تعریف لازم، کچھ گلہ بھی تو سن لیں!
اصول اور ہمارا ضابطہ اخلاق تو یہی ہے کہ اچھے کام کی تعریف کی جائے اور ایسا کرنے والوں کی بھی تحسین کی جائے مگر اس کے ساتھ ہی دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ جو نقائص ہوں ان کو بھی ظاہر کیا جائے تاکہ اصلاح ہو سکے۔ مجھے یقین ہے کہ حکومت پنجاب کی سربراہ مریم نواز شریف بھی اسی اصول پر کاربند ہیں، ان سے میرا براہ راست تو تعارف نہیں، تاہم ان کی کابینہ کے بہت سے اراکین سے تعارف ہے اور ماضی میں اچھا وقت بھی گزرا ہے، ویسے مریم نوازشریف کے دادا میاں محمد شریف اور ہمارے خاندان کے بعض بزرگوں کے درمیان کاروباری تعلق رہا اور محمد نوازشریف اور محمد شہبازشریف سے اپنے دور رپورٹنگ میں ملاقاتیں رہیں کہ اکثر کوریج بھی کرتا تھا، اب تو رپورٹنگ چھوڑے خاصا وقت گزر گیا، ورنہ میاں محمد نوازشریف کی آخری وزارت عظمیٰ کے دور میں ان کی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب سے بھی واسطہ پڑا اور ان کی کارکردگی بھی دیکھی اب وہ صوبائی کابینہ میں سینئر وزیر کے طور پر مریم نوازشریف کی معاونت کررہی ہیں، اس کابینہ میں اب وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری ہیں، وہ میری بیٹیوں کے برابر ہیں ان کے والد جسٹس بخاری سے نیازمندی تھی تو عظمیٰ اپنے سابقہ دور اور جماعت کے زمانے میں روزنامہ پاکستان کے فورم کی رونق بڑھاتی تھیں، ان کے علاوہ کئی دوسرے وزراء سے بھی ذاتی واقفیت اور مراسم ہیں، وزیرخزانہ مجتبیٰ الرحمن جو اپنے والد اور خاندان کا نام روشن کر رہے ہیں میرے چھوٹے بھائی کے برابر ہیں۔
قارئین! سوچ رہے ہوں گے کہ آج مجھے کیا ہو گیا کہ میں نے خوشامد کا سلسلہ شروع کر دیا تو میری عرض یہ ہے کہ ایسا کچھ نہیں یہ توا س لئے عرض کیا کہ جو گزارشات میں عوامی بہبود اور حکومت کی توجہ کے لئے پیش کرنے والا ہوں وہ سب انہی سے متعلق ہے اور امکان ہے کہ یہ سب شکوہ یا گلہ کا برا منانے کی بجائے اسے اصلاح کا پہلو تصور کریں گے، جب سے مریم نواز نے وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا وہ بہت متحرک ہیں اور اب تک انہوں نے معاشرے کے ہر پہلو کے حوالے سے عوامی بہبود کے فیصلے کئے اور منصوبوں کا اعلان کیا، تاہم میں نے جو دیکھا اور سوچا اس سے یہ متصور ہوا کہ منصوبے تو فلاحی ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد اور دیکھ بھال کے کام کے لئے مشینری متحرک نہیں، اس کی ایک بڑی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ وزیراعلیٰ میٹنگیں بہت کرتی ہیں اور اپنے معاونین اور سیکرٹری حضرات کے علاوہ تمام شعبوں کے سربراہوں کو بھی ان اجلاسوں میں بلاتی ہیں اور یوں اپنے چچا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کو الرٹ رہنے پر مجبور کرتی ہیں، لیکن یہ خبرداری مفید ثابت نہیں ہو رہی کہ ان حضرات کو تو اپنے سے نچلی سطح پر اہل کاروں کو متحرک رکھنا اور ان سے کام کرانا ہوتا ہے اگر ان کے دن کا زیادہ حصہ میٹنگوں میں گزر جائے گا تو یہ نگرانی کب کریں گے کہ اوپر تو سب اچھا ہے لیکن نچلی سطح پر کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے، میں اس طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں اگرچہ جستہ جستہ مختلف اوقات میں مسائل کی نشاندہی کرتا رہتا ہوں لیکن اب سوچا ہے کہ ایک ہی بار توجہ مبذول کراؤں کہ شاید میری یہ باتیں ان کے دل میں اتر ہی جائیں۔
مہذب دنیا میں (میرا ملک بھی مہذب تر تھا، لیکن اسے مفاد پرستوں نے غیر مہذب کر دیا ہے) معاشرے کی اصل تصویر یہ ہے کہ وہاں قانون ہیں تو ان پر مکمل عملدرآمد بھی ہوتا ہے نہ صرف شہری اپنا فرض جانتے ہیں بلکہ محکموں والے بھی چوکس ہوتے ہیں اور ان کے خانے میں معانی نہیں،ہمارے ملک میں بدقسمتی سے قانون تو موجود ہیں، ان پر عملدرآمد نہیں اور نہ ہی اوپر والے ایسا کرتے ہیں، شہری پرواہ نہیں کرتے کہ متعلقہ اہل کار بھی اپنا مفاد دیکھتے قانون کی خلاف ورزی کا سدباب نہیں کرتے، وزیراعلیٰ نے درست طور پر ٹریفک کے اژدہام کی طرف توجہ دی اور سخت احکام دیئے، لیکن عمل درآمد کی صورت حال یہ ہے کہ ٹریفک اہل کاروں نے یہ تصور کرکے کہ پبلسٹی کے سہارے شہری باشعور ہو گئے ٹریفک کی طرف توجہ دینا چھوڑ دی، سعودی عرب اور انگلینڈ کی طرح ٹریفک آفیسر ٹریفک کنٹرول کرتے نظر ہی نہیں آتے، البتہ ان کو اکثر چوراہوں کے ایک طرف گروہ کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ موٹرسائیکل والوں کی خلاف ورزیوں کا تدراک کرتے اور چالان کرتے نظر آئے ہیں، اسی طرح وزیراعلیٰ مسافروں کے لئے سواری کی بڑی فکر مند ہیں ایک تو انہوں نے الیکٹرک بسیں چلانے اور ٹراموے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے اور دوسرے سپیڈو بسوں کے روٹ بڑھانے کی ہدایت بھی کی ہے لیکن ان کے سامنے یہ صورت حال کیوں نہیں رکھی گئی کہ لاہور جیسے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ برباد کی گئی اور اب یہاں یہ سرے سے موجود نہیں، ماسوا اس کے کہ یہاں ٹرین، میٹرو اور سپیڈو بسیں چلتی ہیں، ٹرین اور میٹروبسوں کے علاوہ سپیڈو کے بھی مخصوص روٹ ہیں، ضرورت کے مطابق یہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، ویسے بھی سپیڈو بسیں 9-8سال پرانی ہو چکیں ان کی تعداد ضرورت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ لاہور کو کم از کم فوری طور پر دو ہزار بسوں کی ضرورت ہے۔ اشیاء ضروریہ میں ملاوٹ اور مہنگائی کے لئے بھی بہت فکرمندی ہے۔ یہاں حالت یہ ہے کہ فوڈ اتھارٹی والے دیانت داری سے کام نہیں کرتے اور یہاں رشوت ستانی بھی ہے جبکہ مہنگائی کے سدباب کے لئے بنائی گئی پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے سربراہوں اور عملے نے لوٹ مار شروع کر دی اور پرچون فروشوں کی زندگی حرام کر دی ہے، منتھلی کا تقاضا کرتے ہوئے رشوت بھی اکٹھی کی جا رہی ہے، عملہ صفائی کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک ہی علاقے میں بڑی سڑکوں کی صفائی اور گلیاں محلے نظر انداز،جہاں گندگی اور کوڑا موجود ہوتا ہے۔ پی ایچ اے کا کمال تو یہ ہے کہ کینال (نہر) کو روشنیوں سے سجا کر فرض پورا کر دیا ہے۔ علاقائی پارکیں اور گرین بیلٹ تباہ حال ہیں، دیواریں ٹوٹ گئیں، جنگلے غائب اور شادی ہال والوں نے گرین بیلٹ کو پارکنگ بنا لیا ہے او رپی ایچ اے کی توجہ کینال پر ہے۔
مریم اورنگزیب بہت محنت کررہی ہیں پولی تھین کے شاپر ممنوع ہیں، عمل درآمد نہیں ہوتا، ٹرانسپورٹ کی آلودگی جوں کی توں ہے۔ مزدا ویگنوں، نجی شہری بسوں اور ویگنوں کی حالت ابتر اور دیکھنے کو جی نہیں چاہتا، رکشاؤں، گاڑیوں اور لوڈوروں سمیت چنگ چی کے دھوئیں کو روکا نہیں جا سکا اور نہ ہی موٹرسائیکل کے مالکان توجہ دے رہے ہیں۔
یہ ایک اجمالی جائزہ ہے، صرف اس لئے لکھا ہے کہ شایدا س سے بہتوں کا بھلا ہو اور یہ جان لیا جائے کہ گڈگورننس کا تعلق نچلے اہلکاروں سے ہے ان کی کام چوری اور رشوت ستائی روکنے ہی سے بہتری آئے گی اور یہ اس طرح ممکن ہے کہ سیکرٹری کی سطح سے نیچے تک سب حضرات اور حکام دیانتداری سے کام کریں۔