انتالیسویں قسط۔ ۔ ۔بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ
کافی عرصہ کے بعد کوہ جود(یا جوگ) کے مفسدوں نے فساد برپا کیا۔ شہاب الدین بذات خود وہاں گیا اور ان کو سزا دی۔ جب وہاں سے فارغ ہوا تو راستے میں بمقام دیمک(دھمیک) چند مفسد قوم کھگرات کے وقت شاہی خیمہ میں موقع پا کرچھپ رہے اور سلطاب کو بحالت خواب جام شہادت پلا دیا۔ اس نے تیس سال سلطنت کرکے ۶۰۲ھ میں شہادت پائی ۔ہندوستان کی تاریخ میں اس کا نام علاؤ الدین غوری ہی درج ہے مگر دراصل معز الدین نام تھا اور شہاب الدین خطاب ۔ غرض کہ اس ایک ہی لڑائی سے سلطنت اسلامیہ ہندوستان میں قائم ہوگئی۔‘‘
(احکم التاریخ المعروف مجبوب السلاطین حیدر آباد دکن )
بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ۔۔۔ اٹھتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
چونکہ لاہور کا ذکر اس مقالہ میں متعدد بارآچکا ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کی حقیقت پر مزید روشنی ڈالی جائے۔ اکثر مشہور و معروف تاریخ دانوں کا دعویٰ ہے کہ افغان حکمران سلطان شہاب الدین المعروف محمد غوری کو گگھڑوں اور کھوکھروں کے علاقہ میں جو دریائے جہلم کے کنارے بھیرہ اور خوشاب بلکہ میاں والی اور اٹک کے ضلعوں تک پھیلا ہوا تھا دھمیک کے مقام پر شہید کیا گیا تھا۔ یہ گاؤں جیسا کہ اس مقام پر شامل نقشے سے ظاہر ہے دریائے جہلم سے جانب مغرب تقریباً چار میل کے فاصلہ پرواقعہ ہے جو ایک قدیم اور تاریخی گاؤں ہے۔ یہ مقام ڈومیل سے شمال کو اور جی ٹی روڈ پر چکوال موڑ سے جانب مشرق تقریباً پانچ میل کے فاصلہ پر ہے۔ اس گاؤں میں ایک خستہ حال چبوترہ ہے۔ جسے مقامی لوگ غازی شہاب الدین غوری کا مزار کہتے ہیں اگرچہ وہ شہادت گاہ ہے۔
لاہور کا حدود اربعہ
واضح ہو کہ ان دنوں لاہور کا صوبہ علاقہ پشاور سے لے کر مشرق میں جہلم تک تھا جس کا صوبہ دارمحمد ابوعلی تھا۔ اور دوسرا صوبہ اس کے جنوب میں ملتان کا تھا۔ جس کا صوبہ دار امیر داد حسن نامی ایک شخص تھا۔ اور جہلم سے مشرق کی طرف پنجاب کا علاقہ جس کا مرکزی مقام سیالکوٹ تھا۔ مگر اس وقت وہ صوبہ دہلی میں شامل کیا گیا تھا۔ دہلی اس زمانہ میں دارالسلطنت بھی تھا۔ شہاب الدین محمد غوری نے دہلی کی حکومت پر قطب الدین ایبک کو مامور کیا تھا۔
بقول ابن خلدون، کھوکھروں کی بغاوت و سرکوبی:
کھوکھروں کا علاقہ لاہور اور ملتان کے درمیان ہے۔ کھوکھروں نے شہاب الدین غوری کی موت کی فرضی خبر سن کر بغاوت کر دی اور محاصل دینے سے انکار کر دیا۔ قطب الدین ایبک نے دریائے جہلم کے مغرب میں شاپور کے شمالی علاقہ پر(جو خوشاب اور بھیرہ وغیرہ کے سامنے پہاڑوں میں دور تک واقع تھا) لشکر کشی کی اور شہاب الدین نے انہیں تہ تیغ کیا۔ دھمیک کے مقام پر شہاب الدین کی شہادت شعبان ۶۰۲ھ میں ہوئی۔ ابن خلدون کے اس بیان سے لاہور کی حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ قوم ککریا کھکر اور گکھڑ وغیرہ لاہور و ملتان کے درمیان پہاڑوں میں رہتی تھی۔ کیونکہ ہر شخص بغیر سوچے سمجھے یہ سجھ سکتا ہے کہ قصبہ شاپور اور سردار لشر دانیال کافرکا مقام یعنی جودیاں یا جودی پہاڑ جو اس وقت مقامی زبان میں ٹلہ جوگیاں سے مشہور ہے اور اس کے ساتھ ہی متصل مشرق میں رہتاس قلعہ ہے اور اس سے جانب مغرب کو قدیم عام راستے پر تھوڑے ہی فاصلہ پر ڈومیلی کے قریب شمال میں مقام دھمیک اور نیز وہ تمام پہاڑی علاقے جہاں ککر یا کھوکھر اور کفار تراہیہ قومیں آباد تھیں اور جنہوں نے بغاوت کرکے اپنی سرکوبی کے لیے شہاب الدین غوری کو لشکر کشی کی دعوت دی تھی۔ وہ سارے مقامات پشاور والے لاہور اور ملتان کے درمیان واقع ہیں جو کہ پنجاب والے لاہور اور ملتان کے درمیان نہیں۔(جاری ہے)
چالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔