جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر69

جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر69
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر69

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کالی داس اپنا کام کرکے غائب ہو چکا تھا۔ جب میں کمرہ عدالت سے باہر آیا تو صحافیوں نے مجھے اور سبین کوگھیرلیا جومیرے ساتھ ہی باہر نکلی تھی۔ جب لوگوں کو اصل صورت حال معلوم ہوئی تو وہی لوگ میرے حق میں نعرے لگانے لگے۔ تھوڑی ہی دیر بعدمیں دوبارہ معاشرے کا باعزت فرد بن چکا تھا۔ جیسے ہی سپاہیوں نے ہمیں صحافیوں کے نرغے سے نکالا عمران مجھ سے لپٹ گیا۔ پھر میرے زخموں سے چور جسم پرنظر پڑتے ہی وہ الگ ہو کربولا۔
’’چلیں خان بھائی گھر چلیں‘‘ وہ بدوقت مجھے لوگوں کے نرغے سے نکال کر ٹیکسی میں بٹھانے میں کامیاب ہوا۔ جب ہم گھر پہنچے اورنازش مجھے اس حالت میں دیکھ کر رونے لگیں۔ عمران نے جلدی سے ڈاکٹر کوفون کیا جس نے آکرمیری مرہم پٹی کر دی۔ تھوڑی دیر بعد صائمہ اور بھائی صاحب پہنچ گئے۔ عمران کل ہی انہیں فون کرکے سارے حالات بتا چکا تھا۔ گھر آکرمیں نے اسکے کپڑے پہن لیے تھے سوائے سر کی ایک پٹی کے باقی پٹیاں لباس میں چھپ گئی تھی۔ آنکھ کی سوجن بھی کافی حد تک کم ہو چکی تھی۔ اس کے باوجود صائمہ کا رو رو کر برا حال تھا۔ اگر وہ مجھے کل دیکھ لیتی تو نہ جانے اس کا کیا حال ہوتا۔ بھائی صاحب میری حالت دیکھ کر طیش میں آگئے اسی وقت انہوں نے فون پر حکام بالا سے بات کی۔ میرا خیال تھا ڈی ایس پی جمال قریشی ، عمر حیات اور ساجد تولمبی مدت کے لئے گئے تھے۔ رات کا کھانا کھا کر ہم اپنے گھرآگئے۔ بھائی صاحب اور بچوں کے سونے کے بعدصائمہ میرے ساتھ لپٹ گئی۔

جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر68  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’اگر مجھے معلوم ہوتاکہ میرے جانے کے بعد یہ کچھ ہونا ہے تومیں کہیں نہ جاتی‘‘وہ بلک پڑی۔
’’ارے۔۔۔تم تو بالکل بچوں جیسی باتیں کر رہی ہو۔ جو مصیبت آنی ہوتی ہے وہ آکر رہتی ہے۔ میں تو خوش ہوں اگر تم یہاں ہوتیں تو رو رو کر نہ جانے کیا حال کرلیتیں؟‘‘ میں نے ہنس کرکہا۔ کافی دیر رونے کے بعد جب اس کا جی کچھ ہلکا ہو اتوکہنے لگی۔
’’فاروق! کہیں یہ سب رادھاکی شرارت تو نہیں؟‘‘ اس نے خدشہ ظاہر کیا۔
’’یہ خیال تمہیں کیسے آیا؟‘‘ اسکی بات پرمیں چونک گیا۔
’’ہو سکتا ہے اپنے مکروہ عزائم میں ناکام ہو کر وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اترآئی ہو۔‘‘
’’کیا کہا جا سکتا ہے؟‘‘ میں نے مبہم سا جواب دیا۔
’’یہ بھی ہوسکتا ہے ساری شرارت کے پیچھے کھیدو چوہڑے کا ہاتھ ہو۔‘‘
اس نے شرمندگی سے سرجھکا لیا۔’’فاروق !ہماری وجہ سے آپ کو اس قدر تکلیف سہنا پڑی۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں یہ شرارت ضرور اس کالے بھجنگ ہوگی کچھ دیر اور باتیں کرنے کے بعد وہ سو گئی جس قدر ذہنی اور جسمانی اذیت کا سامنا میں نے پچھلے چوبیس گھنٹوں میں کیا تھا میرا دل ہی جانتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی مجھے کالی داس اور بسنتی کا خیال آیا۔ دونوں نے رادھا کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک مکروہ سازش کی اور مجھے پھنسا دیا۔۔۔ہاں اس میں قصور وار میں بھی تھا جو بسنتی کو حاصل کرنے کی خاطر انسانیت کی سطح سے نیچے گر گیا۔
کچھ بھی ہو کالی داس نے بہرحال مجھے اس مشکل صورتحال سے یوں نکال دیا تھا جیسے مکھن میں سے بال۔ ہر چند کہ مجھے اس مصیبت میں پھنسانے والا بھی وہی تھا لیکن اگر وہ میری مدد نہ کرتا تومیں اس کا کیا بگاڑ لیتا۔ لیکن رادھانے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا تھا۔ اچانک مجھے رادھا کی یاد آئی کہ اگرمیں نے کسی عورت سے جسمانی مراسم اختیار کیے تو وہ میری مدد نہ کر پائے گی اورمیرے دشمن ایسے ہی کسی موقع کے انتظار میں ہیں۔ اس نے مجھے وقت سے پہلے ہی خبردار کردیا تھا لیکن میری ہوس آہ۔۔۔
سرد آہ میرے سینے سے خارج ہوگئی۔ میں نے ایک نظر صائمہ پر ڈالی اس کا معصوم چہرہ دنیا جہاں کی فکروں سے آزاد تھا۔ قصور وارکون تھا۔
میں خود۔۔۔
کالی داس اور بسنتی
یا پھر رادھا۔۔۔؟
سوچنے سے میرے سر میں درد ہونے لگا تو میں نے سر جھٹک کر خیالات سے چھٹکارہ حاصل کیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ مہربان نیند نے اپنی آغوش وا کر دی۔ دوسرے دن سارا سٹاف سوائے سبین کے میرے گھر آیا۔ مجھے باعزت طور پر بری ہونے پر مبارکباد دی اور اس مصیبت پر افسوس کا اظہار کیا جو بلا وجہ مجھے پیش آئی تھی۔ اب میں کیا کہتا؟ بھائی صاحب دو دن رہ کر واپس چلے گئے جاتے ہوئے انہوں نے ایک بار پھر اصرار کیا کہ ہم لوگ ان کے ساتھ واپس چلے جائیں لیکن پروفیسر صاحب جن کے ساتھ بھائی صاحب کی اچھی خاصی دوستی ہوگئی تھی نے سمجھایا اس طرح چلے جانے پر وہ شرمندگی محسوس کریں گے کہ میرے بنگلے کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا۔ بچوں سے کہہ دیا گیا تھا کہ بابا ایکسیڈنٹ کی وجہ سے زخمی ہوگئے۔ یہ بات انہیں صائمہ نے خود ہی سمجھا دی تھی۔ سبین ایک ہفتے کی چھٹی پر تھی۔ اسی دوران ہی اس نے اپنی ٹرانسفر کسی اور شہرکرالی۔ اس میں بھی یقیناً کالی داس کی پراسرار قوتوں کو دخل تھا۔
دن ایک بار پھر پرسکون انداز سے گزرنے لگے۔ میں نے بینک جانا شروع کر دیا تھا۔ اس واقعہ کو تقریباً پندرہ دن گزرے تھے کہ ایک دن میں جب بینک سے واپس آرہا تھا مجھے راستے میں کالی داس نظر آیا۔ وہ سڑک کے کنارے کھڑا تھا۔ میری گاڑی دیکھ کر اس نے رکنے کا اشارہ کیا۔ میں خود بھی رکنے کا ارادہ کر چکا تھا کچھ بھی ہو وہ میرا محسن تھا۔(جاری ہے )

جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر70 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزید :

رادھا -