انارکلی، اردوبازار، سیکرٹریٹ کے اطراف تھڑوں پر پرانی کتابیں بیچنے کا عمل دہائیوں سے جاری
لاہور(افضل افتخار)صوبائی دارالحکومت میں قائم انارکلی بازار،اردو بازار،سیکرٹریٹ کے اطراف میں تھڑوں پر کتابیں بیچنے و خریدنے کا عمل گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے،تفصیلات کے مطابق انار کلی،اردو بازار،سیکرٹریٹ کے باہر کتابیں پڑھنے کے شوقین افراد سمیت ہزاروں کی تعداد میں طلبہ سستی کتابیں خریدکر اپنی پڑھائی مکمل کرتے ہیں جبکہ انہی جگہوں پر ادبی شخصیات،وکلاء اوراساتذہ بھی کتابیں خریدتے نظر آتے ہیں۔اس حوالے سے کتابیں بیچنے واے عمران نامی شخص نے کہا کہ میں 20 برس سے یہاں پرانی کتابیں فروخت کررہا ہوں تاریخی، ادبی،سیاسی اور سماجی موضوعات پرلکھی قدیم اورنادرونایاب کتابوں کے محافظ ہیں،لاہور میں بڑی عمدہ، کم قیمت اور نادر کتب دستیاب ہیں، انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے کتب بینی کے رحجان میں کمی آئی ہے،طالب علم اپنے کورس یاپھرریسرچ کے لئے پرانی کتابیں ڈھونڈنے آتے ہیں۔ ان کتابوں کی اہمیت آج بھی برقرارہے۔پرانی کتب کا سب بڑاذریعہ کباڑخانے ہیں، بیرون ملک سے جو کنٹینرز آتے ہیں ان میں سے بھی بعض اوقات انگریزی کی اچھی کتابیں مل جاتی ہیں۔جبکہ ایک کتاب فروخت کرنے والے نے بتایا کہ وہ 30 برس سے یہاں کتابیں فروخت کررہے ہیں۔ا یک دور تھا جب یہاں کمپیوٹر اور انگریزی کی کتابیں زیادہ فروخت ہوا کرتی تھیں۔ کتابیں فروخت کرنیوالے ایک اور فرد نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے یہ بازار میں روڈ پر لگاتاتھامگر اب ایک گلی میں لگاتے ہیں۔ یہ برسوں سے چلا آرہا ہے۔ بازار بند ہوتا ہے تو ہم یہاں کتابیں بیچ لیتے ہیں۔نہ دکان کی ضرورت نہ سٹال کی اور نہ ہی صفائی کی،کتابوں کے اس اتوار بازار میں سستی اور پرانی کتابوں کی فروخت کیلئے، کسی دکان یا سٹال کی ضرورت نہیں۔ دکاندار کا کہنا تھاکہ پُرانی کتابیں اردو بازار سے خرید کر یا ردی کے بھاؤ خرید کر ان کی بہترین جلد کر کے انہیں دوبارہ اصل حالت میں لایا جاتاہے جس کے بعد یہ کتابیں تھوڑے زیادہ پیسوں میں ہر اس شخص کیلئے دستیاب ہوتی ہیں،مہنگائی کے اس دور میں بھی کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد کمی نہیں ہوئی البتہ مہنگائی کے سبب کتابوں کے خریدار حضرات اپنی من پسند کتابیں خریدنے میں ہچکچانے لگے ہیں۔روزی روٹی دینے والی ذات اللہ کی ہے بس اسی امید پر گھر سے آتے ہیں اور اپنے بچوں کا رزق شام کو یہاں سے لے کر جاتے ہیں۔کتابیں خریدنے والے ایک شہری اسد نے بتایا کہ ’کتابیں تو اردو بازار سے بھی مل جاتی ہیں۔ مگریہاں پرانی کتابوں کی قیمت نصف سے بھی کم ہوتی ہے، جس وجہ سے ہم یہاں سے کتابیں خریدتے ہیں۔ ایک نوجوان ہاتھ میں 4 سے 5 کتابیں پکڑے ہوئے کئی کتابوں کے عنوانات کو غور سے پڑھ رہا تھا۔ خریدار طلباء بلال،شکیل احمد، بابر، احمد، تاج دین کا کہناتھا کہ مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ نئی کتابیں خریدنے کا حوصلہ نہیں پڑتا اسی لئے پرانی کتابو ں سے کا م چلا کر اپنی پڑھائی مکمل کر رہے ہیں جو سستی اور حالت میں بھی صحیح ہوتی ہیں۔
پرانی کتابیں