فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر589
ایوا گارڈنر ان بے باک اور بے لگام اداکاراؤں کی فہرست میں شامل ہیں جو اس زمانے میں بھی ہالی ووڈ کی بدنام اداکاراؤں میں سر فہرست تھیں۔ اس سے ان کی آزاد خیالی اور بے راہ روی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے مداحوں کی یادیں تازہ کرنے کے لیے ایوا گارڈنر کی چند معروف فلموں کے نام ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں۔
ریجنا روما، پریسٹ آف لو، دی کڈنیپسنگ آف دی پریذیڈنٹ، سٹی آن فائر، دی سینٹی فل دی بلیوبرڈ، دی کیسبینڈرا کراسکنگ، پرمیشن ٹوکل، ارتھ کوئیک، میئر لنگ، دی بالیبل، سیون ڈیزان مے، ۵۵ ڈیزان پیکنگ، دی ریجنل دور ریڈ، دی نیگڈماجا، آن دی بیچ، دی سن آلسورا لنرز، اراؤنڈ دی ورلڈ ان ۸۰ ڈیز، بھوانی جنکشن، دی بیئر فٹ کینٹ، یمبو، دی اسنوٹز آف کلی مینجارو، مائی فاربڈن پاسٹ، پینڈورا اینڈ فلائنگ ڈچ مین، دی گریٹ سنر، ون ٹچ آف وینس، شی وینٹ ٹو دی ریسیس ، ٹوگرلز اینڈ اے سیلر، بلونڈ فیور، لوسٹ اینجل، ینگ آئیڈیاز، ری یونین ان فرانس، دی ورڈانسنگ۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر588 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
***
ایسے فنکار فلمی دنیا میں بہت کم ہوں گے جن پر قسمت کبھی مہربان نہ ہوئی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ انہوں نے کم فلموں میں کام کیا تھا یا انہیں اچھے مواقع نہیں ملے تھے۔ جب کسی اداکارہ کو کئی سال تک فلموں میں کام کرنے کے بعد بھی کامیابی اور مقبولیت حاصل نہ ہو تو چند سال بعد وہ ہمت ہار جاتی ہے اور فلمی دنیا سے کنارہ کش ہو جاتی ہے مگر بعض حوصلہ مند فنکار ہمت نہیں ہارتے اور مسلسل جدوجہد اور کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ آج ایک ایسی ہی فنکارہ کی داستان سنیے۔
اس اداکارہ کو سب نجمہ کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ پاکستان کی فلمی صنعت کے ابتدائی زمانے کی ہیروئنوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ نجمہ نے اداکاری کا آغاز بمبئی سے کیا تھا حالانکہ لاہورمیں پیدا ہوئی تھیں۔ بڑے بڑے ہدایت کاروں، موسیقاروں اور معتبر فلم ساز اداروں کے ساتھ کام کرنے کے باوجود نجمہ نے آٹھ سال تک بمبئی کی فلموں میں کام کیا۔ وہ ۱۹۴۰ء میں بمبئی گئی تھیں۔ فلمی زندگی کا آغاز سائیڈ ہیروئن کے کردارد سے کیا اور کئی سال تک سائیڈ ہیروئن کے طور پر ہی کام کرتی رہیں۔ کافی عرصے بعد انہیں ۱۹۴۶ء میں ہدایت کار راجندر شرما کی فلم ’’چہرہ‘‘ میں ہیروئن کا کردار ادا کرنے کا موقع ملا تھا حالانکہ بمبئی میں اس کی پہلی فلم ’’کنوارہ باپ‘‘ تھی۔ یہ فلم ۱۹۴۱ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کے ہدایت کار کشور سا ہو تھے جو ہندوستان کے ایک ذہین اور تعلیم یافتہ ہدایت کار اور اداکار تھے۔ عصمت چغتائی اور شاہد لطیف کی فلم ’’بزدل‘‘ میں کشور ساہو نے نمی اور پریم ناتھ کے ساتھ ایک یادگار کردار ادا کیا تھا۔
یہ ایک نفسیاتی دوہری شخصیت کے انسان کا کردار تھا۔ عصمت چغتائی نے جس خوب صورتی سے یہ کردار تراشا تھا۔ ہدایت کار شاہد لطیف نے اتنی ہی ہنر مندی سے اسے اسکرین پر پیش کیا تھا اور کشور ساہو نے اس کردار کو ایک جیتا جاگتا زندہ جاوید کردار بنا دیا تھا۔ کشور ساہو نے بمبئی میں کئی فلمیں بطور ہدایت کار اور اداکار بنائی تھیں جن میں سے بعض کو نقادوں اور فلم بینوں نے بہت سراہا تھا لیکن وہ بہت کم اور اپنی پسند سے کام کرنے کے عادی تھے اس لیے ان کی شہرت بھی محدود ہی رہی۔
’’کنوراہ باپ‘‘ ایک مزاحیہ ہلکی پھلکی فلم تھی۔ کشور ساہو کے ساتھ پریتما داس گپتا نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ نجمہ کو اس میں ایک معمولی سا کردار ملا تھا مگر یہ نجمہ کے خوابوں کے تعبیر کے سلسلے میں پہلا قدم تھا۔ ان کو یقین تھا کہ اس فلم کے بعد انہیں بہت زیادہ فلموں میں کام کرنے کا موقع ملے گا۔ یہ فلم ۱۹۴۲ء میں ریلیز ہوئی تھی مگر خاص کامیابی حاصل نہیں کر سکی لیکن اس کے باوجود انہیں فلم ’’الجھن‘‘ میں پھر ایک معمولی سا کردار مل گیا۔ اس فلم میں مرکزی کردار مظہر خاں اور سردار اختر نے ادا کئے تھے۔ ان دونوں فلمون کے موسیقار چندرپال تھے۔ اگلے سال انہیں پھر دو فلموں میں معمولی سے کردار کرنے کا موقع مل گیا۔ جن میں سے ایک ’’آگے قدم‘‘ تھی جس کے ہیرو موتی لال اور ہیروئن انجلی دیوی تھیں۔ ۱۹۴۳ء ہی میں ان کی دوسری فلم ’’نئی زندگی‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں نجمہ کو سائیڈ ہیروئن کا کردار دیا گیا تھا۔ شیخ مختار اور انیس خاتون اس فلم کے مرکزی کردار تھے قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کی کہانی مکالمے اور گانے آرزو لکھنؤی نے لکھے تھے۔ نجمہ نے اس کردار کو نبھانے کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں صرف کر دی تھیں کیونکہ انہیں یقین تھا کہ اس کے بعد انہیں ہیروئن کا مرکزی کردار ضرور مل جائے گا لیکن یہ فلم کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر سکی جس کی وجہ سے نجمہ کی آرزو بھی پوری نہ ہوئی۔
’’نئی زندگی‘‘ کے بعد نجمہ ہیروئن تو نہ بن سکیں مگر ’’ڈاکٹر کمار‘‘ میں انہیں ویمپ کا کردار سونپا گیا۔ یہ ایک بہت اچھا کردار تھا جسے نجمہ نے بہت اچھی طرح نبھایا تھا۔ کشور شرما جیسے شخص اس کے ہدایت کار اور مصنف تھے۔ اس وقت کی کامیاب میوزک ڈائریکٹر سرسوتی دیوی نے اس کی موسیقی بنائی تھی۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود یہ فلم زیادہ کامیابی حاصل نہ کر سکی۔
۱۹۴۵ء میں نجمہ کی دو فلمیں نمائش کے لیے پیش کی گئیں جن میں سے ایک ’’نصیب‘‘ اور دوسری ’’پیا ملن‘‘ تھی۔ ان دونوں فلموں میں نجمہ نے سائیڈ ہیروئن کے کردار ادا کیے تھے۔ ’’پیا ملن‘‘ کے ہدایت کار ایس ایم یوسف اور موسیقار فیروز نظامی تھے۔ ’’پیاملن‘‘ ایک کامیاب فلم تھی۔
خدا خدا کرکے ۱۹۴۶ء میں نجمہ کو فلم ’’چہرہ‘‘ میں ہیروئن کا کردار سونپا گیا۔ اس فلم میں نجمہ نے بہت اچھی اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس سال ان کی ایک اور فلم ’’حق دار‘‘ تھی۔ اس فلم میں بھی نجمہ نے ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کے ہیرو ہریش تھے۔ رفیق رضوی اس فلم کے ہدایت کار تھے ’’حق دار‘‘ ایک ناکام فلم تھی۔
۱۹۴۷ء میں نجمہ کی تین فلمیں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔ ان میں ’’پروانہ‘‘ قابل ذکر ہے جس کی موسیقی خواجہ خورشید انور نے مرتب کی تھی۔ جے کے نندہ اس کے ہدایت کار تھے۔ اس فلم میں ثریا اور سہگل مرکزی کرداروں میں تھے۔ یہ ایک نغمہ بار فلم تھی جس کی موسیقی آج بھی لوگوں کویاد ہے۔ یہ ایک کامیاب فلم تھی جس میں نجمہ نے سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔
اسی سال ان کی دو فلمیں ’’قسم ‘‘ اور ’’شاہکار‘‘ بھی نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔ ’’قسم‘‘ میں نجمہ نے پریم ادیب کے ساتھ مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ سجاد جیسے موسیقار نے اس کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ نجمہ کی اداکاری اس فلم میں بھی بہت اچھی تھی۔ ’’شاہکار‘‘ میں نجمہ نے ایک بار پھر سائیڈہیروئن کا کردار کیا تھا۔ اس فلم کی کہانی اور مکالمے کمال امروہوی نے اور گیت آرزو لکھنوی نے لکھے تھے۔ یہ دونوں فلمی دنیا کے بہت ممتاز اور معتبر نام تھے۔ نجمہ کی یہ فلم بھی بے حدکامیاب ثابت ہوئی مگر کیونکہ وہ اس کی ہیروئن نہیں تھیں اس لیے بطور ہیروئن وہ نمایاں نہ ہو سکیں۔ شوبھنا سمرتھ اور پریم ادیب اس فلم کے مرکزی کردار تھے۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر590 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں