قانون اور انصاف
جب کبھی دنیا میں موجود قانون پر غور کرتا ہوں تو انتہائی اچنبھے میں پڑ جاتا ہوں کہ ہر قانون صرف انصاف کی کماحقہ فراہمی کے لئے ہی بنایا جاتا ہے،مگر دنیا میں زیادہ تر قوانین کی رِٹ انصاف کو بائی پاس کر دیتی ہے، گویا ملزم قانونی لڑائی لڑتے لڑتے انصاف سے کہیں بہت دور جا نکلتا ہے، پھر آخر میں جو کچھ بچتا ہے، وہ صرف قانون کی بالادستی ہوتی ہے،انصاف نہیں …… یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں انصاف کی فراہمی کی بجائے اکثر و بیشتر قانون کی رِٹ قائم ہوتی رہتی ہے اور اِسی پر سارا زور ہوتا ہے…… اگر آپ عدالت کی ذمہ داریوں پر غور کریں تو آپ محسوس کریں گے کہ ایک منصف کا سارا زور قانون کی عملداری پر ہوتا ہے،
منصف کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ بہرصورت قانون کی بنیاد پر فیصلہ دے، قطعِ نظر اِس کے کہ اْس کے اِس فیصلے سے ملزم مجرم بن جاتا ہے یا الزام سے بری ہو کر سرخرو ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک عام ضرب المثل مشہور ہے کہ ”قانون اندھا ہوتا ہے“…… جبکہ قانون نہیں، منصف اندھا ہوتا ہے،کیونکہ منصف نہیں جانتا کہ ملزم فی الواقع کن مسائل سے دوچار ہو کر یہاں تک پہنچا اور کیا وہ ملزم حقیقتاً بھی ملزم ہے یا اْسے کسی طاقتور نے اپنے انفرادی انتقام کی خاطر عدالت کا منہ دکھایا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی ہوتی ہے۔ حق کیا ہے؟ یہ خود انصاف کرنے والے بھی نہیں جانتے۔ مجرم اکثر و بیشتر عدم ثبوت کی بنیادپر باعزت بری اور بے گناہ جعلی ثبوتوں کی بنیاد پر کال کوٹھڑی میں پھینک دیا جاتا ہے۔ دنیا میں موجود دیگر آلام کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی اہم انسانی اَلمیہ قانون اور انصاف بھی ہے۔ وکالت جو علمی و اخلاقی طور پر ایک بالکل لایعنی اور مبنی برجہل پیشہ ہے، فی نفسہ انصاف کی راہ میں ایک بنیادی رکاوٹ ہے۔
سوال یہ ہے کہ الزام مجھ پر لگا اور اِس الزام کی تردید وکیل کیوں کرے؟ کیا یہ ایک مضحکہ خیز صورت حال نہیں ہے کہ انصاف جیسے انتہائی بنیادی انسانی حق کے لئے مجھے پہلے ایک ایسے شخص کا انتظام کرنا پڑے،جو میری فریاد منصف تک پہنچا سکے اور وہ شخص اِس کام کو باقاعدہ دھندہ بنا کر کرتا رہے۔ مجھے آج تک وکالت جیسے غیر منطقی شعبے کی سمجھ نہیں آ سکی۔ سوال یہ ہے کہ مجھ پر لگے الزام کو مجھ سے بہتر دیانتداری کے ساتھ بھلا اور کون بیان کر سکتا ہے؟…… اور مَیں بذاتِ خود جس طرح اپنے اوپر ہونے والیظلم کو بیان کر سکتا ہوں،کئی وکیل مل کر بھی اْس اذیت کو ویسے بیان نہیں کر سکتے۔ دنیا میں انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وکالت اور قانون ہے۔ انصاف کبھی بھی اِس قدر مہنگا اور غیر میسر نہ ہوتا، اگر دنیا میں وکالت جیسا دھندہ نہ ہوتا اور قانون برائے نفاذِ قانون کی جگہ قانون برائے انصاف کی حکمتِ عملی اپنائی جاتی۔ ہمارے ملک میں ابتداء ہی سے انصاف کی فراہمی ہمیشہ مہنگی رہی ہے، چنانچہ فریادی انصاف کی آس میں وکیل کے ہاتھوں لْٹتا رہتا ہے اور منصف ایک نہایت آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر قوانین کی موٹی موٹی کتابیں پڑھنے میں مصروف ہوتا ہے۔ وکلاء جہاں عدالت میں جرح و تعدیل کے نام پر فریادی و مدعی کی عزت کو تار تار کرکے اپنی لیاقت کے جھنڈے گاڑ رہے ہوتے ہیں تو وہاں جیوری فوری انصاف کے نام پر شغل لگائے بیٹھی ہوتی ہے۔
قانون اندھا ہو یا نہ ہو، فریادی انصاف کی آس میں ضرور اندھے ہو جاتے ہیں،بلکہ بعض اوقات تو انصاف کی آس لگائے مر بھی جاتے ہیں، پھر اْن کی موت کے بعد اْن کو انصاف ملتا ہے۔ یہ مذاق نہیں،بلکہ ہمارے ہاں متعدد بار ایسا ہو چکا ہے، دنیا بس ایسی ہی ہے۔
قانون ہر شہری کے بنیادی حقوق اور رسدِ انصاف کا ضامن ہوتا ہے، جبکہ اِن دونوں کے درمیان میں موجود وکالت ایک غیر ضروری زحمت کے سوا کچھ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ انصاف کی فراہمی اِس قدر پیچیدہ اور مہنگی کیوں ہے کہ اس کے لئے ایک وکیل کی ضرورت پیش آئے؟ دھندہ تو کوئی بھی کیا جا سکتا ہے، پھر انصاف دلانے کا دھندہ کیوں ضروری ہے؟ اگر منصف اِس قابل نہیں کہ وہ براہِ راست فریادی کی فریاد سن اور سمجھ سکے تو کیا محض بلیک اور براؤن کلر کی موٹی موٹی کتابیں پڑھ لینے سے منصف بنا جاسکتا ہے؟ دراصل اِس وقت دنیا میں بالعموم اور ہمارے ملک میں بالخصوص انصاف کی فراہمی کی جو مضحکہ خیز اور اذیت ناک صورت حال ہے،وہ بعید از بیان ہے۔ دنیا میں رہنے والے کسی بھی ایک انسان کا سیٹ اَپ دنیا میں رہنے والے کسی بھی دوسرے انسان سے میل نہیں کھاتا، علاوہ ازیں ہر انسان کے معاشی، سماجی اور اخلاقی مسائل الگ الگ ہوتے ہیں۔ پانچ بچوں کے مفلس باپ کے پاس اگر کام نہیں ہو گا تو وہ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر چوری یا ڈاکہ زنی نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا؟…… جبکہ ریاست اْس کی خبرگیری سے بالکل بری الذمہ ہے۔پھر ایسا شخص کچھ خاص حالات میں پھنس کر عدالت کی گرفت میں آ جاتا ہے تو منصف نے صرف قانون کی کتاب دیکھ کر ہی فیصلہ کرنا ہوتاہے، قطعِ نظر اِس سے کہ ملزم نے کن حالات سے مجبور ہو کر یہ اقدام اْٹھایا؟ ہمارے ہاں قانون اور انصاف کے نام پر آج بھی شغل جاری ہے ……اور جن کو بلا شک و شبہ کال کوٹھڑی میں ہونا چاہئے تھا، وہ مسندِ اقتدار پر براجمان ہیں اور جنہیں خدمتِ خلق جیسی عظیم الشان ذمہ داری ادا کرنی چاہئے تھی وہ رْل رہے ہیں۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے ہیں
ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے ہیں
کوٹ لکھپت جیل میں نو سال سے قید ایک بے تقصیر قیدی ملنگی بابا کہا کرتے: ”قانون طاقتور کی خواہش اور انصاف بے بس کا وہم ہے“…… آج اتنا عرصہ گزرجانے کے بعد احساس ہوا کہ قانون کے نام پر طاقتور نے ہمیشہ اپنی من مانی کی، جبکہ اِس کے برعکس بے بس انصاف کے لئے ہمیشہ در بدر مارا مارا پھرتا رہا،پھر اِسی کسمپرسی میں مر گیا، گویا قانون مقتدرہ کے مفادات کا منظّم تحفظ اور انصاف بے بس کو دیا گیا وہ لارا ہے، جس کی آس پر یہ کاروبارِ زندگی چل رہا ہے،تاکہ معاشرے میں طاقتور اور بے بس کے درمیان یہ ناپسندیدہ اخلاقی توازن قائم رہے۔