کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
یہ صفحات گواہ ہیں کہ ہم نے مسلسل قومی اتفاق رائے کی بات کی اور یہ اپیل کرتے رہے کہ اختلافات اپنی جگہ تاہم سیاسی جماعتوں اور عناصر کو قومی امور کے حوالے سے مل بیٹھ اور بات چیت کے ذریعے حل نکالنا چاہئیں، لیکن بدقسمتی سے ہماری یہ آواز نقار خانے میں طوطی سی رہی اور کسی نے کان نہ دھرا، معذرت سے عرض کروں گا کہ اس سلسلے میں تحریک انصاف کا رویہ نہ صرف سخت بلکہ غیرسیاسی رہا، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف میں سیاست دانوں کی جگہ وکلاء جمع ہو گئے اور قیادت بھی انہی کے ہاتھ میں جبکہ جماعت کے بانی عمران خان کی تاحال گرفت بڑی مضبوط ہے جو وکلاء تحریک انصاف کی قیادت کررہے ہیں، ان میں آئینی اور قانونی ماہرین اور اچھے وکیل ہیں لیکن ان میں کسی کو سیاسی تجربہ نہیں اور نہ ہی یہ سیکھنا چاہتے ہیں، میں نے اپنے ایک کالم میں عرض کی تھی کہ خصوصی نشستوں کے حوالے سے ان ماہرین آئین و قانون سے غلط فیصلہ ہو گیا اور ان کو نتائج بھگتنا ہوں گے اور بالکل ایسا ہی ہوا ہے، میں نے عرض کیا تھا کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اراکین کو سنی اتحاد کی بجائے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنا چاہیے تھی کہ وہ ایک رجسٹرڈ جماعت کے طور پر موجود ہے۔ الیکشن کمیشن نے سزا کے طور پر انتخابی نشان سے محروم کیا تھا۔ رجسٹریشن بدستور موجود تھی۔ تاہم وکلاء حضرات نے اندیشہ ہائے دور دراز کے تحت یہ فیصلہ کیا کہ سنی اتحاد کونسل ہی بہتر فیصلہ ہے، چنانچہ انہوں نے اسے ترجیح دی اور پھر اس کے نتائج بھگتے کہ پشاور ہائیکورٹ کی فل بنچ سے بھی ان کو ریلیف نہ مل سکی اور جب یہ مسئلہ سپریم کورٹ کی فل بنچ کے سامنے آیا تو وہاں سے ایسا فیصلہ آیا جس نے سب کو حیران کر دیا آٹھ فاضل حج حضرات کی طرف سے تحریک انصاف کو دی گئی ریلیف پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے اور اسی فیصلہ نے اتحادی حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ دور تک جائے اور اپنی دن رات کی نیند اور چین ترک کرکے 26ویں ترمیم منظور کرالے یہاں بھی انصافیئے مات کھا گئے، یہ اپنے آزاد اراکین پر 8رکنی فیصلے کے مطابق انحصار کرتے ہوئے یقین کئے رہے لیکن یہ بھول گئے کہ آزاد اراکین جب تک تحریک انصاف میں باقاعدہ شامل نہ ہوں وہ آزاد ہی رہیں گے الٹا ان کو یہ یقین ہوا اور دعویٰ کرنے لگے کہ خود مسلم لیگ(ن)کے کم از کم دس اراکین نے ترامیم کے حق میں ووٹ دینے سے انکار کردیا ہے۔سینیٹ میں صورت حال دیکھ کر بھی ان کو ہوش نہ آئی اور پھر قومی اسمبلی سے بھی حکومتی اتحاد کو ریلیف مل گئی اور 26ویں ترمیم منظور ہو کر اس پر عمل بھی شروع کر دیا گیا۔
حکومتی اتحاد نے جس خوف اور خود ان کے مطابق سازش کی وجہ سے یہ سب کیا اس کے لئے وہ بگٹٹ دوڑے اور آج نتیجہ سامنے ہے کہ جسٹس منصور شاہ تو چیف جسٹس نہ بن سکے البتہ تیسرے نمبر والے مسٹر جسٹس یحییٰ آفریدی کو یہ اعزاز حاصل ہو گیا اور اب وہ پرسوں حلف بھی اٹھا لیں گے کہ کل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریٹائر ہو رہے ہیں۔ چیف جسٹس کی تقرری کے سلسلے میں بھی تحریک انصاف کی وکلاء قیادت سے وہی بھول ہوئی جو 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے کرتے رہے کہ اپنی طرف سے اس کی راہ روکنے کے لئے مولانا فضل الرحمن کے در کے چکر لگاتے رہے لیکن یہ بھول گئے کہ مولانا اب ایک زیرک سیاست دان ہیں اور انہوں نے اپنی ”بیلسنگ پاور“ کو خوب استعمال کیا، مجھے تو ان میں بیک وقت نوابزادہ نصراللہ اور میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کی خوبیاں نظر آئیں اور میں نے ان کو لائل پور کا گھنٹہ گھر قرار دیا تھا، یہ حضرات خود اپنے بانی چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر مولانا فضل الرحمن سے ملاقاتیں کرتے رہے لیکن یہ سب اس لئے نہ تھا کہ کوئی بہتر فیصلہ ہو، یہ تو چاہتے تھے کہ مولانا اپنی پارلیمانی طاقت کا وزن ان کے پلڑے میں ڈال دیں اور 26ویں ترمیم منظور نہ ہو، لیکن بھول گئے کہ جن قوتوں نے یہ بساط بچھائی وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں، چنانچہ ان کی طرف سے اصول کے تحت کچھ لو، کچھ دو کے تحت فیصلہ کیا گیا اور مولانا کی تجاویز کو مان کر اپنے حق میں ہموار کرلیا، ان بیرسٹر حضرات سے تو بلاول بھٹو ہی بہتر رہا اور ہیرو بن گیا جس نے دن رات ایک کرکے نہ صرف مولانا بلکہ وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کو بھی ایک فیصلہ پر آمادہ کرلیا اور یہی سیاست بھی ہے جو تحریک انصاف والے نہیں جانتے، یہ احتجاج احتجاج کھیل رہے ہیں، حالانکہ ان میں آدھے لوگ ایسے ہیں جو اعتدال کی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔
مجھے کسی سیاست سے کوئی غرض نہیں، میرے لئے یہ ملک مقدم ہے اور میری فکر یہ ہے کہ ہم جو استحصالی نظام میں رہ کر بھی زندہ درگور ہیں اگر معیشت کو سامراجی انداز سے بھی مستحکم نہ کر پائے تو پھر کیا ہوگا۔ میری عمر گزر چلی میری اگلی نسلوں کا کیا بنے گا، دشمن تو ہمیں ہر وقت تباہ کرنے کی فکر میں ہے۔ اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ کا گٹھ جوڑ ملاحظہ کرلیں جو بے گناہ اور معصوم لوگوں کی نسل کشی کررہے ہیں اور اپنے توسیعی پروگرام پر عمل پیرا ہیں، میری پھر استدعا ہے کہ سنبھل جائیں گے، توبہ کریں اور اللہ سے پناہ مانگ کر راہ راست پر آ جائیں۔
میں فاضل ترین 8ججوں کے اکثریتی فیصلے پر بات سے گریز کرتا چلا آ رہا ہوں، تاہم اب ان کی دو وضاحتوں کے بعد مجبور ہوں کہ میں بھی پوچھوں، مائی لارڈز کیا آپ کے فیصلے کے بعد نظرثانی کی درخواستیں خارج ہو چکی ہیں کہ آپ وضاحت کرتے ہوئے فیصلے پر عمل درآمد کا حکم دے رہے ہیں، کیا ان نظرثانی اپیلوں پر فیصلہ ہو گیا اور اگر آپ کے حکم پر الیکشن کمیشن عمل درآمد کرے تو کیا یہ درخواستیں از خود خارج یا بے کار نہیں ہو جائیں گی، یہ کیسا انصاف ہے کہ آپ حضرات اپنے فیصلے پر تو عمل درآمد کرانا چاہتے ہیں، لیکن معترض حضرات کی اپیلوں کو نظر انداز کر رہے ہیں، نظرثانی اپیلیں سنیں اور خارج کر دیں، فیصلے پر از خود عمل ہو جائے گا، آپ کیسے منصف ہیں کہ اپنا کیا ہر صورت پورا کرانا چاہتے ہیں، شائد اسی وجہ سے اب تو وزیراعظم نے یہ کہہ دیا کہ کہا جاتا تھا 25اکتوبر گزر جانے دو، پھر ان کو گھر بھیج دیں گے اور تحریک انصاف والے کس برتے پر کہہ رہے تھے اور اب تک مصر ہیں کہ یہ حکومت 30اکتوبر تک چلی جائے گی۔
میں اب بھی محتاط اورپھر سے عرض گزار ہوں کہ غیر سیاسی عمل نہ کریں کہ چھاج بولے تو بولے چھلنی کو بولنے کی کیا ضرورت ہے، براہ کرم مل بیٹھیں اور ملکی بہبود کی خاطر متفقہ فیصلے کریں یہ نہیں کہ کمیٹی میں شامل تو ہیں، کارروائی میں حصہ نہیں لیں گے، یہ رویہ درست نہیں اور پھر آپ 8فروری کے نتائج کی بناء پر موجودہ حکومت کو مانتے ہیں اور اسے غیر آئینی کہتے ہیں اور انہی انتخابات کے نتیجے میں خیبرپختونخوا کی حکومت کو آئینی قرار دیتے ہیں جسے مولانا فضل الرحمن اور اے این پی سمیت پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) والے دھاندلی زدہ حکومت کہتے ہیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔