بھارت میں مسلمانوں کی 14 ارب ڈالر کی جائیدادوں پر لوٹ مار، حکومت بھی شامل، الجزیرہ کی تہلکہ خیز رپورٹ

نئی دہلی (ڈیلی پاکستان آن لائن) بھارت کے شہر اجین میں جنوری میں حکام نے تقریباً 250 جائیدادیں، جن میں گھر، دکانیں اور ایک صدی پرانی مسجد شامل تھی، مسمار کر دیے تاکہ 2.1 ہیکٹر (5.27 ایکڑ) زمین کو صاف کیا جا سکے۔ یہ زمین مدھیہ پردیش وقف بورڈ کی ملکیت تھی، لیکن حکومت نے اسے مہاکال کاریڈور کے منصوبے کے لیے حاصل کر لیا۔
بھارت میں وقف املاک کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے، جن کی تعداد آٹھ لاکھ 72 ہزار سے زائد ہے اور یہ تقریباً 405,000 ہیکٹر (10 لاکھ ایکڑ) پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کی مالیت تقریباً 14.22 ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔ وقف بورڈز کو ملک کے سب سے بڑے شہری زمین مالکان میں شمار کیا جاتا ہے، جبکہ مجموعی طور پر یہ فوج اور ریلوے کے بعد تیسرے نمبر پر ہیں۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی پارلیمنٹ میں وقف ایکٹ میں ترمیم پر بحث متوقع ہے، جس کے تحت حکومت کو ان جائیدادوں پر پہلے سے زیادہ کنٹرول حاصل ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ مودی حکومت وقف املاک کو اپنے قابو میں لے کر مسلم اقلیت کا مزید استحصال کرنا چاہتی ہے۔
مدھیہ پردیش کی ریاست زیادہ تر بی جے پی کے کنٹرول میں رہی ہے۔ 2023 میں اجین کے بی جے پی وزیر اعلیٰ موہن یادو نے 2028 کے کمبھ میلے کی تیاریوں کے تحت وقف املاک پر قبضہ کیا، تاکہ ہندو یاتریوں کے لیے جگہ بنائی جا سکے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے 1985 کے سرکاری دستاویزات کو نظر انداز کر دیا، جن میں یہ واضح تھا کہ اجین کی زمین ایک مسلم قبرستان تھی، جہاں ایک تاریخی مسجد بھی موجود تھی۔
حکومت نے 3.8 ملین ڈالر کی رقم ان افراد کو معاوضے کے طور پر ادا کی جن کے گھر اور دکانیں مسمار ہوئیں، لیکن وقف بورڈ نے نہ تو اس زمین پر اپنا حق جتایا اور نہ ہی عدالت میں کوئی مقدمہ دائر کیا۔ مدھیہ پردیش کے وقف بورڈ کے چیئرمین اور بی جے پی رہنما ثناور پٹیل نے کہا کہ وہ پارٹی کے حکم کے مطابق عمل کریں گے کیونکہ وہ اسی کی بدولت اپنے عہدے پر ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وقف املاک کے انتظام میں ہمیشہ بدنظمی اور کرپشن رہی ہے، جس کی وجہ سے حکومتی افسران اور نجی قابضین ان پر غیر قانونی قبضہ کرتے رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش وقف بورڈ نے 1960 اور 1980 کی دہائی میں اپنے املاک کا سروے کیا، لیکن حکومتی محکمے نے ان کے ریکارڈ کو اپ ڈیٹ نہیں کیا۔
دیگر ریاستوں میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے، جہاں وقف کی ہزاروں جائیدادیں یا تو سرکاری قبضے میں چلی گئی ہیں یا پھر بااثر افراد کے کنٹرول میں ہیں۔ بی جے پی حکومت کے ایک این جی او کو 2021 میں بھوپال میں ایک وقف قبرستان پر قبضے کی اجازت دی گئی، جس کے بعد وہاں ایک کمیونٹی ہال تعمیر کیا گیا۔ مقامی مسلم آبادی کے احتجاج کے خدشے کے پیش نظر حکومت نے علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایک منظم طریقے سے وقف املاک پر قبضہ کیا ہے اور مجوزہ ترامیم کے ذریعے وہ قانونی طور پر ان پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ وقف زمینوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث حکومت نے ان جائیدادوں پر نظریں جما لی ہیں اور نئی قانون سازی کے ذریعے ان پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔