تیرے آن تے کھڑاک بڑے ہون گے
تیرے آن تے کھڑاک بڑے ہون گے،مزے تے ماہیا ہن آون گے۔بھائیو اور بہنو اپنی اپنی انتظار کی گھڑیاں ختم کر دو،بڑے بھیا واپس آ رہے ہیں ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹروں کے مشورے رد کرتے ہوئے بڑے بھیا نے وطن واپسی کا فیصلہ کر لیا ہے۔شہباز شریف سے ملاقات میں طے ہو گیا ہے اب انشاء اللہ ہمارے ن لیگ کے شرمندہ شرمندہ دوستوں،دانشوروں کا مورال ایسے بلند ہو گا جیسے بلھے کی ہوا میں سدھ پتنگ کا ہوتا ہے۔ہم تو پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں عمران خان کو اتنی مقبولیت دلا دی جائے کہ وہ تانگہ لہوری میرا سڑکاں تے راج ہے گنگناتے پھریں۔یہ پاکستانی جمہوریت ہے اس میں لیڈروں کو ان کی اوقات کے مطابق پاپولیرٹی دی جاتی ہے۔کوئی اوقات سے ودہ ودہ کے گلاں کرے تو اس کے کن تھلے عدلیہ،علماء اور عدم اعتمادوں کے ذریعے ایسی وجتی ہے کہ بندہ دھوم چڑکڑا سائیاں دا تیری کتن والی جیوے گانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔میاں صاحب آئیں گے کچھ شہباز میاں کی گوشمالی کی رنگ بازی ہو گی۔ووٹ کو عزت دو کو شرطیہ نوے نکور پرنٹ کے ساتھ لایا جائے گا۔یوں عمران خان کی مقبولیت کے اوپر گاٹی ڈال دی جائے گی۔بھلا ہے کوئی بات کہ کسی سر پھرے کو دوہری اکثریت دے دی جائے۔بھیا میرے
"جو دل ول لینے کا ڈھب جانتے ہیں
وہ ترکیب ورکیب سب جانتے ہیں "
عدالتیں،قانون،انصاف،آئین تو وہ پہلے ہی اچھے بچے ہیں انہیں پتہ ہے کہ اس کو تڑی لگانی ہے اور کس کے آگے لمیاں پڑنا ہے ویسے بھی انصاف ش شنصاف کے لئے یہ 20کروڑ کلبلاتے کیڑے۔وجود ہیں جنہیں جیسا ہے جہاں ہے کی بنیاد پر جیسے مرضی جیلوں،تھانوں میں ”تن“ دو۔ رہے امیروزیر،مشیر ڈاڈھے چودھری تو یہ ملک بنا ہی ان کے لئے تھا۔ہاں ہاں میرے آبا? اجداد نے ایک آزاد مملکت جہاں سب کی عزت سانجھی،تعلیم،مستقببل اور قانون و انصاف سب کے لئے برابر ہو گا کا خواب دیکھا۔لیکن میں ان کو انکی قبروں پہ جا کے بتادوں گا کہ خواب کی تعبیریں ہمیشہ الٹ ہوتی ہیں۔سنتا سنگھ ایک بار بھاٹی گیٹ کی تنگ گلی سے گذر رہا تھا کسی نے اوپر سے سڑی ہوئی بدبو دار دال پھینک دی،دال بنتا کے سر پر گری وہ غصے سے لال پیلا ہو گیا،چیخ کر بولا کس نے یہ حرکت کی ہے،کس کی جرات ہوئی،اوپر سے ایک باریک اورکمزور سی آواز آئی بھائی جی میں نے پھینکی ہے،آواز کمزور لہجہ کمزور،سنتا سنگھ شیر ہو گیا ڈپٹ کر بولا توں تھلے آ،کچھ دیر بعد دروازہ کھلا اور ایک 6 فٹیا موٹا تازہ بندہ باہر آیا اور سنتا سنگھ سے اسی باریک آواز میں بولا،جی پاہ جی کیا بات ہے،سنتا سنگھ ہماری عدلیہ کی طرح مسکرایا اور بولا دال بہت سوادی اے دوبارہ کدوں سٹو گے؟۔یہی ہمارا نظام انصاف ہے جو تگڑے بندے کی سڑی بسی دال چاٹ چاٹ کر کہتا ہے واہ جوان سواد آگیا۔
دیکھیں بھائی یہ پی ٹی آئی والوں کی گھٹی میں بڑا ہے کہ چھوٹے میاں صاحب کچھ بھی کریں کیڑے ضرور نکالنے ہیں۔وہ آٹا نہ بھی گوندھیں تب بھی شور مچائیں گے ہلدے کیوں پئے او۔ بھائی ہمارے چھوٹے بھیا کے چمکتاروں اور طاقتور یاروں سے پوری دنیا واقف ہے۔جو عظیم راہنما اس پورے نظام کے سامنے تھوک سے پکوڑے تل سکتا ہے اگر اقوام متحدہ میں اس نے پیپر کو تھوک لگا کر پلٹ دیا تو کونسا گناہ کیا۔میں تو اپنے چھوٹے بھیا کے ساتھ ہوں شہباز تیری پرواز سے جلتا ہے زمانہ۔اس لئے آپ کسی کی فکر نہ کریں حتکہ 22 کروڑ مفلوک حال،شناختی کارڈ ہولڈر کی بھی۔ یہ نظام،یہ اقتدار،یہ شہرت،یہ سہولتیں سب آپ کے لئے ہیں۔یہ پوری سلطنت کب سے مافیا کو لوریاں دے رہی ہے۔”اک میر ا چاند اک میرا تارہ،ابو کی لاڈلی ابا کا پیارا“گا رہی ہے۔اس لئے آپ کم چک کے رکھو۔سنتاسنگھ سوچ میں گم تھا بنتا نے پوچھا تو بولا یار دل کر ریا اے خالص دودہ ہو،کرنل کے چاول ہوں،خالص دیسی شکر ہو اور اس کی کھیر بنا کر گرم گرم انگل کے ساتھ کھا?ں،بنتا سنگھ بولا تمہارے پاس کھیر کے لئے کیا ہے؟سنتا سنگھ نے مسکرا کے کہا انگل۔تو میرے سجنو،مترو،کھنڈ دے کھڈونیو بوہتے سارے سوہنیو۔یہ وسائل کا دودہ،کرنل کے چاول،یہ مفادات کی شکر سب آپ کے لئے ہے اللہ آپ کی انگل کو سلامت رکھے یہ انگل ہے تو قوم ہے یہ انگل ہے تو ریاست پاکستان ہے