متعدد فیصلے موجود ہیں جن میں صدر فریق تھے اورعدالتی کارروائی کی گئی،یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ محتسب کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں پر جو صدر فیصلے کرتے ہیں ان کے خلاف اگر معاملہ اعلیٰ عدلیہ میں آتا ہے تو صدر کو فریق کے طور پر لیا جاتا ہے،صدر اور گورنر کو ان کے سیکرٹریز کے ذریعے فریق بنانے کی درجنوں مثالیں موجود ہیں،لاہورہائی کورٹ کے 5رکنی بنچ نے صدر آصف علی زرداری کو ایوان صدر میں پارٹی اجلاس بلانے سے اس بنیاد پر روک دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل41کے تحت وہ وفاق کے اتحاد کی علامت ہیں اور کسی ایک پارٹی کی نمائندگی نہیں کرسکتے،اسی طرح سوئس کیس میں عدالت عظمیٰ نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ اپنے صدر آصف علی زرداری کے اکاؤنٹس کی بابت سوئیٹرزلینڈحکومت کو خط لکھے۔
ایسے معاملات جہاں صدریا گورنر کے کسی اقدام کے باعث آئینی بحران پیدا ہوجائے،جیسا کہ پنجاب میں وزیراعلیٰ کے حلف کی بابت پیدا ہوا،عدالتیں کارروائی کی مجاز ہیں،اس سلسلے میں حکومتیں تحلیل کرنے سے متعلق اس وقت کے صدور کے اقدامات کے خلاف مقدمات کی مثالیں بھی موجود ہیں۔زیربحث کیس سے ملتے جلتے مقدمات میں عدالتیں براہ راست صدر یا گورنر کو حکم یا ہدایت جاری نہیں کرتیں بلکہ آئینی صورتحال واضح کرنے کے بعد اپنے فیصلے کی نقل گورنر یا صدر کو بھجواتے ہوئے اس توقع یا خواہش کا اظہار کرتی ہیں کہ عدالتی آبزرویشنز پر من وعن عمل درآمد کیا جائے جیسا کہ چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ کے پیرا گراف نمبر4میں "It is expected from the President..."کے الفاظ استعمال کئے،جس کے بعد عدالتی آئینی تشریح کی روشنی میں صدر یاگورنر عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کا پابند رہتا ہے جب تک کہ عدالتی فیصلہ معطل یا کالعدم نہ ہوجائے۔مختلف آئینی آرٹیکلز اور عدالتی فیصلوں کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہیں کہ لاہورہائی کورٹ نے جو فیصلہ جاری کیاہے وہ اس کے دائرہ اختیارسے باہر نہیں،عدالت نے آئین کے آرٹیکل130(5)کے تحت قراردیا کہ گورنر حلف لینے سے انکار کا مجازہی نہیں ہے،اس آرٹیکل کے تحت گورنر کے لئے ضروری ہے کہ وہ وزیراعلیٰ منتخب ہونے والے شخص کوفوری طور پرعہدہ سنبھالنے کی دعوت دیں اور اس سے حلف لیں،فاضل جج نے قراردیاہے کہ گورنر پنجاب نے نومنتخب وزیراعلیٰ سے حلف لینے سے انکارکیاہے،صدر مملکت یہ بات پیش نظر رکھیں گے کہ پنجاب کی انتظامیہ 21دن سے غیر فعال ہے،سپریم کورٹ 2016ء میں قرار دے چکی ہے کہ حکومت کے معاملات کابینہ کے ذریعے ہی چلائے جاسکتے ہیں،عدالت نے آئین کے آرٹیکل104کاحوالہ دیتے ہوئے صدر کو حلف برداری کے لئے نمائندہ مقررکرنے کا مجاز قراردیاجس کے تحت گورنر کی عدم موجودگی یا فرائض کی ادائیگی سے معذوری کی صورت میں سپیکر قائم مقام گورنر کے طور پر کام کرتاہے،دونوں دستیاب نہ ہوں تو پھر صدر نمائندہ مقررکرنے کا مجازہوتاہے۔آئین کے تحت صدر وفاقی کابینہ کی ایڈوائس پر کام کرتے ہیں،آئینی ابہام ختم کرنے کے لئے عدالتی فیصلے کو بنیاد بنا کر وفاقی کابینہ وزیراعلیٰ پنجاب کی حلف برداری کے لئے فوری نمائندہ مقررکرنے کی بابت صدر کو سمری یا ایڈوائس بھجوانے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔

مزید :

تجزیہ -