فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر590
۱۹۴۸ء میں بمبئی میں نجمہ کی فلم ’’دل کی آواز‘‘ تھی۔ اس کے فلم ساز اور ہدایت کار کرشن چندر جیسے نامور افسانہ نگار تھے۔ اس فلم میں بھی نجمہ نے سائیڈ ہیروئن تھیں۔ انہیں بمبئی کی فلمی دنیا سے روشناس کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ انہیں بمبئی کی فلم دنیا سے روشناس کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔
لاہور میں بھی اس وقت فلمیں بنا کرتی تھیں مگر بمبئی فلم مرکز تھا۔ بمبئی میں انہوں نے کافی تگ و دو کی اور انہیں فلم ’’کنوارہ باپ‘‘ میں ایک معمولی کردار مل گیا۔ انہوں نے بخوشی یہ کردار قبول کر لیا کیونکہ انہیں فلمی دنیا میں داخل ہونے کے لیے ایک موقعے کی تلاش تھی اور وہ پر یقین تھیں کہ ایک بار انہیں راستہ مل گیا تو وہ اپنی م منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ انہوں نے اس زمانے کے رواج کے برعکس کوئی ہندوانہ فلمی نام رکھنے کی بجائے ’’نجمہ‘‘ کانام اختیار کیا اور آخر وقت تک پھر اسی نام سے جانی پہچانی گئیں۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر589 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
نجمہ ۱۹۴۸ء میں اپنے وطن لاہور واپس آئی تھیں اور بمبئی میں کی فلموں کا تجربہ بھی ساتھ لے کر آئی تھیں۔ پاکستان میں فلمی صنعت اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی جدوجہد میں لڑکھڑا رہی تھی۔ نجمہ نے پاکستان میں ابتدائی فلموں میں اداکاری سے اپنے کام کا آغاز کیا تھا۔ پاکستان میں ابتدائی فلموں میں اداکاری سے اپنے کام کا آغاز کیا تھا۔ پاکستان میں ان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘ تھی۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ بمبئی میں کئی فلموں میں کامیاب اداکاری کرنے کے باوجود پاکستان میں انہیں ایک ویمپ کا کردار دیا گیا اس فلم کی ہیروئن آشا پوسلے تھیں۔ داؤد چاند اس کے ہدایت کار تھے۔ دلیپ کمار کے چھوٹے بھائی ناصر خاں جو اس وقت پاکستان میں تھے اس فلم کے ہیرو تھے۔ ’’تیری یاد‘‘ ۱۹۴۸ء میں ریلیز ہوئی تھی اور فلاپ ہوگئی تھی۔ اس لحاظ سے گویا بسم اللہ ہی غلط ہوئی تھی لیکن یہ کوئی غیر معمولی بات نہ تھی کیونکہ اس زمانے میں پاکستان کی فلمی صنعت بے سرو سامانی کے عالم میں تھی اور تمام ابتدائی فلمیں ناکامی سے دوچار ہوئی تھیں۔
پاکستان میں ان کی دوسری فلم ’’ہچکولے‘‘ تھی جس میں انہوں نے سدھیر کے ساتھ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ فلم کئی اعتبار سے امتیازی حیثیت کی حامل تھی۔ رادھیکا اس فلم کی ہیروئن اور مہندر ناتھ اس کے ہیرو تھے۔
پاکستان کا قیام عمل میں آچکا تھا اور ہر طرف ہنگامے ہو رہے تھے۔بمبئی کے مسلمان فنکار اور ہنر مند یا تو واپس پاسکتان آگئے تھے یا پھر واپسی کے لیے پر تول رہے تھے۔ نجمہ بھی اپنے وطن کی سر زمین پر واپس آنے کے لیے تیاریاں کر رہی تھیں۔
’’دل کی آواز‘ بمبئی میں نجمہ کی آخری فلم تھی۔ وہ ۱۹۴۱ء میں بمبئی گئی تھیں اور ۱۹۴۸ء میں سات سال کا طویل عرصہ گزارنے کے بعد جب پاکستان واپس آئیں تو انہیں کوئی امتیازی حیثیت حاصل نہ تھی۔ نہ تو وہ کوئی مستند اور مقبول ہیروئن تھیں اور نہ ہی سائیڈ ہیروئن کی حیثیت سے انہیں کوئی افتخار حاصل تھا۔ وہ ایک بری اداکارہ بننے کی تمنا لے کر لاہور سے بمبئی گئی تھیں لیکن افسوس کہ سات سال تک طویل جدوجہد کرنے کے باوجود وہ ادھورے خوابوں کے ساتھ واپس لوٹ آئیں۔
نجمہ کون تھیں۔ کہاں کی رہنے والی تھیں۔ فلمی دنیا میں کیسے آئیں؟
ان کا اصلی نام نسیم تھا۔ وہ ۱۹۲۲ء میں لاہور میں ایک معزز اور خوش حال گھانے میں پیداہوئی تھیں۔ وہ اپنے والد عبدالرشید کی لاڈلی تھیں جو ان کی کوئی خواہش نہیں ٹالتے تھے۔ انہیں انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم دلائی گئی تھی۔ وہ ایک شائستہ گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں اور بہت اچھے ماحول میں انہوں نے تربیت حاصل کی تھی۔ وہ ایک خوش جمال، خوش اخلاق اور خوش کلام لڑکی تھیں۔ نسیم کو بچپن ہی سے ادکاری اور رقص و موسیقی کا شوق تھا۔ ان کے اس شوق کے پیش نظر ان کے والد نے انہیں بمبئی جا کر فلمی صنعت میں قسمت آزمائی کرنے کی اجازت دے دی ۔ انہیں جس پہلی فلم میں ایک معمولی کردار ملا وہ ہدایت کار کشور ساہو کی ہلکی پھلکی فلم ’’کنوارہ باپ‘‘ تھی۔ وہی اس کے ہایت کار تھے۔ پرتماداس گپتا اس کی ہیروئن تھیں۔ یہ فلم ۱۹۴۲ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ ان کا فلمی نام نجمہ رکھا گیا تھا کیونکہ نسیم بانو کے نام سے ایک ہیروئن پہلے ہی موجود تھی۔ اس طرح انہوں نے ۱۹۴۱ء میں فلمی دنیا میں قدم رکھا تھا۔
نجمہ کی دوسری فلم ’’الجھن‘‘ تھی۔ اس میں بھی انہیں معمولی سا کردار ملا تھا مگر خوشگوار مستقبل کی آس میں وہ ہر فلم میں کام کرتی رہیں۔ اس کے بعد انہوں نے ’’آگے قدم‘‘ اور میں کام کیا۔ جس کے ہیرو موتی لال اور ہیروئن انجلی دیوی تھیں۔ ۱۹۴۳ء میں ان کی ایک اور فلم ’’نئی زندگی‘‘ بھی نمائش کیلیے پیش کی گئی جس کے مصنف اور نغمہ نگار آرزو لکھنوی تھے۔ شیخ مختار اس فلم کے ہیرو تھے۔ نجمہ نے اس فلم میں بہت اچھا کام کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے معاون اداکاروں کی حیثیت سے ’’ڈاکٹر کمار‘‘ میں ایک نفسیاتی کردار ادا کیا۔ کشور ساہو اس کے ہدایت کار تھے۔ آنے والے سالوں میں ’’پیا ملن‘‘ ، ’’چہرہ‘‘ اور ’’مقدار‘‘ شامل تھیں۔ ہیروئن کی حیثیت سے ’’چہرہ‘‘ ان کی پہلی فلم تھی کمل زمیندار اس میں ہیرو تھے۔ اب وہ ہیروئن بن چکی تھیں۔ ’’حق دار‘‘ ، ’’پروانہ‘‘ اور ’’قسم‘‘ میں بھی انہوں نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ یہ فلمیں ۱۹۴۷ء کے ہنگامہ خیز سال میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھیں۔ بمبئی میں ان کی ایک اور فلم ’’شاہکار‘‘ تھی۔ ان کی بہترین اور کامیاب ترین فلم ’’پروانہ تھی جس میں مرکزی کردار ثریا اور سہگل نے ادا کیے تھے۔ خواجہ خورشید انور نے اس فلم کی ناقابل فرماوش دھن بنائی تھیں۔ ’’قسم‘‘ بھی ان کی کامیاب فلم ثابت ہوئیتھی۔ ۱۹۴۸ء میں ممبئی میں ان کی آخری فلم’’دل کی آواز‘‘ کی ریلیز کے بعد وہ پاکستان چلی آئیں۔
پاکستان میں انہوں نے ’’تیری یاد‘‘ میں ایک دلچسپ کردار ادا کیا تھا۔ یہ نئے ملک میں ان کی فلمی زندگی کا آغاز تھا۔ آشا پوسلے اس کی ہیروئین اور ناصر خاں( دلیپ کمار کے بھائی) اس فلم کے ہیرو تھے۔ دوسری فلم ’’ہچکولے‘‘ میں انہوں نے یادگار کردار ادا کیا تھا۔ اس کے مصنف اور گیت نگار سیف الدین سیف تھے۔ ماسٹر عنایت حسین اس کے موسیقار تھے۔ اس کے فلم ساز شیخ محمد حسین اور ہدایت کار داؤد چاند تھے۔ یہ فلم ۱۹۴۹ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ انتہائی خوبصورت اور دلکش موسیقی کے باوجود یہ فلم فلاپ ہوگئی۔’’ہچکولے‘‘ کے چند گانے آج بھی لوگوں کو یاد ہیں۔
میں پیار کا دیا جلاتا ہوں
تم چپکے چپکے، چپکے سے آنا
اس کا سب سے مقبول نغمہ تھا۔
گویا پاکستان میں بھی نجمہ نے ناکامیوں سے ہی آغاز کیا تھا۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر591 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں