اگست 1947ء سے 1954ء تک آئین ساز اسمبلی میں کیا ہوا، کتنا کام کیا، کتنی سازشیں ہوئیں،7 سال تک اسمبلی کے ارکان کیا کرتے رہے؟

اگست 1947ء سے 1954ء تک آئین ساز اسمبلی میں کیا ہوا، کتنا کام کیا، کتنی سازشیں ...
اگست 1947ء سے 1954ء تک آئین ساز اسمبلی میں کیا ہوا، کتنا کام کیا، کتنی سازشیں ہوئیں،7 سال تک اسمبلی کے ارکان کیا کرتے رہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:63
 پاکستان میں مرکزی آئین ساز اسمبلی نے 1954ء تک آئین نہیں بنایا جبکہ بھارتی آئین ساز اسمبلی نے ایک سال میں ہی آئین بنا کر نافذ کر دیا۔ جبکہ پاکستان میں بابائے قومؒ کی وفات کے بعد آئین ساز اسمبلی نے اپنا کام کیوں مکمل نہیں کیا؟ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ اس کے بارے میں ابھی تک کوئی مصدقہ تفصیلات سامنے نہیں آئیں جو کہ تاریخ کا قرض ہے۔ پاکستان کے سابق وزراء اعظم میں بہت پڑھے لکھے لوگ بھی رہے ہیں۔ ارکان آئین ساز اسمبلی بھی زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ تھے اور پھر اسمبلی میں جو کچھ ہوتا رہا یہ سب بھی ریکارڈ پر ہے۔ کسی نہ کسی ذمہ دار کو اس سلسلے میں آگے بڑھ کر یہ قرض ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس سلسلہ میں جو چند سوالات پیدا ہوتے ہیں وہ یہ ہیں: 
1:بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ نے آئین ساز اسمبلی میں 11 اگست 1947ء کو افتتاحی خطاب فرمایا تھا اور آئین ساز اسمبلی کو آئین سازی کے لئے جو بنیادی خطوط فراہم کئے تھے ان پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا……؟
2:قائد ملت لیاقت علی خان جب تک وزیراعظم رہے وہ باقاعدگی سے اسمبلی میں آتے رہے اور 1951ء میں اُنہیں شہید کر دیا گیا۔ اُس وقت تک آئین سازی کہاں تک ہو چکی تھی……؟
3:علماء کرام کی منظور کی گئی قرارداد مقاصد کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ آئین ساز اسمبلی کے سامنے تو قرارداد پاکستان 1940ء اور اس قرار داد میں ترامیم و اضافوں کے لئے 1946ء کی منظور کردہ قراردادوں کی ضرورت تھی۔ علماء کرام کی قرارداد مقاصد کیا معنی رکھتی ہے……؟
4:اگست 1947ء سے 1954ء تک آئین ساز اسمبلی میں کیا ہوا…… کتنا کام کیا گیا…… کتنی سازشیں ہوئیں ……7 سال تک آئین ساز اسمبلی کے ارکان کیا کرتے رہے۔؟
یہ 4 موٹے موٹے سوال ہیں۔ جن میں ضمنی سوال بھی پیدا ہوتے ہیں کہ بابائے قوم کے انتقال کے بعد ملک غلام محمد کو گورنر جنرل کن لوگوں نے منتخب کیا اور خواجہ ناظم الدین کو وزیراعظم کے عہدہ سے کیوں ہٹایا گیا…… سکندر مرزا کہاں سے آ کر صدر مملکت بن گئے…… یہ سب وہ سوالات ہیں جن کا جواب ابھی تک تاریخ کا قرض ہے۔ 
جمہوری دور میں اعلیٰ عدلیہ
میاں نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے سربراہ بہت خوش قسمت انسان ہیں کہ اُن کے دور حکومت میں جب صدر غلام اسحق خان نے اُن کی حکومت کوبرطرف کیا تومقدمہ سپریم کورٹ میں پیش ہوا۔ جہاں ڈیڑھ ماہ کی مسلسل سماعت کے بعد اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس سید نسیم حسن شاہ نے فل کورٹ کے ساتھ اس کیس کی سماعت کی۔ انہوں نے اس فیصلہ کو غلط قرار دیا۔نظریہئ ضرورت کو مسترد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے جمہوری حکومت کوبحال کر دیا۔ ڈیڑھ ماہ کے بعد بحال ہو جانے والے وزیراعظم کی اب یہ خواہش تھی کہ اُن کوبرطرف کرنے والا صدر جو ہے اس کو رخصت ہونا چاہئے۔ جو کسی اور طور پر ممکن نہ تھا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -