گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 60
مَیں نے ستمبر 1945ء میں وائسرائے کی کونسل (کابینہ) میں وزیر دفاع کے عہدے سے اس لئے استعفا دی تھا کہ میرا ارادہ آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کا تھا کیونکہ ان انتخابات میں پنجاب کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا تھا۔ دہلی سے لاہور پہنچنے کے بعد میں نے پہلا کام یہ کیا کہ وزیراعلیٰ خضر حیات ٹوانہ سے ملاقات کی۔ وہ میرے دور کے رشتہ دار ہیں لیکن میرے اور ان کے والد کے درمیان بہت گہری دوستی تھی چنانچہ ہم دونوں بھی آپس میں بڑے اچھے دوست تھے اور وہ مجھے چھوٹے بھائی کی طرح عزیز تھے۔ میں نے انہیں مسلم لیگ میں شرکت کی دعوت دی لیکن انہوں نے انکار کردیا۔
پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ سرسکندر حیات کا جب 1944ء میں انتقال ہوا تو مَیں تعزیت کے لئے دہلی سے لاہور آیا تھا۔ اس وقت میں نے صوبہ کے گورنر سربرٹرنڈ گلینسی سے طویل بات چیت کی تھی۔ انہوں نے مجھے دعوت دی کہ اپنے صوبہ میں واپس آجائیے اور وزارت اعلیٰ کی ذمہ داری قبول کرلیجئے لیکن مجھے دہلی میں اب اپنی ذمہ د اریاں رفتہ رفتہ دلچسپ نظر آنے لگی تھیں۔ لندن میں 1936ء میں ہندوستان کے ہائی کمشنر کا منصب قبول کرنے سے پہلے مَیں دس سال تک اس صوبہ کا منتخب وزیر رہ چکا تھا۔ لندن میں اپنے سرکاری فرائض کی بدولت مجھے بین الاقوامی شخصیتوں سے تعلق پیدا کرنے اور بین الاقوامی امور کو سمجھنے کا موقع ملا تھا۔ مجھے ستمبر 1941ء میں وائسرائے کی کابینہ کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔ اس وقت مَیں نے محسوس کیا کہ مرکزی حکومت میں رہتے ہوئے مجھے اپنے ملک کی خدمات کا بہتر موقع ملے گااور یہ کہ صوبہ میں نئے لوگوں کو خدمت کا موقع ملنا چاہیے۔ اس وقت میں دہلی میں ہی رہنا چاہتا تھا لہٰذا میں نے سربرٹرنڈ کو مشورہ دیا کہ وزارت اعلیٰ کے منصب کے لئے سر خضرت حیات خان ٹوانہ کو دعوت دیں کیونکہ میری رائے میں وہ صوبائی قانون ساز اسمبلی میں اکثریتی ارکان کا مطلوبہ تعاون حاصل کرلیں گے اور ایک اچھے وزیراعلیٰ ثابت ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مَیں نے دہلی میں جب وزارت سے استعفیٰ دیا اور لاہور آیا تو سب سے پہلے سر خضر حیات سے ملاقات کے لئے گیا۔ مَیں نے انہیں پنجاب مسلم لیگ میں شمولیت کی دعوت دی اور مشورہ دیا کہ وہ پاکستان کے لئے جدوجہد کریں۔ مَیں نے انہیں یقین دلایا کہ آپ کو اپنے منصب سے محرومی کا اندیشہ نہیں ہونا چاہیے۔ مَیں آپ کا حریف بننا ہرگز گوارا نہیں کروں گا بلکہ اس کے برعکس آپ کی بھرپور حمایت کروں گا۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 59 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ بات واضح طور پر نظر آرہی تھی کہ انگریز ہندوستان چھوڑ دیں گے اور اب اس کا انحصار ہم مسلمانوں پر تھا کہ ہم ہندوستان کا بٹوارہ کراکے پاکستان بنوائیں لیکن چند بہت بڑے برطانوی حکام نے پنجاب کی یونینسٹ پارٹی کو یقین دلایا تھا کہ برطانیہ ہندوستان نہیں چھوڑے گا اور وہ سمجھتی تھی کہ وہ ہندوؤں اور سکھوں کے تعاون سے حکومت کی تشکیل میں کامیاب ہوجائے گی اگرچہ اس حکومت میں مسلمانوں کی تعداد بہت مختصر ہوگی۔ ان حکام کو غالباً یہ علم نہ تھا کہ لندن میں کیا ہورہا ہے اور اگر انہیں علم تھا بھی تو سیاست کا تقاضا یہ تھا کہ حقائق کو اپنے دوستوں سے آخری لمحہ تک اس توقع کے تحت چھپایا جائے کہ پاکستان نہیں بنے گا لیکن انگریز آخر ہندوستان سے نکلے۔ رائے عامہ کا احترام ان کے خمیر کا حصہ ہے۔ دوسرے ملکوں میں ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے مقبوضہ جات پر تسلط قائم رکھیں یا اپنے دوستوں کی حوصلہ افزائی کریں لیکن یہ سب کچھ اس وقت تک کرتے ہیں جب تک ان کے ملک کی رائے عامہ اس کی اجازت دیتی ہے۔ رائے عامہ خلاف ہوجائے تو وہ فوراً ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ انگریزوں کے دوست اگر اُن سے توقع کرتے تھے کہ وہ ایک ایسی حکمت عملی کا پرکاربند رہیں گے جو اگرچہ ان کے خیال کے مطابق بہترین حکمت عملی ہے لیکن ملک کے عوام کی اکثریت اس معاملہ میں ان سے تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں تو یہ حقیقت پسندی کے صریحاً منافی تھا۔ کلام اللہ میں بھی آیا ہے کہ ’’باری تعالیٰ ہمارے کاندھوں پر اتنا بوجھ نہ ڈال، جسے اٹھانا ہماری استطاعت سے باہر ہو۔‘‘
سرفضل حسین نے جب یونینسٹ پارٹی قائم کی تو اس وقت حالات مختلف تھے۔ میں ہندوستان کے ہائی کمشنر کے طور پر لندن جانے سے پہلے سولہ سال تک اس جماعت کا رکن رہا۔ 1936ء میں شاید ہی ہم میں سے کسی شخص کو یقین ہو کہ ہندوستان کی تقسیم عمل میں آسکتی ہے یا مسلم لیگ اور مسٹر جناح پاکستان بناسکتے ہیں لیکن اس دوران میں بہت سی تبدیلیاں آچکی تھیں اور جنگ کی وجہ سے سیاسی افکار و عزائم میں شدت آگئی تھی۔ کانگریش نے اس عرصہ میں برطانیہ پر ناجائز دباؤ ڈال کر فائدہ حاصل کرنا چاہا جبکہ مسلمانوں نے ہر حیثیت مجموعی جنگی کوششوں میں تعاون کیا۔ فطری بات ہے کہ جنگ کے بعد وہ انگریزوں سے کہیں زیادہ منصفانہ رویہ کی امید کرتے تھے اور انہیں یقین تھا کہ پاکستان کا مطالبہ مان لیا جائے گا۔ یونینسٹ لیڈر اس بدیہی حقیقت کو سمجھنے سے معذور تھے۔ وہ اپنے موقف پر ڈتے رہے نتیجہ یہ کہ ناکام ہوئے ۔ دنیا میں یہ سانحہ ان افراد اور جماعتوں پر اکثر گزرتا آیا ہے جو سیاست وغیرہ میں ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہیں۔ ہمیشہ وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جن میں مفاہمت اور رواداری کی روح کارفرما ہوتی ہے۔ یہ بات تو کوئی پیغمبر ہی بتاسکتا ہے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ بیشتر لوگ ان حالات میں وہی کرتے ہیں جو یونینسٹ پارٹی نے کیا یعنی وہ جماعت کے ضابطوں پر ثابت قدم رہتے۔ ذاتی مفادات کا حصول اگر ان کا مقصد ہوتا تو وہ اس وقت اپنی وفاداریاں تبدیل کردیتے جیسا کہ آئندہ اسی ملک میں بہت سے لوگوں نے ذرا ذرا سے عذر کی بناء پر کیا۔
ہندوستان میں عام انتخابات نومبر 1946ء میں ہونے والے تھے۔ اس سال میں نے پورے پنجاب اور شمال مغربی سرحدی صوبہ کا دورہ کیا۔ مجھے پنجاب کے ممتاز مسلم لیگیوں کے احساسات کا علم تھا۔ یہ نوجوان عزائم اور اعتماد سے سرشار تھے اور انہیں مسٹر جناح کی پوری پوری سرپرستی حاصل تھی۔ یہ لوگ سیاست میں میری و اپسی کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھ رہے تھے۔ انہیں یہ اندیشہ لاحق تھا کہ ان کی ساری نیک نامی کہیں میں نہ سمیٹ لوں اور اقتدار پر قبضہ نہ کرلوں۔ اگرچہ وہ مجھ پر اعتماد کرنے اور میرے ساتھ تعاون کرنے میں تامل کرتے تھے۔ اس کے باوجود مجھے ان کی حرکتوں پر کبھی غصہ نہیں آیا مَیں صرف مسلم لیگ کو انتخابات میں کامیاب کرانے کے لئے آیا تھا اور مجھے علم تھا کہ یونینسٹ پارٹی اور اس کے پختہ کار اور جمے جمائے لیڈروں کے خلاف جب تک خود میں زور نہیں لگاؤں گا، انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی آسان نہیں ہوگی۔ ایک سابق وزیر اور وائسرائے کی انتظامیہ کونسل کے ایک سابق رکن برائے دفاع کی حیثیت سے میرا منصب اور میرا وقار مسلم لیگ کا ایک بہت بڑا سرمایہ تھا جسے وہ دیہی علاقوں اور سرکاری اہلکاروں میں یونینسٹ پارٹی کا اثر زائل کرنے کے لئے استعمال کرسکتی تھی۔ آئندہ انتخابات کی بنیادی متحرک طاقت خود مختار مسلمان ریاست کا مطالبہ تھا۔
وہ سال اپنے تمام تر ولولہ انگیز تجربوں کے ساتھ میرے حافظہ میں تازہ ہے ان دنوں میں نے بہت جسمانی تکلیفیں اٹھائیں۔ میری بیوی کو اور مجھے ایک ہوٹل میں قیام کرنا پڑا کیونکہ لاہور میں میرا مکان چند سال پہلے فروخت ہوچکا تھا، لیکن دورے کرنا، تقریریں کرنا اورحکومت اور اس کی نوکر شاہی کے خلاف لڑنا جو اس وقت نہایت مضبوط تھی، میرے لئے ایک بالکل نیا تجربہ ثابت ہوا کیونکہ مَیں اس وقت تک ہمیشہ حکومت کا ایک حصہ ہوتا تھا۔ لاہور میں سبھی برسراقتدار لوگ میرے دوست تھے اور برسراقتدار پارٹی، میری پرانی پارٹی تھی لیکن ان کے مقابلہ میں دوسرا پلڑا کہیں بھاری تھا۔ یہ پاکستان کا مطالبہ تھا۔ اس لئے پرانی رفاقتوں اور وفاداریوں سے دست کش ہونا پڑا۔
مسلم لیگ پارٹی کے پیش نظر مسائل بہت سادہ تھے۔ مسلم لیگ کے لئے ایک ووٹ کے معنی تھے۔ پاکستان کے لئے ایک ووٹ۔ اصل مقابلہ مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں میں ہوا۔ ان علاقوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں تھے، ان کے بیشتر ووٹ خود بخود مسلم لیگ کے حق میں چلے گئے لیکن یہاں پنجاب میں انتخاب نے یہ صورت اختیار کی کہ ووٹ مسلم لیگ کو دیا جائے یا یونینسٹ پارٹی کو جبکہ دوسرے صوبوں میں مسلمان یا تو مسلم لیگ کے طرفدار تھے یا کانگریسی امیدوار کے حامی۔ پرانی پارٹیوں نے اپنی بھرپور طاقت کے ساتھ مقابلہ کیا اور نوکر شاہی کا پورا انتظامی ڈھانچہ ان کا حامی تھا۔
میں راولپنڈی شہر کے انتخابی حلقہ سے کھڑا ہونا چاہتا تھا لیکن صوبائی مسلم لیگ کمیٹی مجھے اس نشست کے لئے ٹکٹ دینا نہیں چاہتی تھی۔ میں نے ان لوگوں سے کہا کہ مَیں انتخابات لڑنے کے لئے کچھ ایسا بے تاب نہیں ہوں۔ آپ لوگوں کو مجھے ٹکٹ دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ مَیں انتخابی الجھنوں سے آزاد رہتے ہوئے مسلم لیگ کے مقصد کی بہتر طورپر حمایت کرسکوں گا اور اس سے مجھے بہت خوشی ہوگی لیکن آخر میں انہوں نے خود اصرار کیا کہ مجھے انتخاب میں کھڑا ہونا چاہیے۔
انتخابات جداگانہ رائے دہی کی بنیاد پر ہوئے تھے لہٰذا ہندو اور سکھ دونوں کسی مسلمان کو ووٹ نہیں دے سکتے تھے۔ مسلمانوں کے درمیان پہلی بار افراد کی بنیاد پر نہیں بلکہ اصولوں کی بنیاد پر مقابلہ ہورہا تھا۔ اگرچہ مسلم لیگ کی طرف سے معروف شخصیتوں کے مقابلہ نے انتخاب کو نسبتاً آسان بنادیا تھا۔
انجام کار انہوں نے مجھے وہ نشست دے دی جو مَیں چاہتا تھا چنانچہ میں آسانی سے جیت گیا۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ہماری پارٹی کے لیڈر مسٹر جناح نے اس معاملہ میں میری حمایت کی تھی۔
مشرقی پنجاب سے سات مسلمان منتخب ہونے والے تھے اور مسلم لیگ نے مختلف لیڈروں کو جب حلقے تقسیم کرنے شروع کئے تو مجھے ایک ایسے علاقے میں کام کرنے کی ہدایت کی جو اب مشرقی پنجاب کے نام سے موسوم ہے۔ وہاں ہندوؤں اور سکھوں کی اکثریت تھی اور وہاں مسلم لیگ کی حمایت میں کام کرنا آسان یا خطرہ سے خالی نہ تھا۔ ان لوگوں کو امید نہ تھی کہ ہم اس علاقہ سے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر ایک نشست بھی جیت سکیں گے۔ بہرحال مجھے خوشی ہے کہ مَیں نے ایسے امیدوار ڈھونڈے جو ساتوں نشستوں پر کامیاب ہوگئے۔ مجھے رہتک میں موزوں امیدوار نہیں مل رہا تھا اس لئے کہ یہاں کی نشست پر میرے ایک پرانے دوست یونینسٹ پارٹی کے شفیع علی خان کئی سال سے قابض چلے آرہے تھے۔ بہرحال یوپی کے نواب باغپت کی مدد سے میں نے ایک راجپوت وکیل کو ڈھونڈ نکالا جو اس نشست پر کامیاب رہا۔ بہاولپور کے وزیراعلیٰ سررحیم بخش کے بھتیجے صوفی عبدالحمید نے مجھے کہلا بھیجا کہ میرے حلقہ انتخاب میں آئیے اور لوگوں کو میرے حق میں تیار کیجئے۔
مَیں کار میں وہاں گیا اور دیکھا کہ گرانڈ ٹرنک روڈ پر کاروں کی ایک قطار لگی ہوئی ہے اور عبدالحمید صاحب اور ان کے احباب لال ترکی ٹوپی اور لمبی سیاہ اچکن پہنے میرے انتظار میں ٹہل رہے ہیں۔ پاس ہی پولیس کا ایک سکھ سب انسپکٹر کھڑا ہے وہ لوگ مجھے ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے کہ ہم لوگ جلسہ نہیں کرسکتے کیونکہ سکھ سب انسپکٹر نے، جو یونینسٹ پارٹی کا ہمدرد ہے، گاؤں والوں کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے جلسہ میں شرکت کی تو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چنانچہ تمام مسلمان اپنے مکانوں میں گھس کر بیٹھ گئے ہیں اور انہوں نے باہر آنے سے انکار کردیا ہے۔ مَیں نے ان سے کہا کہ ہم لوگ چونکہ اب یہاں آگئے ہیں اس لئے ہمارا فرض ہے کہ بہرحال گاؤں کے اندر جائیں ۔ ہم جب چلے گئے تو سکھ سب انسپکٹر بھی ہمارے ساتھ ہولیا۔ مَیں نے اس سے پوچھا ’’تم یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘
اس نے جواب دیا ’’جناب کی مبارک ہستی سے قریب تر رہنے کے لئے‘‘
جب ہم گاؤں کے قریب پہنچے تو مجھے ایک بات سوجھی اور مَیں نے ایک مسلم لیگی کارکن کے کان میں کہا کہ آپ گاؤں میں جائیے اور مسلمانوں سے کہیے کہ پولیس سب انسپکٹر نے تمہیں طلب کیا ہے۔ اس ترکیب سے گاؤں کے سبھی لوگ اکٹھے ہوگئے۔ مَیں نے ہندوؤں سے کہا کہ کانگریس پارٹی کی حمایت کریں، سکھوں سے کہا کہ اکالی پارٹی کی حمایت کریں اور مسلمانوں سے کہا کہ آپ مسلم لیگ کو ووٹ دیجئے۔ اس تقریر کے بعد گاؤں کی فضا ہی بدل گئی۔ ہندو نمبردار نے میرے لئے دودھ لانے کو کہا لیکن مَیں نے شکر یہ کے ساتھ انکار کردیا۔ا س علاقہ میں ہندو اور مسلمان ایک ہی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں سے کچھ مسلمان ہوگئے تھے۔ باقی ہندو مت پر قائم تھے۔ دونوں فرقوں کے درمیان تعلقات نہایت خوشگوار تھے۔(جاری ہے )