سورج غروب ہونیوالا تھا، صبح سے سفر میں تھا، زبردست بھوک لگی تھی،ان پڑھ ووٹروں کی طرح محض تصویر میں د یکھ کر  کھانے کا انتخاب کیا

 سورج غروب ہونیوالا تھا، صبح سے سفر میں تھا، زبردست بھوک لگی تھی،ان پڑھ ...
 سورج غروب ہونیوالا تھا، صبح سے سفر میں تھا، زبردست بھوک لگی تھی،ان پڑھ ووٹروں کی طرح محض تصویر میں د یکھ کر  کھانے کا انتخاب کیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:11
 ذرا سی بخشش
ہوٹل پہنچ کر ٹیکسی ڈرائیور نے اپنا طے شدہ معاوضہ وصول کر کے جیب میں ڈالا۔ لیکن فوراً ہی”بخشش“ کہہ کر ایک بار پھر اپنا ہاتھ پھیلا دیا۔ میں بڑا حیران ہوا تاہم اس کے مسلسل پھیلے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر میں نے مزید 2پونڈ اس کے ہاتھ پر رکھ دیئے اور وہ مسکراتا ہوا شکراً  شکراً کہتا وہاں سے رخصت ہوگیا۔
 اس دوران ہوٹل کا ایک ملازم بڑی سی ٹرالی لئے میری طرف دوڑا اور میرا مختصر سا سامان لے کر آگے آگے چلتا ہوا مرکزی دروازے کی طرف بڑھا، پیچھے پیچھے میں شرماتا ہوا آ رہا تھا۔ در اصل اتنی بڑی ٹرالی پر رکھا ہوا اپنا ننھا سا بیگ دیکھ کر میں اندر ہی اندر تھوڑی سی خجالت محسوس کر رہا تھا۔ وہ مجھے استقبالیہ والوں کے حوالے کرکے ایک طرف کھڑا ہو کر دانت نکالنے لگا۔ پھر اچانک ہی اس نے مجھ سے بخشش مانگ لی جو فوراً ہی ادا کر دی گئی۔
سعودی عرب میں برسوں قیام کی وجہ سے میں عربی زبان کو اچھا خاصا منہ مار لیتا تھا۔ لیکن میں نے چالاکی دکھائی اور اُسے کم سے کم استعمال کرکے بُرے وقت کے لئے بچا رکھا اور زیادہ تر کام انگریزی یا اشارے بازی سے ہی چلاتا رہا۔ میں یہ بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ مصری کس ہوشیاری سے آپس میں مل کر سیاحوں کے ساتھ ہاتھ کر جاتے ہیں جس کے تذکروں سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔استقبالیہ والوں نے ضروری کاغذی کارروائی کرنے کے بعد میرا پاسپورٹ رکھا اور مجھے کمرے کا نمبر بتا کر چابی تھما دی جو فوراً ہی پاس کھڑے ہوئے ایک ملازم نے جھپٹ لی اور مجھے اپنے پیچھے لگا کر اوپر کی طرف چلا۔ یہ وہی ملازم تھا جو باہر سے میرا سامان اٹھا کراندر لایا تھا اور اس خدمت کے عوض پہلے ہی اپنی نام نہاد بخشش وصول کر چکا تھا۔
جیسے ہی ہم دونوں لفٹ میں داخل ہوئے، نجانے کہاں سے ایک چھوٹی سی عمر کا لڑکا بھاگتا ہوا آیا اور ہمارے ساتھ ہی لفٹ میں داخل ہوگیا۔ اس نے سامان لے جانے والے سے عربی میں میری مطلوبہ منزل کا پوچھ کر بٹن دبا دیا۔ باہر نکلے تو اب اس کی باری تھی۔ اس نے صرف بٹن دبانے کی بخشش قبول کی تھی۔ بچہ ہونے کی وجہ سے اس کو چند سکوں پر ٹرخا دیا۔
اب وہ ملازم سامان کمرے میں رکھ کر قریب ہی کھڑا ہوگیا تھا اور ہاتھ باندھ کر طلب گار نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا اور پراسرار سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر تھی، غصہ تو بہت آیا لیکن مجبوری تھی۔ مجھے 10 منٹ کے اندر ایک ہی شخص کو دوبار بخشش دینا ذرا بھی نہ بھایا، لیکن میں نے مصلحتاً اپنا بڑا سا منھ بند ہی رکھا۔ کیونکہ میں ابتداء ہی میں ماحول کو خراب نہیں کرنا چاہتا تھا،لہٰذا دل پر پتھر رکھ کر اُسے2پونڈ مزید پکڑا دئیے اور وہ چھلانگیں لگاتا ہوا غائب ہوگیا۔
 سورج غروب ہونے والا تھا، صبح سے سفر میں تھا۔ زبردست بھوک لگی ہوئی تھی جہاز والوں نے بھی کوئی خاص خدمت نہ کی تھی،کیونکہ عین دوپہر کے کھانے وقت جہاز نے ہمیں قاہرہ پہنچا دیا تھا۔ وہیں میز پر پڑے ہوئے مینو کارڈ کو دیکھ کر روم سروس والوں کو کھانے کا آرڈر دے دیا۔ میں نے ان پڑھ ووٹروں کی طرح محض تصویر میں د یکھ کر جس کھانے کا انتخاب کیا، اس میں اُبلے ہوئے چاولوں کے علاوہ کباب تھے۔ جو دراصل ہمارے والے سیخ کباب نہیں تھے بلکہ چھٹانک چھٹانک بھر کے گوشت کے بھنے ہوئے پارچے تھے اور جو چاول تھے وہ بھی ثابت مسر کی طرح گول گول اور بے انتہا سفید تھے، جن کو لگتا تھا کہ زبردستی آپس میں اتفاق سے رہنے پر مجبور کیا گیا تھا، پھر بھی وہ ایک دوسرے سے روٹھے روٹھے لگ رہے تھے، اور پلیٹ میں ادھر ادھر لڑھکتے پھر رہے تھے۔ (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

ادب وثقافت -