اشتہار دئیے،فیس بٹوری، نوکری نہ دی یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کا ٹوپی ڈرامہ۔۔!

اشتہار دئیے،فیس بٹوری، نوکری نہ دی یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کا ٹوپی ڈرامہ۔۔!
 اشتہار دئیے،فیس بٹوری، نوکری نہ دی یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کا ٹوپی ڈرامہ۔۔!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ملک بھر میں یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے لگ بھگ چھ ہزار سٹورز ہیں، یہ ادارہ اکہتر میں قائم ہوا۔ صدر دفتر اسلام آباد میں ہے جہاں تیرہ رکنی بورڈ آف ڈائریکٹر مع چیئرمین اور ایم ڈی تشریف رکھتے ہیں۔ تقریبا چودہ ہزار ملازمین (بشمول ڈیلی ویجز ملازمین) اس ادارے کے ساتھ سالہا سال سے وابستہ ہیں۔ اٹھائیس اور انتیس مارچ دو ہزار پندرہ کو ادارے کے اعلی حکام نے گریڈ سات سے سولہ کیلئے چھ سو تینتیس آسامیوں کی تشہیر کی۔ ان آسامیوں کیلئے ملک بھر سے اکیس ہزار سے زائد بے روزگار نوجوانوں نے قسمت آزمائی کی۔ امیدواروں کی ہائرنگ بذریعہ این ٹی ایس مطلوب تھی لہذا اس مد میں فی کس چار سو روپے وصول کئے گئے۔ گریڈ سولہ کیلئے البتہ ساڑھے چار سو روپے فی کس بٹورے گئے۔ ابتدائی سکریننگ کی بھٹی سے گزر کر اکتیس سو پینسٹھ افراد کوالیفائیڈ قرار پائے۔ لیکن اکتوبر دو ہزار پندرہ میں انہی آسامیوں کیلئے دوبارہ اشتہارات جاری کر دئیے گئے۔ جی ہاں! واقعی دو بارہ اشتہارات جاری کئے گئے۔ کیونکہ تیرہ رکنی بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ایک 'اہم' اجلاس میں 'اْچ ادھیکاریوں' کو اچانک 'الہام' ہوا کہ کوالیفائیڈ امیدوار تو مطلوبہ معیار پر ہی پورا نہیں اترتے۔ اس لئے ان آسامیوں پر دوبارہ اشتہار دیا جائے۔


خیر۔۔! جو احکامات جاری ہوئے ان پر من و عن عمل ہوا۔ جنوری دو ہزار سولہ کے پہلے ہفتے میں انہی آسامیوں پر ایک بار پھر اشتہار جاری کئے گئے۔ ملک بھر سے کل ستائیس ہزار پانچ سو پچانوے درخواستیں وصول ہوئیں۔ دو ہزار پندرہ اور سولہ میں مجموعی طور پر پچاس ہزار کے قریب بے روزگار اہل وطن عرضیاں ہاتھوں میں تھامے این ٹی ایس اور ابتدائی سکرینگ سے گزرے۔ ان دو برسوں میں این ٹی ایس کی مد میں دو کروڑ روپیہ کمایا گیا۔ پھر وہی مرحلہ آن پہنچا۔۔ یعنی اعلیٰ حکام کو پھر سے الہام ہوا کہ نہیں نہیں۔۔!! کارپوریشن تو مالی طور پر اس قابل ہی نہیں کہ مزید چھ سو تینتیس افراد کا بوجھ اٹھاسکے۔ لہذا ان مہان ہستیوں نے ادارے کی 'پتلی' مالی حالت کی وجہ سے ہائرنگ کا عمل مکمل طور پر ٹھپ کر دیا۔ شارٹ لسٹ ہوئے امیدوار تاحال اچھی خبر سننے کیلئے بے تاب ہیں لیکن شاید انہیں علم نہیں کہ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن میں ان کا دور دور تک کوئی مستقبل نہیں۔ اور سنئیے۔۔ چودہ ہزار ملازمین کا حامل یہ ادارہ پہلے ہی سے ساڑھے تین ہزار ملازمین 'سرپلس' میں پال رہا ہے۔


حقائق اور تمام تر ثبوتوں پر مبنی اس واردات میں تین بڑے لطیفے ہیں۔ جو قارئین کے ذوق سلیم کی نذر کئے جا رہے ہیں۔
گزارش ہے کہ اگر ادارہ ہذا میں ساڑھے تین ہزار سے زائد ملازمین پہلے ہی سے 'سرپلس' میں تھے تو پھرمزید چھ سو تینتس ملازمین کی جگہ کیسے اور کیوں نکلی؟ پھر یہ کہ جب ابتدائی سکرینگ اور ٹیسٹ میں تین ہزار سے زائد امیدوار جنہیں آپ ہی نے 'کوالیفائیڈ' قرار دیا، ان کے بارے اچانک کیسے الہام ہوا کہ وہ مطلوبہ اہلیت پر پورے نہیں اترتے۔ ؟ حضور والا! یہ کیسا بھیانک مذاق ہے کہ آپ جناب ہی انہیں کوالیفائیڈ قرار دیتے ہیں اور آپ سرکار ہی ان کی اہلیت پر خط تنسیخ پھیر تے ہیں! تْف ہے۔۔!! یہی نہیں بلکہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کی 'ذہانت' پر 'دو حرف' بھیجنے میں بھی 'پلیز' ہچکچاہٹ کا شکار نہ ہوں کہ انہیں دو سال بعد ادراک ہوا کہ ادارے کی مالی حالت ناز ک ہے۔ یعنی دو سال آپ 'بھرتیوں' کا ڈرامہ کھیلتے رہے اور آپ کو ادارے کے مالی حالات کا علم تک نہ تھا۔ صریحاً ٹوپی ڈرامہ۔۔!! بلکہ یوں کہنے دیجئے کہ ادارہ ہذا نے دو سال تک پچاس ہزار بے روزگار نوجوانوں کو 'فْول' بنائے رکھا۔


بھلا ہو پشتخوا ملی عوامی پارٹی کے سینٹیر عثمان کاکڑ کا جنہوں نے بیس دسمبر کو سینٹ میں سوال اٹھایا کہ خدا را یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن میں ہونے والی بھرتیوں بارے معزز ایوان کو آگاہ کیا جائے۔ پھر متعلقہ وزارت یعنی صنعت و پیداوار کے وزیر غلام مرتضی جتوئی پیش ہوئے اور انہوں نے اوپر بیان کی گئی 'رام کہانی' تحریری صورت میں جمع کرائی۔ اکبر درانی ادارے کے ایچ آر جنرل منیجر ہیں۔ موصوف اس مدعے پر موقف دینے سے مسلسل بھاگتے رہے ،گویا خاکسار کے مقروض ٹھہرے ہوں۔ چلئے ہمارے نہ سہی۔۔ پچاس ہزار بے روزگاروں کے مقروض تو آپ ہیں ہی۔۔ ! انہیں کیا جواب دیجئے گا؟ ادارے کی انتظامیہ مہنگے داموں محض 'جملہ اوصاف' کے بل بوتے پر بڑے بڑے دفاتر میں براجمان ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔'انگریجی' زبان میں کہتے ہیں۔۔ 'اے بلائنڈ وویمن اِز لائنگ'۔۔ سوچتا ہوں۔۔ وویمن ہی کیوں؟ وائے ناٹ۔۔ 'این اَنا اِز لائنگ'؟

مزید :

کالم -