پاک بھارت  سٹریٹجک تصادم کا خطرہ، وہ ایک قدم جس سے حالات نارمل ہوسکتے ہیں، الجزیرہ کی رپورٹ میں مشورہ دے دیا گیا

پاک بھارت  سٹریٹجک تصادم کا خطرہ، وہ ایک قدم جس سے حالات نارمل ہوسکتے ہیں، ...
پاک بھارت  سٹریٹجک تصادم کا خطرہ، وہ ایک قدم جس سے حالات نارمل ہوسکتے ہیں، الجزیرہ کی رپورٹ میں مشورہ دے دیا گیا
سورس: WIkimedia Commons

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں منگل کو ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں شدید اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور دونوں جوہری قوتیں اس وقت ایک نئے سٹریٹجک تصادم کے دہانے پر کھڑی نظر آتی ہیں۔

بھارتی حکام اور میڈیا نے حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا ہے، جسے پاکستان  نے سختی سے مسترد کر دیا ہے۔  بھارتی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں 2019 کے بالاکوٹ حملے کی طرز پر فوجی کارروائی کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بار بھارت کی کارروائی 2019 کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہو سکتی ہے تاہم چین کے ساتھ جاری سرحدی کشیدگی کی وجہ سے بھارت کو احتیاط سے قدم اٹھانا ہو گا۔

پاکستانی سیکیورٹی ذرائع کے مطابق بھارت کی کسی بھی ممکنہ "مہم جوئی" کے لیے مکمل تیاری موجود ہے لیکن وہ بھارت کی طرح غیر ضروری شور نہیں مچانا چاہتے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت کو یہ خوش فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ کوئی جواب نہیں ملے گا۔

تجزیہ کار اسفند یار میر کے مطابق دونوں ممالک نے 2019 کے بحران سے کوئی ٹھوس سبق حاصل نہیں کیا، اور موجودہ کشیدگی بتاتی ہے کہ حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ سابق پاکستانی سفیر سلمان بشیر نے کہا کہ بھارت کی حالیہ حکمتِ عملی "غلط فہمی" پر مبنی ہے اور پاکستان کی جانب سے جواب "مدبرانہ اور حالات کے مطابق" ہو گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ موجودہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی طرف سے بھارت کا دورہ جیسا بڑا قدم اٹھائے، کیونکہ اس وقت سفارتی مواقع نہایت محدود ہیں۔

الجزیرہ کے مطابق اس ساری صورتِ حال نے دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ تنازعہ کشمیر کو ایک بار پھر عالمی سطح پر مرکزِ نگاہ بنا دیا ہے اور اگر کشیدگی کو جلد کم نہ کیا گیا تو یہ صورتحال خطے کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

خیال رہے کہ منگل کے روز مقبوضہ جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ایک حملے کے نتیجے میں 26 بھارتی شہری مارے گئے تھے۔ بھارتی حکومت نے اپنی سابقہ روش برقرار رکھتے ہوئے اس کا الزام پاکستان پر دھرا اور  پاکستان کے خلاف متعدد اقدامات کا اعلان کیا ۔

بھارت نے پاکستان کے ساتھ دریاؤں کے پانی کی تقسیم سے متعلق تاریخی "سندھ طاس معاہدے" کو معطل کر دیا ۔ واہگہ اٹاری بارڈر کو بند کر دیا۔ پاکستانی شہریوں کے لیے تمام ویزا سروسز معطل کر دی گئیں۔دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں تعینات فوجی مشیروں کو ’ناپسندیدہ شخصیت‘ (persona non grata) قرار دے کر ایک ہفتے کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ یکم مئی سے بھارت میں پاکستانی سفارتکاروں کی تعداد 55 سے کم کر کے 30 کر نے کا اعلان کردیا۔ 

اس کے جواب میں پاکستان نے بھی بھارت کے خلاف تقریباً ویسے ہی جوابی اقدامات کا اعلان کیا۔

بھارت کی طرف سے پانی کے معاہدے کی معطلی کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان نے کہا ہے کہ اگر بھارت نے پانی روکنے یا موڑنے کی کوشش کی تو اسے "جنگی اقدام" تصور کیا جائے گا۔  پاکستان بھارت کے ساتھ شملہ معاہدے سمیت  اس وقت تک دوطرفہ معاہدے معطل کرنے کا حق رکھتا ہےجب تک بھارت پاکستان میں دہشت گردی سے باز نہیں آجاتا اور کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدر آمد نہیں کرتا۔ بھارتی شہریوں کو خصوصی سکیم کے تحت جاری کردہ تمام ویزے فوری طور پر معطل کر دیے گئے تاہم سکھوں کی مذہبی یاترا کو اس سے استثنیٰ قرار دیا گیا ہے ۔  اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن میں تعینات سفارتکاروں کی تعداد 55 سے کم کر کے 30 کر دی جائے گی۔ واہگہ بارڈر کو فوری طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ پاکستانی فضائی حدود بھارتی ملکیت یا بھارتی آپریٹڈ تمام پروازوں کے لیے بند کر دی گئی ہے۔بھارت کے ساتھ تمام تجارتی سرگرمیاں معطل کر دی گئی ہیں۔