وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر75
بھولو برادران نے سنگاپور اور ملائشیا میں دیسی کشتی کے فن کی دھاک بٹھا دی۔انہوں نے فری سٹائل کے مقابلے بھی کئے اور کسی میں بھی پشت نہ لگوائی۔ ان کادورہ کامیاب رہا۔ ڈھیروں انعامات اوراعزازات کے ساتھ وہ وطن واپس لوٹے۔عوام نے دل وجاں سے ان کا استقبال کیا۔ کیونکہ اس وقت وہی کھیل کی دنیا کے ہیرو تھے۔ ایک سال یعنی1959ء ان کا مقامی مقابلوں میں گزر گیا۔ انہیں اب انڈیا سے مقابلوں کی دعوتیں مل رہی تھیں۔بزرگوں کی آشیرواد کے بعد کاغذات کی تیاری کا عمل شروع ہو گیا۔ ابھی ان کی روانگی میں کچھ ہفتے باقی تھے کہ گاماں پہلوان رستم زماں کی حالت بگڑنے لگی اور انہیں اپنا پروگرام کچھ عرصہ کے لیے موخر کر دینا پڑا۔
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر74 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
82سالہ رستم زماں اب چار پائی سے لگ کر رہ گیا تھا۔وہ شاہ زور جو بیک وقت درجنوں پہلوانوں کے پھلکے اڑا دیتا تھا، بستر علالت پر اتنا ناتواں اور لاچار ہو گیا تھا کہ چہرے پر بھنبھانے والی مکھیوں کو بھی نہ اڑا سکتا تھا۔گوشت پوست کاکوہ گراں ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا۔ گاماں پہلوان زندگی کی بے ثباتی کا ثبوت تھا۔ دنیا میں کتنے ہی شاہ زور آئے، بڑے بڑے امر ہونے کا دعویٰ کرنے والے آئے مگر جب موت نے زندگی کی دہلیز پر دستک دینی شروع کی، سب کچھ فنا ہو گیا۔ گاماں پہلوان نے زندگی بھر انکساری، عاجزی اور تحمل مزاجی کوشیوہ بنایا تھا۔ آج اس کے چاہنے والوں کی دعائیں اس کے کام آرہی تھیں۔ خدا نے اسے اولاد نرینہ سے محروم رکھا مگر داماد بیٹوں جیسے عطا کر دیئے تھے اور بیٹیاں تو باپ کو پوجتی تھیں،ہر وقت تیمار داری کے لیے موجود رہتی تھیں۔
1960ء کی گرمیوں کا آغاز ہوا تو گاماں پہلوان کی طبعیت بگڑنے لگی تو بھولو پہلوان نے اپنا سارا وقت اپنے تایا اور سسر کی خدمت گزاری میں وقف کر دیا۔یہ22مئی 1960ء کی بات ہے۔ بیگم گاماں کامران کی بارہ دری کے باغات میں گئی ہوئی تھیں۔گھر میں گاماں کی چھوٹی بیٹی گیتی آراء تیماداری کے لیے موجود تھی۔ بیگم گاماں جب سہ پہر تک واپس نہ آئیں تو گاماں نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا۔’’گیتو پتر،تیری اماں جی کیوں نہیں آئیں۔‘‘گاماں پہلوان کی گفتگو کی شیرینی ہمیشہ کی طرح برقرار تھی۔
’’بس آتی ہوں گی بابا جان۔‘‘گیتی آراء نے کہا۔’’خیر تو ہے کچھ کھانے پینے کو دل تو نہیں مچل رہا۔‘‘
گاماں نے مسکرا کراپنی رمز شناس اور چہیتی بیٹی کو دیکھا۔’’گیتو پتر تو بڑی سمجھدار ہے۔خدا تیرا بھلا کرے تو مجھے پان کھلا دے۔چل میری دھی۔ لادے۔‘‘گاماں نے شفقت بھرے لہجے میں کہا۔’’ایک پان کھانے سے کیا ہو گا۔‘‘
گیتی آرا اٹھی اور ایک پان بنا لائی۔’’لیجئے بابا جان پان کھائیں۔۔۔‘‘
گاماں پہلوان آہستہ آہستہ پان چبانے لگے۔گیتی آرا پائنتی بیٹھ گئی اور دونوں باپ بیٹی ماضی کی یادیں کریدنے لگے۔یوں اچانک نہ جانے کیا ہوا کہ گاماں پہلوان کے چہرے پر تبدیلی آنے لگی اور وہ خاموش ہو گئے۔
گیتی آرا نے اپنے بابا جان کی خاموشی محسوس کی اورپوچھا۔’’بابا جان آپ اچانک خاموش کیوں ہو گئے ہیں۔‘‘
’’میری گیتورانی!‘‘گاماں پہلوان ٹھہر ٹھہر کر بولنا شروع ہوئے۔’’تو نے گھبرانا نہیں۔۔۔جو کہتا ہوں دھیان سے سننا۔۔۔‘‘
’’میں ہمہ تن گوش ہوں بابا جان۔‘‘گیتی نے کہا۔
’’پہلی گھنٹی بج گئی ہے۔ گیتو۔‘‘گاماں جی نے کہا۔’’میرے بلاوے کا سمے ہو چکا ہے۔‘‘
’’ابا جان!‘‘گیتی آرابدحواس ہو کر چلائی۔’’آپ کیا کہہ رہے ہیں۔‘‘
’’ہاں گیتو!ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ کوئی عجیب تو نہیں ہے۔ سب نے جانا ہے۔ آرام و سکون سے رخصت مل رہی ہے۔ کتنا خوش نصیب ہوں۔‘‘گاماں پہلوان کی آنکھیں بیٹی کے چہرے پر جم گئیں اور بولے۔
’’گیتی بیٹی تو ہم سے ایک وعدہ کر۔‘‘
’’وعدہ!‘‘گیتی آراء کی جان نکل رہی تھی۔بمشکل کہہ سکی۔ ’’بابا جی کیسا وعدہ!‘‘
’’کہ جو کہوں گا اس پر عمل کروگی۔‘‘گاماں جی نے کہا۔
’’ہاں وعدہ کرتی ہوں۔‘‘
’’تم نے کبھی دل چھوٹا نہیں کرنا بیٹی، اپنا،بہنوں کا اور اپنی ماں کادھیان رکھنا ہے۔ بھائی تو تمہارا کوئی ہے نہیں مگر اللہ نے مجھے بیٹیاں بھی بیٹوں جیسی دی ہیں۔ بیٹی حوصلہ رکھنا۔۔۔سمجھ رہی ہو ناں۔‘‘
’’ہاں بابا جان۔‘‘گیتی آرا نے حوصلے سے کہا۔
’’میں جانتا ہوں تو میرا کہا مانے گی۔ اک تو ہی تو میری مزاج آشنا ہے۔‘‘
دونوں باپ بیٹی باتوں میں محو تھے کہ بیگم گاماں بھی آپہنچیں اور باپ بیٹی کو دیکھ کر خوشگواری سے بولیں۔’’یہ کیا سہیلیوں کی طرح سر جوڑے باتیں ہو رہی ہیں۔‘‘
گاماں پہلوان نے زندگی کی رمق سے محروم آنکھوں سے بیگم کو دیکھا تو وہ ٹھٹک کر رہ گئیں۔
’’میرے مولا خیر کریں۔‘‘وہ کانپ کر رہ گئیں۔
گاماں پہلوان نے بیگم کو دلاسادیا۔’’گیتو کی اماں گھبرانا نہیں۔یہ ہماری خواہش ہے۔‘‘
پھر کہا۔’’میں نہاناچاہتا ہوں۔‘‘
گیتی آرا نے سہارا دے کر حمام تک پہنچایا۔گاماں پہلوان نے غسل کیا اور نئے صاف شفاف کپڑے پہنے۔ لنگوٹ خاص طور پر تبدیل کیا۔ وقت کا رستم چوبیس گھنٹے لنگوٹ پہنے رہتا تھا۔ نہانے کے بعد گاماں پہلوان نے مٹھائی کھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مٹھائی کھانے کے بعد رستم زماں سو گیا۔ رات حسب معمول ڈاکٹر آیا اور رستم زماں کو چیک کرنے کے بعد واپس ہوا۔ ڈاکٹرکے جاتے ہی گاماں پہلوان کی قوت برداشت جواب دینے لگی۔یہ راز تواب کھلا تھا کہ وہ اپنی قوت ارادی کی بدولت فصیل جاں کو قائم رکھے ہوئے تھا۔ گاماں پہلوان نے جسم کو ڈھیلا چھوڑا تو جسم پسینے سے نہا گیا۔ ڈیڑھ بجے کے قریب گاماں پہلوان کی حالت بگڑنے لگی۔ بیٹی اور بیوی چارپائی سے لگ کر بیٹھ گئیں۔گاماں پہلوان پہلے بھی اسی حالت سے دو چار ہو چکے تھے۔ لہٰذا انہوں نے کسی کو اطلاع نہ کی تھی مگر اس روز گاماں نے نیم بے ہوشی میں سب کو بلانے کا کہہ دیا۔ فجر کا وقت ہوچلا تھا۔گاماں پہلوان نے حسب معمول پانی پیا اور بیٹی کو آرام کرنے کا کہہ دیا اس دوران بیگم پاس بیٹھی رہی۔گاماں پہلوان کی سانس اکھڑنے لگی اور پھر رستم زماں گاماں پہلوان نے دنیا سے ناطہ توڑ لیا۔ ایک کہرام ہی تو مچ گیا۔ دنیا بھر کے اخبارات میں رستم زماں کی وفات کی خبریں شائع ہوئیں۔تعزیتی پیغامات آئے۔ اکیس گھنٹے بعد تدفین کا عمل شروع ہوا۔ گاماں پہلوان کو دربار پیر مکی کے قریب ایک چھوٹے سے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔
گاماں پہلوان نے بڑی صاف ستھری اور دیانتدار زندگی گزاری۔ ان کی پٹیالہ میں لاکھوں کی اراضی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد اس کا کلیم داخل کیا مگر ان کی زندگی میں یہ کلیم نہ مل سکا تھا۔ وہ شریف اور ایماندار تھے لہٰذا کسی کو رشوت نہ دے سکے لہٰذا ان کی فائلیں بیس سال تک سرخ فیتے کا شکار رہیں۔ ان کی وفات کے بعد جب یہ مسئلہ اخبارات نے اجاگر کیا تو انہیں ایوارڈز کے ساتھ زمینوں کے کلیم بھی مل گئے۔(جاری ہے )
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر76 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں