جمہوری حکومت کے پانچ سال:کیا کھویا، کیا پایا....؟

جمہوری حکومت کے پانچ سال:کیا کھویا، کیا پایا....؟
جمہوری حکومت کے پانچ سال:کیا کھویا، کیا پایا....؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر چکی ہے اور اپنی کارکردگی پر پھولے نہیں سما رہی، ایک دوسرے کو مبارکبادیں دی جا رہی ہیں اور اگلی بار منتخب ہونے کی منصوبہ بندی شروع کر دی گئی ہے۔ گزشتہ پانچ سالہ جمہوری دور میں عوام کے ساتھ جو ہوا آیئے اُس کی ایک جھلک دیکھتے ہیں۔
اشیائے ضروریہ کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح قرار دی جاتی ہے، اس محاذ پر حکومت دیگر کاموں کی طرح بے بس نظر آئی۔ آٹے کا20کلو کا تھیلا پانچ سال میں325روپے سے بڑھ کر670تک پہنچ گیا، چکی کے آٹے کی قیمت22روپے سے42روپے فی کلو، چینی 20روپے سے55روپے فی کلو ہے جو کہ دو سال پہلے اِسی حکومت کے دور میں120روپے فی کلو تک بھی فروخت کی گئی۔ دال چنا40روپے فی کلو سے بڑھ کر 100روپے فی کلو، گوشت جو کہ لوگوں کی پسندیدہ ڈش ہے ان پانچ برسوں کی مہنگائی کے باعث اب چھوٹا گوشت تذکروں میں ہی رہ گیا ہے۔ چھوٹے گوشت کی قیمت 350روپے سے650 جبکہ گوشت کی قیمت 180 روپے فی کلو سے بڑھ کر350روپے تک ہو گئی۔ چاول کے شوقین افراد کو چاول120روپے فی کلو خرید کرنا پڑتے ہیں جو کہ پانچ سال پہلے65روپے فی کلو میں دستیاب تھے۔ مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لئے دکانوں پر ریٹ لسٹیں آویزاں تو کی جاتی رہیں، لیکن گڈ گورننس نہ ہونے کی وجہ سے ان پر عمل کہیں نہ ہو سکا۔ پاکستان کا مطلب کیا ہے؟ اور یہ ملک کن مشکلات اور قربانیوں کے بعد ہمیں ملا۔ اگر ہم قائداعظم ؒ اور تحریک پاکستان کے تمام سپاہیوں کی انتھک محنت، کوشش، حصول پاکستان کے راستے میں حائل رکاوٹوں اور لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں ہی کو یاد رکھیں، تو شاید ہمیں اس سوال کا جواب آسانی سے مل جائے کہ پاکستان ہے کیا؟
افسوس آج ہم پاکستان کی پہچان اور مطلب بھول چکے ہیں، حکمران اور سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ ہم بھی سب کچھ بھول کر دُنیاوی لذت اور دولت کے لالچ میں اپنے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں، کسی کو خدا کا خوف نہیں رہا،کہ دُنیاوی لذتوں کو ختم کرنے والی موت نے بھی ایک روز آنا ہے۔ آج ایک طرف تو غریب بھوک اور بیماری سے مر رہے ہیں، دوسری طرف لوگ عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اقتدار اور روپے پیسے کی جنگ نے سارے نظام کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ شاید اِسی وجہ سے ہمارے ملک سے امن و سکون بھی جاتا رہا، ہر طرف افراتفری کا ماحول ہے۔ دہشت گردی، خود کش حملے، ٹارگٹ کلنگ، فرقہ واریت، ان سب کے پیچھے صول دولت یا اقتدار کار فرما ہے۔ یہ بات بھی سو فیصد درست ہے کہ اِن تمام عوامل کے پیچھے بیرونی طاقتوں کا ہاتھ ہے، مگر دولت و اقتدار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اِس وقت کئی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ باقاعدہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لوگ اقتدار میں آتے ہیں، بیرونی مفادات کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے پاکستان پر حکومت کرتے ہیں اور خوب دولت سمیٹ کر کسی بیرونی ملک چلے جاتے ہیں، پھر دوبارہ پاکستان کا رُخ نہیں کرتے۔ اِسی لئے ان کو پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کا کچھ احساس نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس کی ولولہ انگیز قیادت میں سپریم کورٹ، جنرل اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں پاک فوج، فخرالدین جی ابراہیم کی قیادت میں الیکشن کمیشن اور غیر جانبدار میڈیا، پاکستان میں دیانت دار قیادت کے لئے کوشاں ہیں، تو راستے میں روڑے اٹکانے کی بجائے جعلی ڈگریوں والوں کے حق میں دلائل دینے کی بجائے، بینک اور ٹیکس ڈیفالٹر سرکاری خزانہ لوٹنے والوں کے حق میں بات کرنے کی بجائے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو الیکشن کمیشن کے جرا¿ت مندانہ اقدامات کی کھل کی حمایت کرنی چاہئے تاکہ پاکستان کو ہمیشہ کے لئے نااہل اور کرپٹ قیادت سے محفوظ رکھتے ہوئے بحرانوں سے نکالا جا سکے، بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور میں دوسرے ملکوں کے بینکوں میں جمع پاکستانیوں کے 200ارب ڈالر واپس لا کر پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی شق بھی شامل کرنی چاہئے تاکہ پاکستان آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد ہو کر ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن ہو سکے۔ اصل تبدیلی خود کو تبدیل کرنے سے آتی ہے، جیسا کہ حضرت علی ؓ کا خوبصورت قول ہے کہ جو شخص یہ چاہتا ہے اس کی قسمت بدل جائے، تو وہ خود کو تبدیل کرے۔ پاکستان میں بہت کچھ کھو دیا گیا ہے،اب اور نہیں کھونا، فیصلہ کبھی عوام نے خود نہیں کیا، لیکن خدا کے لئے اس بار عوام خود فیصلہ کریں، صرف ایک بار!! ایک بار آزاد ہو کر ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن ہو جائیں۔      ٭

مزید :

کالم -