ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 45
ریڈیو انٹرویو
اسی دوران میں ایک مقامی ریڈیو کی اردو نشریات کے لیے میرا انٹرویو لیا گیا۔اس میں کئی سوالات کیے گئے ۔ میں نے اس انٹرویومیں خاص طورپر یہ توجہ دلائی کہ مسلمانوں کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ان کی دینی تعلیم میں کسی قسم کا کوئی انحراف ہو چکا ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دین کی اصل تعلیم کے ساتھ دین ہی کے نام پر غیر مطلوب چیزوں کو مطلوب بنا کر بیان کیا جا رہا ہے ۔یا غیر اہم چیزوں کو اہم ترین بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ اس کی اصلاح کرنا اور دین کی اصل دعوت کو پیش کرنا ایک بہت بڑ ا کام ہے ۔
ایک اور سوال یہ تھا کہ مقامی مسلمان اپنے بچوں کی تربیت کیسے کریں ۔میں نے یہ عرض کیا کہ آپ کا بچہ آپ ہی سے سیکھتا ہے ۔ اس لیے جیسا اسے بنانا چاہتے ہیں ، گھر کے اندراسے ویسا ہی بن کر دکھائیں ۔ زبانی باتوں اور دلی خواہشات سے کچھ نہیں ہونے کا۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 44 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک سوال یہ تھا کہ مقامی مسلمان آسٹریلیا اور اپنے ملک سے وفاداری کے بیچ میں کیا راستہ اختیار کریں ۔ میں نے یہ عرض کیا کہ آبائی وطن کی محبت اور اس میں دلچسپی ایک فطری چیز ہے ۔اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن نئے وطن کے حوالے سے انسان پر جو اصل ذمہ داری ہے وہ یہ ہے کہ جس ملک میں رہتا ہو وہاں کے قانون کی پابندی کرے ۔ اس حوالے سے جو ذمہ داریاں عائد ہوں ان کو پورا کرے ۔جہاں رہتے ہیں ان لوگوں سے محبت کرے اور ان سے خیرخواہی کا رویہ اختیار کرے ۔
نصرت دین کا اجر
کھانے کے بعد دوسرا سیشن ہوا۔ اس سیشن میں نصرت دین کے اجر پر گفتگو کی گئی۔میں نے یہ عرض کیا کہ انسانی وجود خواہشوں کا ایک لامحدود سمندر ہے جس میں لذت و سکون کی ختم نہ ہونے والی پیاس ہے ۔ موجودہ دنیا اس لذت وسکون کا ایک تعارف تو ہے لیکن اس کی مکمل تسکین کا ذریعہ نہیں ہے ۔ یہ تسکین صرف قیامت کے بعد قائم ہونے والی جنت کی اس دنیا ہی میں ممکن ہے جسے اللہ تعالیٰ عنقریب بنانے والے ہیں ۔اُس آنے والی دنیا میں دو درجات ہیں ۔ ایک درجہ عام لوگوں کا ہے اور دوسرا خاص درجہ ان لوگوں کا ہے جو غیر معمولی قربانی دے کر دین کے تقاضے پورے کریں ۔ اُس خاص درجہ کو پانا ایک بہت مشکل کام ہے ۔ لیکن موجودہ دور میں اس کے حصول کا سب سے آسان راستہ نصرت دین کا کام ہے ۔
اللہ کے دین کو ہر دور میں عام انسانوں کی نصرت کی ضرورت رہی ہے ۔اس نصرت کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کے لیے انسانوں کے محتاج ہیں ۔ ان کا کام ان کے فرشتے کرتے ہیں ۔ لیکن وہ انسانوں میں سے چند لوگوں کو یہ عزت دینا چاہتے ہیں کہ کل قیامت کے دن وہ قرآن مجید کے الفاظ میں ’’انصار اللہ۔۔‘‘ یعنی اللہ کے مدد گار کہلائے جائیں ۔وہ اس راہ میں خرچ کریں اور اللہ کو قرض حسنہ دینے والے قرار پائیں ۔
اس کام کا اجر اتنا ہے کہ کوئی الفاظ نہ اس کا احاطہ کرسکتے ہیں ، نہ کوئی پیمانہ اس کو ناپ سکتا ہے ۔ اس کے لیے بس ایک ہی تعبیر اختیار کی جا سکتی ہے ۔ یہ وہ تعبیر ہے جو صحابہ کرام کے لیے قرآن مجید نے اختیار کی اور آج کے دن تک ان کو اسی نسبت سے پکارا جاتا ہے ۔ یعنی اللہ ان سے راضی ہو گیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو جنت کے بلند ترین اور خاص درجات میں بسایا جائے گا۔
موجودہ دور میں نصرت دین کا کام بے حد آسان ہو چکا ہے جیسا کہ قرآن مجید اپنی اس دعا سے یہ حقیقت واضح کرتا ہے کہ پروردگارہم پر وہ بوجھ مت ڈال جو تونے پچھلوں پر ڈالے تھے ۔ نہ وہ بوجھ جن کو اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں ، (البقرہ286:2)۔یہ دعا صحابہ کرام کو نصرت دین کے کام ہی کے پس منظر میں سکھائی گئی تھی۔ آج یہ کام کرنے والوں کا راستہ صحابہ کرام سے کہیں زیادہ آسان ہے ۔ مگر اس کے لیے بہرحال کچھ نہ کچھ قربانی دینی ہو گی اور وہ قربانی اپنے تعصبات کی ہے ۔ یعنی تعصبات سے بلند ہوکر حق کو دریافت کیاجائے ۔ پھر خواہشات کی قربانی دے کر اپنے پیسے ، وقت اور صلاحیت کے ایک حصے کو اس کام کے لیے وقف کیا جائے ۔ اس کے لیے انسان کو معیار زندگی بلند کرنے کی ختم نہ ہونے والی دوڑ سے نکل کر ایک جگہ ٹھہرنا ہو گا اور دین کی مدد کو اپنا ذاتی مسئلہ ایسے ہی بنانا ہو گا جیسے بیوی، بچوں اور خاندان کے مسائل کو انسان ذاتی مسئلہ سمجھتا ہے ۔عملی طور پر اس کام کا مطلب یہ ہے کہ ایمان و اخلاق کی دعوت کو اپنی ذاتی زندگی بنانے اور دوسرں تک ایمان و اخلاق کی اس نبوی دعوت کو پہنچانے کی بھرپور کوشش کی جائے ۔ جن اہل علم نے اس کام کے لیے زندگی داؤں پر لگادی ہے ان کی مدد کی جائے ۔یہی کرنے کا اصل کام ہے ۔
لائیو ٹی وی پروگرامز، اپنی پسند کے ٹی وی چینل کی نشریات ابھی لائیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
باربی کیوکلچر
یہ تربیتی نشست دن بھر کی تھی جس میں تقریر کے علاوہ سوال و جواب بھی تھے ۔اس کے علاوہ دوپہر کے کھانے میں باربی کیو کا انتظام تھا۔مسلسل مرغن کھانے کھا کر میرا نظام ہاضمہ خراب تھا اس لیے مجھے بھوک نہ تھی۔ چنانچہ ملبورن کی طرح یہاں بھی میں اس نعمت سے محظوظ نہ ہو سکا۔ ویسے بھی میں پاکستان سے بقرہ عید کے بعد آیا تھا اور سالانہ باربی کیو کی تمام محفلیں نمٹا کر ہی آیا تھا۔ لیکن یہاں احباب نے بتایا کہ باربی کیو قربانی کے بعد پوری کی جانے والی ایک سالانہ رسم نہ تھی بلکہ عام زندگی کا ایک حصہ تھی۔گھروں کے لان میں باربی کیوانگیٹھیوں کا مستقل اہتمام تھا۔ جبکہ عام طور پر پارکوں میں بھی انگیٹھیاں لگی ہوتی تھیں ۔
ملبورن میں جمعہ کے خطاب کے بعد جو باربی کیو ہوا تھاوہاں بھی انگیٹھیاں نصب شدہ تھیں ۔ دیگر پارکوں میں بھی میں نے یہ انگیٹھیاں مستقل لگی دیکھی تھیں ۔مجھے یہ بتایا گیا کہ باربی کیو کے لیے مصالحہ لگا ہوا تیار گوشت ملتا ہے اور اسے بس انگیٹھی پر بھوننا ہوتا ہے ۔
اس طرح کی تفریحات کے لیے ہر جگہ اور علاقے کا اپنا کلچر اور طریقہ ہوتا ہے ۔ میں نے سعودی عرب میں یہ کلچر عام دیکھا تھا کہ سعودی حضرات پکنک منانے کے لیے صحرا میں چلے جاتے ہیں ۔ وہاں خیمے لگائے جاتے ہیں اور کئی خاندان وہاں رات بھرٹھہر کر تفریح کرتے ہیں ۔ جبکہ بڑ ی شاہرا ہوں اور ہائی وے کی فٹ پاتھ پر بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ کھانا کھانابھی سعودی کلچر تھا۔(جاری ہے)
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 46 پڑھنے کیلئے یہاں کل کریں