عوام کو مزید گمراہ نہ کریں

عوام کو مزید گمراہ نہ کریں
عوام کو مزید گمراہ نہ کریں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مجھے یقین ہے وہ تمام سازشی تھیوریاں دم توڑ دیں گی جو پچھلے کئی ماہ سے جاری ہیں اور جن کا مقصد سوائے بے یقینی پھیلانے کے کچھ نہیں۔ کئی تھیوریاں تو پہلے ہی دم توڑ چکی ہیں۔ اب صرف ایک تھیوری باقی رہ گئی ہے کہ عام انتخابات وقت پر نہیں ہوں گے کیونکہ فوج اور عدلیہ نے پہلے گند صاف کرنے کا ارادہ باندھ لیا ہے، ایسے حالات پیدا کر دیئے جائیں گے کہ عام انتخابات وقت پر نہ ہو سکیں اب یہ باتیں کیوں کی جا رہی ہیں کہ انتخابات کو ملتوی کرانے کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔ یہ سازش کون کر رہا ہے، کہاں ہو رہی ہے، کوئی بتانے کو تیار نہیں بس ایک سازشی تھیوری بیان کر دی گئی ہے، جس کا سر ہے نہ پیر۔

اس کے برعکس چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے کھل کر یہ کہہ دیا ہے کہ کوئی جوڈیشل مارشل لاء نہیں لگے گا اور نہ ہی فوجی مارشل لاء لگانے کی اجازت دیں گے۔ ملک کا مستقبل صرف اور صرف جمہوریت سے وابستہ ہے، آئین پر مکمل عملدرآمد کرایا جائے گا اس میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہونے دی جائے گی۔ اس سے پہلے چیف آف آرمی سٹاف بھی بار ہا کہہ چکے ہیں کہ فوج جمہوریت کے ساتھ ہے اور اسے ڈی ریل نہیں ہونے دے گی۔ اتنی واضح یقین دہانیوں کے باوجود اگر لفظوں کی جگالی کرنے والے ہر کام میں سازشی تھیوری تلاش کر لیتے ہیں تو ان سے بڑا سازشی اور کوئی نہیں ہو سکتا۔


جس عدلیہ کو نوازشریف آج برا کہہ رہے ہیں، اس کا تو شکر گزار ہونے کی ضرورت ہے، یہ عدلیہ ہی ہے جس نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ اب کسی غیر آئینی تبدیلی کو آئینی نظریہ ضرورت کی چھتری فراہم نہیں کی جائے گی۔ ایک طرح سے عدلیہ نے آئین پر شب خون مارنے کی روایت پر خطِ تنسیخ پھیر دیا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان میں فوج جب بھی اقتدار میں آئی، آمروں نے سپریم کورٹ سے نظریۂ ضرورت کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا سب سے پہلے ججوں کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کا پابند بنایا اور پھر اپنے اقدامات کی منظوری لی۔ اب یہ باب بند کر دیا گیا ہے۔ کوئی غیر آئینی راستے سے حکومت پر قبضہ کرتا ہے تو اسے نہ صرف سپریم کورٹ نظریۂ ضرورت کا سرٹیفکیٹ نہیں دے گی بلکہ اس کے خلاف آئین توڑنے کا مقدمہ بھی سنے گی۔ اس بات کی تعریف و ستائش کی جانی چاہئے مگر اُلٹا یہ کہا جا رہا ہے کہ عدلیہ فوج کے دباؤ پر فیصلے دے رہی ہے۔

آمریت کے آگے بند باندھنے والی عدلیہ کے بارے میں یہ کیونکر کہا جا سکتا ہے شکر ہے چیف جسٹس ثاقب نثار ماضی کے چیف جسٹس صاحبان کی طرح صرف اپنے ترجمان کے ذریعے ہی سپریم کورٹ کا موقف بیان نہیں کرتے بلکہ خود سامنے آکر وضاحت کرتے ہیں جس سے تمام شکوک و شبہات ختم ہو جاتے ہیں۔ اب یہی دیکھئے کہ شیخ رشید نے جوڈیشل مارشل لاء لگانے کی بات کی تو کئی لوگ کہنے لگے کہ دیکھا بلی تھیلے سے باہر آ گئی ہے یہی وہ منصوبہ تھا جسے جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف کو خیر باد کہتے ہوئے بہت پہلے بے نقاب کر دیا تھا کہ ملک میں عدلیہ کے ذریعے جمہوریت کی بساط لپیٹ کر عبوری سیٹ اپ قائم کیا جائے گا۔

اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی شیخ رشید کی اس تجویز پر تنقید کی اور اسے خلاف آئین قرار دیا۔ گویا اس بیان سے ایک لاوا پکنے کا خدشہ تھا، جسے چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود سامنے آکر ٹھنڈا کر دیا۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ ملک میں مارشل لاء نہیں آئے گا، جوڈیشل مارشل لاء کی آئین میں قطعاً گنجائش نہیں، آئین میں حکومت بنانے کا طریقہ بالکل واضح ہے سپریم کورٹ آئین پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گی اور کسی کو آئین کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں دے گی۔


اب اس کے بعد تو ساری ذمہ داری سیاستدانوں کے کاندھوں پر آ جاتی ہے وہ جمہوریت کے لئے اس ساز گار فضا سے فائدہ اٹھائیں۔ اچھی اور بہتر قیادت کے لئے کوشش کریں۔ چیف جسٹس نے تو حضرت عمرؓ جیسے کسی حکمران کی دعا مانگی ہے، چلیں ان جیسا نہ سہی کوئی ایسا تو ہو کہ جمہوری اقدار کو ہی اپنا سکے۔ عوام کو ایک بہتر گورننس دے کر ان کی زندگی میں مثبت تبدیلی لائے یہ تھیوری اب ناکام ہو گئی ہے کہ سیاستدان صرف یہ واویلا کرتے رہیں کہ ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں اُنہیں اب یہ تھیوری اپنانی چاہئے کہ پارلیمینٹ اپنا کام کرے گی۔ پارلیمینٹ میں 90 فیصد ارکان مٹی کے مادھو بن کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہ صرف حاضری لگوانے یا ہاں میں ہاں ملانے کے لئے آتے ہیں اصل ووٹ کی بے عزتی تو وہ کرتے ہیں، اپنے ووٹرز کی اسمبلی میں آواز نہیں بنتے اور معاشرے میں جس طرح تیزی سے مسائل بڑھ رہے ہیں ان کے بارے میں اسمبلی کا فورم ہی استعمال نہیں کرتے۔

اسمبلی میں تان اس نکتے پر ٹوٹتی ہے کہ یہاں جمہوریت کو چلنے نہیں دیا جا رہا۔ عجیب بات ہے کہ یہ عوامی نمائندے اسمبلیوں میں جمہوریت کی بات نہیں کرتے اور واویلا جمہوریت کے نہ چلنے کا کرتے ہیں۔ کیا پورا ملک مسائلستان نہیں بنا ہوا، ایک سے بڑھ کر ایک مسئلہ موجود ہے مگر اسمبلیوں میں یا تو کورم پورا نہیں ہوتا یا پھر ایسے ایشوز پر بات ہوتی ہے جن کا براہ راست عوام کے مسائل سے کوئی تعلق ہی نہیں۔

پاکستان میں ایک منصوبے کے تحت عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ انتخابات نہیں ہوں گے تاکہ عوام اس اُلجھن میں رہیں کہ انہیں ووٹ کا حق ملے گا یا نہیں، جب انتخابات قریب آ جائیں تو انہیں اچھے برے کی تمیز پر توجہ دینے کی بجائے یہی بات غنیمت لگے کہ چلو انتخابات ہو تو رہے ہیں یہی سوچ کر وہ برائیوں میں سے ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں پاکستانی عوام کو اب اس مخمصے سے نکل آنا چاہئے کہ انتخابات بروقت ہوں گے یا نہیں انہیں صرف اس پہلو پر توجہ دینی چاہئے کہ انتخابات میں انہوں نے ووٹ کسے دینا ہے اور ملک کی تقدیر کیسے بدلنی ہے انتخابات کے قریب آتے ہی بہت سے سیاسی مولوی ڈگڈگی لے کر میدان میں آ جاتے ہیں نئے اتحاد بنتے ہیں اور نئی سیاسی جماعتیں تبدیلی کا دعویٰ کر کے میدان میں اترتی ہیں حالات ساز گار ہوں تو ساری ذمہ داری ووٹروں پر آ جاتی ہے ملک کے چیف جسٹس اگر یہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ ملک میں نہ صرف انتخابات بروقت ہوں گے بلکہ ان کی شفافیت کو بھی یقینی بنایا جائے گا تو پھر کسی ووٹر کو یہ شک نہیں رہنا چاہئے کہ وہ اپنے ووٹ سے اچھے نمائندوں کا انتخاب نہیں کر سکتا ہے جو ملک کی تقدیر بدلنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ووٹروں نے اپنی زندگی میں کیا کچھ نہیں دیکھا کیسے کیسے نعرے نہیں سنے اور کیسی کیسی تحریکیں نہیں دیکھیں مگر ہوا تو کچھ بھی نہیں، ہر کوئی بے وقوف بنا کے چلتا بنا کل مولانا فضل الرحمن فرما رہے تھے کہ اس ملک میں عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر دھوکے دیئے گئے۔

تبدیلی کے نام پر بے وقوف بنایا گیا۔ وہ ٹھیک کہہ رہے تھے مگر وہ یہ بھی تسلیم کریں کہ آج انہوں نے متحدہ مجلس عمل کو دوبارہ زندہ کر کے ایک بار پھر اسلام کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دینے کی تیاری کر لی ہے میں تقریباً 45 سال سے سیاست کو بہت قریب سے دیکھ رہا ہوں، اس میں شامل بھی رہا ہوں یہاں سب کچھ دھوکے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے بھٹو کے خلاف جب تحریک نظامِ مصطفیٰ چلی تھی تو دعویٰ یہی کیا گیا تھا کہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے گا مگر بھٹو کے ہٹتے ہی مولوی صاحبان ضیاء الحق کی جھولی میں جا گرے اور انہوں نے جمہوریت کی بجائے آمریت کو سپورٹ کیا اس سے پہلے جو متحدہ مجلس عمل بنی تھی، اس کا جمہوریت کے لئے کیا کردار تھا وہ پرویز مشرف کا دایاں بازو بنی ہوئی تھی۔ سو انتخابات کے قریب آتے ہی بہت سے ڈرامے شروع ہو جاتے ہیں، جن کا مقصد سوائے عوام کو نئے سبز باغ دکھانے کے اور کچھ نہیں ہوتا۔


عوام کو کم از کم اب اس نکتے پر بالکل بے وقوف نہیں بننا چاہئے کہ ملک میں جمہوریت کو کوئی خطرہ ہے جمہوریت اب پاکستان میں ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے۔ اب مسئلہ صرف اسے مضبوط بنانے اور عوام کے لئے ثمر آور بنانے کا ہے یہ ذمہ داری عدلیہ پر ڈالی جا سکتی ہے اور نہ فوج پر، اس کی ذمہ داری صرف سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو اُٹھانی پڑے گی۔ دنیا بھر میں جمہوریت اس لئے کامیاب طرز حکومت سمجھی جاتی ہے کہ وہ عوام کے مسائل کا مداوا کرتی اور انہیں ایک خوشحال زندگی کا یقین دلاتی ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت عوام سے انتخابات کے بعد لا تعلق ہو جاتی ہے جب عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوتے تو اس خلاء کو پورا کرنے کے لئے عدلیہ مداخلت کرتی ہے یہ مداخلت جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے لئے نہیں ہوتی بلکہ اس کا مقصد سرکاری اداروں کو خواب غفلت سے جگانا ہوتا ہے۔

یہی بات چیف جسٹس بھی بار بار کہہ چکے ہیں ووٹ کی عزت کا بیانیہ صرف ایک نعرے کے طور پر اپنانے سے بات نہیں بنے گی بلکہ عوام کے ووٹ کو واقعی عزت دینی ہو گی۔ اچھے لوگوں کے انتخاب سے لے کر اقتدار میں آنے کے بعد عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنے تک کا عمل اگر نیک نیتی سے جاری نہیں رکھا جاتا تو یہ نہ صرف وعدہ خلافی ہو گی بلکہ جمہوریت پر عوام کے اعتبار کو بھی نقصان پہنچے گا۔ سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ اب بے پر کی اڑانے کا سلسلہ بند کر دیں، افواہوں کا بازار گرم کرنے کی بجائے آنے والے انتخابات کی تیاری کریں۔ اپنی انتخابی مہم کو عوامی و ملکی مسائل کے حوالے سے منظم کریں نہ کہ اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی اپنائیں، جس کی گنجائش ہے اور نہ ہی عوام اسے پسند کریں گے۔

مزید :

رائے -کالم -