آ ئینی ترمیم اور توجہ طلب اہداف
جناب وزیراعظم اگر آئینی ترمیم کے لیے کی گئی محنت کی تھکاوٹ اتر گئی ہو تو واپس کام کی طرف تشریف لے آئیں بلا شبہ آ ئینی ترمیم آ پ اور حکومت میں شامل دوسری سیاسی قوتوں کا بڑا کارنامہ ہے اگر آ پ اس ترمیم کے مکمل ثمرات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو شاید آنے والے چند سالوں میں پاکستان کی عدلیہ دنیا کے موازنوں میں کوئی بہتر پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے ورنہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ ہمارے ریٹائرڈ جج صاحبان اپنے بچوں اور جونیئرز کے لیے لابنگ فرم کا کردار ادا کرتے نظر آتے رہے ہیں کم از کم یہ ترمیم ان حضرات کو کوئی متبادل کام تلاش کرنے پر آمادہ ضرور کر دے گی۔
آ ج چائنیز کمپنیوں نے پاکستان میں تیس بلین ڈالرز کی خطیر رقم کی سرمایہ کاری کرنے کا عندیہ دے دیا ہے یہ سرمایہ کاری پاکستان کے انڈسٹریل زون اور فری ٹریڈ زون میں کی جائے گی چائنہ اس وقت دنیا کے بہت سے ممالک میں سرمایہ کاری کر رہا ہے جہاں انہیں ٹیکس ریلیف کے ساتھ سستی لیبر میسر ہو تا کہ وہ وہاں سے یورپ امریکہ سمیت تمام دنیا کو ایکسپورٹ کرکے وقت اور سرمایہ دونوں بچا سکتا ہے چونکہ چین کے سر پر ملاکہ سٹیٹ بند ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے اس لیے اب اس کی تمام توجہ پاکستان اور گوادر پورٹ پر ہے اور یہ پاکستان کے لیے سنہری موقع ہے جس کی قدر ممکن ہو چینی کمپنیوں کو سہولیات اور تحفظ فراہم کیا جائے ۔
جناب وزیراعظم اگر چائنیز کمپنیاں 2025 کے پہلے مہینوں میں پاکستان میں انڈسٹری لگانا شروع کر دیتی ہیں تو سال کے آ خر تک انہیں نہ صرف بجلی بلکہ سستی بجلی اور گیس کی ے بڑے پیمانے پر ضرورت ہوگی چائنیز کمپنیاں ابتدائی طور پر 13 اور مرحلہ وار30 بلین ڈالر سے بھی زیادہ کی سرما
ایہ کاری کرنے آ رہی ہیں یعنی آ پ کے پاس بجلی کے حصول کے لیے نئے ذرائع اور بجلی کو سستا کرنے کے لیے صرف ایک سال ہے اور اسی وقت میں آپ اور آ پ کی ٹیم کو آ ئی پی پیز سے معاہدوں کو ری شیڈول کرنا ہوگا جس طرح آ پ کی کاوش سے پانچ آ ئی پی پیز سے معاہدے کینسل کیے گئے ہیں جس سے ریاست پاکستان کو سالانہ دس ہزار کروڑ کی بچت ہوگی اسی بچت کا بڑا حصہ واپس بجلی کے حصول پر خرچ کر دیا جائے تو فوری طور پر بجلی کی قیمتوں میں آٹھ سے دس روپے فی یونٹ کمی لائی جا سکتی ہے اس وقت آئی پی پیز کو ادا کی جانے والی مجموعی رقوم تقریبا ایک لاکھ چورانوے ہزار کروڑ ہے جس میں سے خریدی جانے والی بجلی کی قیمت اسی ہزار کروڑ ہے یعنی ابھی بھی گنجائش باقی ہے کہ مزید آئی پی پی سے جو طے شدہ معاہدے کے مطابق بجلی نہیں بنا رہے ان سے معاہدے کینسل یا ان میں رد و بدل کیا جائے تاکہ 14 ہزار ارب کے خلا کو پر کیا جا سکے اگر آ پ یہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یقینا گھریلو صارفین کو بیس روپے اور انڈسٹریل صارفین کو پندرہ روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی دی جا سکتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ سولر پروگرام کو مزید تیز اور آسان بنائیں تاکہ گھریلو صارفین، سرکاری دفاتر،سکول، کالجز یونیورسٹیوں، یونین کونسل کے دفاتر ڈاکخانے اور دن کی اوقات میں کام کرنے والے تمام اداروں کو مرحلہ وار سولر پر منتقل کیا جائے اور یہ بجلی بھی فری کر لی جائے اس کے ساتھ ساتھ گرین میٹر کے ذریعے گھریلو صارفین سے بڑے پیمانے پر سستی بجلی خرید لی جائے تاکہ چین اور روس کی جانب سے سرمایہ کاری کے لیے آ نے والی کمپنیوں کو وافر اور بلا تعطل بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے اور اس کے علاوہ ہمارے پاس ایک طویل ساحلی پٹی موجود ہے اگر حکومت کے پاس ونڈ مل پروجیکٹ کرنے کے لیے وسائل نہیں ہیں تو پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیے جائیں جو آپ کوچالیس سینٹ یا اس کے برابر روپوں میں بجلی دینے کے لیے تیارہیں نئے اور ریاست کے لیے فائدہ مند معاہدے کر کے سولر پارک بنانے والی کمپنیوں کو تلاش کیا جائے ان سے سرمایہ کاری کروا کر گرین انرجی کو سسٹم میں شامل کیا جائے تو
ہمارے پاس بجلی کی پیداوار میں بڑا اضافہ ممکن ہے کیونکہ بہت جلد چائنیز اور روسی کمپنیاں پاکستان میں قائم انڈسٹریل زون میں فیکٹریاں لگانے آ رہی ہیں جو آ پ کے نوجوانوں کی فوج کو نوکریاں مہیا کرنے کے ساتھ پاکستان سے ایکسپورٹ کر کے بڑا فائدہ پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں گی،جس طرح سپریم کورٹ میں جسٹس جناب جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کے ساتھ دو جج صاحبان جو اس بینچ کا حصہ تھے انہیں رپورٹ پیش کی گئی ہے کہ دیا میر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کے لیے اکٹھی کی گئی رقم جو 11 ارب 47 کروڑ تھی اسے مختلف پروجیکٹس میں انویسٹ کر کے اب تک 12 ارب کا منافع کمایا جا چکا ہے جس کے بعد یہ رقم 23 ارب 67 کروڑ ہو چکی ہے اس رقم کو ڈیم اکاؤنٹ سے سٹیٹ بینک میں گورنمنٹ آف پاکستان کے اکاؤنٹ میں منتقل کر دیا گیا ہے اس رقم سے ان دونوں ڈیموں پر کام کو مزید تیز کر کے جلد از جلد اور قبل از وقت مکمل کر دیا جائے تو نیشنل گرڈ میں مزید سات ہزار میگا واٹ سستی بجلی کا اضافہ ہو جائے گا جو ابتدائی طور پر لگائی جانے والی نئی انڈسٹری اور پاکستان میں موجود بند انڈسٹری کو چلانے کے لیے آئندہ کئی سالوں تک کافی ہو جائے گی،لیکن اسی دورانیہ میں حکومت کے پاس کچھ سالوں کا وقت ہوگا وہ 2030 تک بجلی کی ضرورت میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید ڈیم تعمیر کر ے جن میں ذخیرہ شدہ پانی ہماری انرجی کی ضرورت کو پورا کرنے کے بعد ہماری غیرآباد زمینوں کو قابل کاشت بنانے میں بہت مددگار ثابت ہوگا ۔