معیشت کا بیمار ٹائیگر
کل کی بات ہے ۔میں نے قائد اعظم انڈسٹریل ایریا میں ایک بڑی فیکٹری کے مالک سے سوال کیاکہ پاکستان ایشیا ء کا ٹائیگر بننے جارہا ہے ،آپ کیا سمجھتے ہیں یہ خواب پورا ہوجائے گا ۔وہ صاحب ہنس کر بولے کہ یہاں اگر ٹائیگر بھی قرضوں کا بوجھ اٹھا کر چلے گا تو کیا کرنا ہے ایشئین ٹائیگربن کر ،ایک کمزور ٹائیگر بن کر اپنی ہی بیماری پر غرانے اور دوسروں کو ڈرانے کی بجائے ہم گدھے ہی بھلے جو بوجھ اٹھا کر بھی ملک کو چلا تو رہے ہیں ۔انہوں نے ملامتوں کی گھٹری کھول کر رکھ دی اوربولے کہ سارا ستیاناس تو غیر یقینی سیاسی صورتحال نے کیاہوا ہے ۔سیاست کو قابو کریں تو پھر جو بھی معاشی پالیسی ہوگی ملک چل پڑے گا ۔جس ملکی معیشت سیاست سے جڑی ہو وہاں ٹائیگر پیدا نہیں ہوتے ،بس گدھے پروان چڑھتے ہیں ۔
واقعی یہ حقیقت بر مبنی بات ہے ۔دنیا بھر کے ترقی یافتہ ملکوں نے پہلے اپنی سیاست کے جنّ کو قابو کیا اور پھراقتصادی ترقی کی منزل پر پہنچ پائے ۔اس میں ان کو دھائیاں اورصدیاں بھی لگ گئیں لیکن جب سیاسی امن و استقامت کا راستہ پالیاتو پھر اس پر چل پڑے۔ پاکستان میں کارسیاست تجرباتی مراحل میں سے گذر رہے ہیں ،ابھی تو یہ عالم ہے کہ نہ ڈالر کنٹرول ہورہا ہے نہ مہنگائی ،کیونکہ ان کا کنٹرول کسی نہ کسی سطح پر جغادری سیاستدانوں کے ہاتھوں میں ہے جو سیاست کو کاروبار سمجھتے ہیں۔یہاں سیاسی حالات کے پلٹا کھاتے ہی جب اسٹاک مارکیٹ ڈاون ہوجاتی ہے اور کسی ایک بھی سیاسی فیصلے یا کسی انتشار کی گھڑی میں پاکستان کی معیشت ہچکولے کھانے لگتی ہے تو کہنا چاہئے کہ دراصل ہمیں ایک مضبوط سیاسی نظام کی ضرورت ہے جوکہ ملک کے اکنامک ٹمپریچر کا فیصلہ کرتا ہے ۔اس وقت حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر کسی بڑے سیاستدان کی تقدیر کا بھی عدلیہ فیصلہ سنانے جارہی ہوتو اسٹاک مارکیٹ کریش کرجاتی ہے جیسا کہ ہفتہ کے دن ہوا،سوموار کے دن میاں نواز شریف کا نیب کورٹ نے فیصلہ سنانا تھا مگر اسکے مضمرات کا اعلان پہلے ہی ہوگیا ۔کیا معیشت ایک نااہل یا سزا یافتہ سیاستدان و حکمران کے نتھنوں کا بال ہے جو کھینچ لیا جائے تو سینے میں درد جاگ اٹھتا ہے ۔ایسی غیر یقینی معاشی کیفیت سیاسی اشرافیہ کی بدمعاشی کا نتیجہ ہے تو پھر سوچنے اور سر کے بال نوچنے کا مقام ہے کہ ہم ایٹمی قوت ہوکر بھی اقتصادی قوت بننے سے گریزاں ہیں ،کیا اس موقع پر یہ سوال کرنا نہیں بنتا کہ بھلا ہوتا اگر نواز شریف 1998میں ایٹمی دھماکوں کو روکنے کا سودا کرکے امریکہ سے مالی امداد حاصل کرلیتے تو ملک کی معاشی صورتحال بدل جاتی ،جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد بھی تو یہی کیا ۔جب امریکہ نے کہا کہ اگر ہمارا ساتھ نہ دیا تو کھنڈر کے زمانے میں پہنچا دئیے جاؤ گے توجنرل پرویز مشرف نے دھمکی کے عوض اپنے تئیں پاکستان کی سنہری تقدیر کا فیصلہ کرلیا مگر پچھلے سترہ سالوں کا حساب کتاب کرکے دیکھنا چاہئے کہ ہماری معیشت تو ہوا میں معلق تھی ۔پانی پر بنیادوں کو استوار کرکے سب سے مضبوط پاکستان کا نعرہ لگایا گیا ۔اپنے لوگ امریکی سی آئی اے کو دیکر ان کے بدلے معاوضہ لیا گیا کہ ملک کا خزانہ خالی تھا اور دہشت گردی کی جنگ بھی لڑنی تھی ،پی ٹی آئی کی حکومت کے آنے کے بعد اس سنہری دور کی سیاہیاں اترر ہی ہیں تو جڑوں میں کھڑا گدلا و متعفن پانی بھی سامنے آ چکا ہے ،ہوا سرک چکی ہے اور معیشت کے خیالی محلات دھڑام سے نیچے آرہے ہیں ۔قرضوں پر کھڑی قوم دیکھ رہی ہے کہ 27 ہزار ارب سے زائد ملکی و غیر ملکی قرضہ انہیں ادا کرنا ہوگا ۔یہ قرضے معیشت کا پہیہ چلانے کے لئے آئی ایم ایف سمیت دیگر مالیاتی اداروں سے لئے گئے ۔مگر معیشت سے زیادہ بے نامی جائیدادوں کے مالکان سیاستدانوں و حکومتی اشرافیہ کے بینکوں میں منتقل ہوتے چلے گئے ۔
قصہ کوتاہ ،معیشت پر عوام تو رورہی ہے مگر اس سے زیادہ تاجر بزنس میں وتاجر روئے جارہا ہے ،سرمایہ دار بلک رہا ہے ۔جنرل مشرف کے دور میں یہ کیسی انڈسٹریل پالیسی تھی کہ انرجی کرائسسز سے تنگ پاکستانی سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں نے بنگلہ دیش ،چین سمیت دیگر ملکوں میں اپنی فیکٹریاں بنانی شروع کردی تھیں ،جو یہاں رہ گئے ،انہیں ٹیکسوں کی زنجیروں میں جکڑ کر مارا گیا ہے ۔پاکستانی سرمایہ دار کیا سوچ رہا ہے ؟ تاجر کی آنکھیں گاہکوں کو دیکھتے دیکھتے کیوں سوجنے لگی ہیں ؟ ظاہر ہے مہنگائی بڑھنے سے قوت خرید ختم ہورہی ہے ۔ کیا یہ غیر یقینی سیاسی صورتحال کا نتیجہ نہیں ؟ اس پر قومی مکالمہ کرنے کی بھی ضرورت ہے اور فوری اقدامات اٹھانے کی بھی ۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے