کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی نئے دور میں 

کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی نئے دور میں 
کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی نئے دور میں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایڈورڈ VII ، مشہور برطانوی بادشاہ تھے۔ ایڈورڈ 22 جنوری 1901 ء سے 1910ء تک بھارت میں برطانوی راج کی کمان کے سربراہ بھی رہے۔ برطانوی تسلط کے باوجود جنگ آزادی کے بعد جو کام یہاں انگریزوں نے کیے، ان پر آج بھی مورخ حیران ہیں کہ کوئی قابض حاکم، اپنے غلاموں کے لیے اس طرح کے فلاحی کام کیسے کر سکتے ہیں۔ انہی میں سے ایک برصغیر میں میڈیکل کی تعلیم کے لیے قائم کیے جانے والے ادارے تھے۔میڈیکل کالج کلکتہ،مدراس میڈیکل کالج چنائی،گرانٹ میڈیکل کالج ممبئی کے بعد،انگریز دور میں 1860 ء میں لاہور میڈیکل کالج کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا۔ اس ادارے کا خیال 1857ء میں پیش کیا گیا، مگر جنگ آزادی کے پیش نظر چند سال اس پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔جب 1860ء میں یہ ادارہ قائم کیا گیا تو جنرل ہسپتال کلکتہ کے ڈاکٹر آئی بی شری وان کو اس کا پہلا پرنسپل بننے کی دعوت دی گئی۔ 
ڈاکٹر شری وان اور ڈاکٹر سمتھ 10 اکتوبر1860ء کو یہاں تشریف لائے اور یہاں پہلا میٹرک کا امتحان ، یکم نومبر 1860ء میں لیا گیا۔1860ء میں آرٹلری بیرکس کے ساتھ ملحقہ اس کالج کے ہسپتال میں صرف 56 مریض داخل تھے۔1863 ء میں 27 طالب علموں نے یہاں سے ڈاکٹری کا امتحان پاس کیا اور ایک طالب علم جان اینڈریو نے جراحی کا سب اسسٹنٹ سرجن امتحان پاس کیا،یوں اس کالج سے پیدا ہونے والا پہلا بڑا ڈاکٹر ایک سرجن تھا۔
1864ء میں اس کالج کی عمارت کو شاہ عالمی دروازے کے پاس انار کلی سے ملحقہ ایک ڈسپنسری کے پاس منتقل کردیا گیا۔ اس کالج کے عملی طور پر کام کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ صدیوں سے جاری حکمت کی تعلیم، نیم حکیمی ڈاکٹری اور فرسودہ روایات تھیں۔ یہاں کے مقامی افراد جہاں اس کو انگریز کی تعلیم کہہ کر ردکر رہے تھے ۔وہیں ویسٹرن یا مغربی طریقہ علاج کو اپنے لیے زہر مانتے تھے۔
1867ء میں برصغیر میں پیچس کی بیماری کی وبا پھوٹی اور اس کالج سے بنے ڈاکٹروں نے جب متاثرہ علاقوں میں اپنی خدمات انجام دیں تو یہاں کے مقامی لوگوں میں اس کالج اور اس کی تعلیم کے لیے ہمدردیاں پیدا ہونے لگیں۔ 1868ء میں یونیورسٹی آف ڈبلن کی جانب سے اس کالج کو وہی تعلیمی مراعات دی گئیں،جو ڈبلن میں انگریزی سکولوں کو حاصل تھیں۔1870ء میں یہ کالج اتنی مقبولیت حاصل کرگیا کہ لیفٹنٹ گورنر آف پنجاب، مسٹر او ایف میکلوڈ نے یہاں سے جاتے ہوئے ڈاکٹر شری وان اور ڈاکٹر سمتھ کی خدمات کو خوب خراج تحسین پیش کیا۔1871ء میں انار کلی ڈسپنسری کو ختم کرکے ،اس کالج سے ملحقہ میو ہسپتال کا قیام عمل میں لایا گیا۔اس ہسپتال کا نام ایرل آف میو کے نام پر رکھا گیا،جو اس وقت یہاں برطانوی راج کا امیر تھا۔ آرکیٹیکٹ پرڈون نے اس کا نقشہ بنایا اور رائے بہادر کنیا لال انجینئر نے یہ عمارت تعمیر کی۔


میو ہسپتال کی عمارت اطالوی فن تعمیر کا شاہکار نمونہ ہے۔ اس وقت ایک لاکھ، اٹھاون ہزار،نو سو اکاون روپے میں میو ہسپتال کی عمارت تعمیر کی گئی اور اس میں سے ایک لاکھ روپیہ گورنمنٹ آف انڈیا نے گرانٹ کیا تھا۔ اسی سال اس کالج کا الحاق پنجاب یونیورسٹی سے کردیا گیا۔ پٹیالہ بلاک اس کالج کی سب سے مشہور عمارت ہے اور کالج کی عمارت 1883 ء میں مکمل کی گئی۔ 1887ء میں لیڈی ایچ ای سن نامی ایک دوسرے ہسپتال کا اس کالج کے ساتھ الحاق کردیا گیا۔21 دسمبر ،1911ء میں لاہور میڈیکل کالج کو ایڈورڈ ایڈورڈ VII کی یاد میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا نام دے دیا گیا۔قیام پاکستان کے وقت ،یہ پاکستان کا واحد میڈیکل کی تعلیم کا ادارہ تھا۔2005ء میں حکومت پاکستان کے ایک چارٹر حکم کے ذریعے،کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کو آزادانہ حیثیت دیتے ہوئے، کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ 
اس وقت میو ہسپتال، لیڈی ویلنگٹن، لیڈی ایچ ای سن،کوٹ خواجہ سعید ہسپتال، گورنمنٹ سید مٹھا ، گورنمنٹ نواز شریف یکی گیٹ سمیت 7 ہسپتال اس یونیورسٹی کے ساتھ الحاق میں ہیں۔ انتظامی آخری دو عشرے اس کالج کے لیے بہت اہم ہیں۔ 1998ء میں مشہور نیورو سرجن افتخار علی راجہ ،کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پرنسپل تھے،یہ وہی معروف نیورو سرجن ہیں جو 2006ء میں بدقسمت ملتان فوکر جہاز کریش کا شکار ہوئے تھے۔ پروفیسر افتخار علی راجہ کے دور میں ہی کنگ ایڈورڈ کو علیحدہ حیثیت دینے کا آغاز ہوچکا تھا، اور یہ اس کالج کے پہلے پرنسپل سے چیف ایگزیکٹیو بنے تھے۔ 146ء سال کی تاریخ لیے ، جب اس کالج کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی بنایا تو پروفیسر ممتاز حسن اس کے پہلے وائس چانسلر تھے۔ پاکستان کے سب سے معتبر ادارے کالج آف فزیشن اینڈ سرجن کے موجودہ صدر اور معروف سرجن پروفیسر ڈاکٹر ظفر اللہ چوہدری نے بھی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں اکیس سال بطور سرجن خدمات انجام دیں،اور اس کالج کے وائس پرنسپل اور ڈین آف سرجری بھی رہے۔
2 اکتوبر، 2002ء میں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کے قیام کے بعد سے جب کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا، تو یو ایچ ایس کے ہوتے ہوئے، پاکستان میں تیزی سے بننے والے میڈیکل کالجز میں کنگ ایڈورڈ کو خاص پذیرائی نہ ملی اور یوں یونیورسٹی بننے کے باوجود یہ ادارہ 2005 ء کے بعد کسی قدر زوال کا شکار ہوگیا۔ حال ہی میں پنجاب میں راولپنڈی،ملتان اور فیصل آباد میں تین نئی میڈیکل یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا اور پورے پنجاب میں نئے سرے سے وائس چانسلر تعینات کیے گئے۔ اس ضمن میں فیصل آباد میں ڈاکٹر فرید ظفر ملتان میں پروفیسر ڈاکٹر ظفر تنویر، راولپنڈی میں پروفیسر عمر، فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی میں پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل کی تعیناتی عمل میں لائی گئی۔ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان بڑے اداروں کے سربراہان کی تعیناتی کے عمل کو مزید شفاف بنانا چاہتے ہیں، لہذا اس عمل کو چند ماہ میں ہی نئی سرچ کمیٹیوں کے ذریعے دہرایا گیا اور نئے سرے سے وائس چانسلرز کی میرٹ کی مزید جانچ پڑتال کے بعد تعیناتیاں شروع کی گئیں۔
فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل جب عہدے سے مستعفی ہوئے تو ان کی بہترین کاردگردگی اور سٹوڈنٹس میں بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے سوشل میڈیا پر پروفیسر گوندل کی حمایت میں ایک سیلاب امڈ آیا۔ سرچ کمیٹیوں نے میرٹ کی شفافیت کو یقینی بناتے ہوئے، جب کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے دوسرے ریگولر وائس چانسلر کی حتمی فہرست مکمل کی توپروفیسر ڈاکٹر خالدمسعود گوندل صاحب کانام میرٹ میں پہلے نمبر پر تھا۔ پروفیسر گوندل ، بھی کالج آف فزیشن اینڈ سرجن کے سابق وائس پریزیڈنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹر جنرل انٹرنیشنل افیئرز ہیں۔پروفیسر ظفر اللہ چوہدری کی شاگردی میں، پروفیسر گوندل نہ صرف کئی سال سے اسی یونیورسٹی میں پروفیسر آف سرجری ہیں، بلکہ انہوں نے میڈیکل کی تعلیم بھی اس ادارے سے مکمل کی ہے۔ بطور وائس چانسلر فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی ، پانچ ماہ کے عرصے میں پروفیسر گوندل انقلابی کاموں کی وجہ سے کافی شہرت سمیٹ چکے تھے۔ ڈیڑھ سو سال سے زیادہ پرانی میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی میرٹ پر تعیناتی ایک مشکل ترین مرحلہ تھی۔ خاص طورپر سپریم کورٹ کے حکم کے بعد،اس میں شفافیت کے ہر معیار کو پرکھا جانا ،انتہائی اہم تھا۔ یوں پنجاب میں اکیسویں گریڈ میں سینئر ترین پروفیسر ہونے اور کالج آف فزیشن اور فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی میں خدمات اور تحقیقی شعبوں میں بے پناہ کام کرنے والے پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل کو 14 جون، 2018 ء کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کا دوسرا ریگولر وائس چانسلر تعینات کر دیا گیا۔
یاد رہے کہ لاہور میڈیکل سکول سے پہلا بڑا ڈاکٹر ایک سرجن تھا اور آج اسی ادارے سے تعلیم حاصل کرنے والاایک او ر بڑا سرجن ڈاکٹر اس ادارے کا سربراہ بنا دیا گیاہے۔ 2013ء میں صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جانب سے میڈیکل ایجوکیشن میں تمغہ امتیاز، ملکی اور غیر ملکی 100 سے زائد تحقیقی مقالاجات پبلیکیشن ، تیس سالہ تدریسی اور پندرہ سالہ انتظامی تجربہ رکھنے والے، پروفیسر گوندل کے لیے ڈیڑھ سو سال کی تاریخ لیے، برصغیر میں انگریزوں کے پہلے میڈیکل سکو ل سے آج ملک کی سب سے بڑی میڈیکل یونیورسٹی قرار دیے جانے ادارے کی سربراہی ایک چیلنج ہوگی۔ منڈی بہاوالدین کے ایک گاؤں واڑہ عالم شاہ کے سکول ہیڈ ماسٹر چوہدی سلطان محمود مرحوم کے فرزند درویش صفت پروفیسر ،اس یونیورسٹی کو اپنی جنم بھومی قرار دیتے ہیں ۔ وائس چانسلر بننے کے بعد، ٹیم ورک اور اجتماعی بصارت کے ساتھ دنیا کی بہترین میڈیکل یونیورسٹی بنانے کا ارادہ کیے دکھائی دیتے ہیں۔ صرف دو سالوں میں حکومت پنجاب نے صحت کے شعبے میں انتظامی طور پر انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں اور سپریم کورٹ کے حکم پر میرٹ کی سخت جانچ پڑتال کے بعد سامنے آنے والی تعیناتیاں ،حالات کو بہتری کی جانب لے جاتی دکھائی دے رہی ہیں۔دعا ہے کہ لاہور میڈیکل سکول سے چلنے والے سفرکا قافلہ، 2005ء میں بننے والی میڈیکل یونیورسٹی کے بعد سے جو اپنا مقام تلاش کررہا ہے ،وہ سخت میرٹ پر کی گئی تعیناتیوں کی شکل میں اسے آنے والے سالوں میں حاصل ہوجائے۔یہی ملک میں صحت اور اس سے جڑے اداروں کی اصل معراج ہے۔

۔

 نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -