میں نے تو سب نفاق کے شعلے بجھا دیئے ۔۔۔
دستِ ستم میں برشِ تیغِ جفا نہ دی
مَیں نے قضا کو زحمتِ جورِ قضا نہ دی
میرے عدو کو میرے خدا نے کیا ذلیل
مَیں نے تو بھول کے بھی اُسے بد دعا نہ دی
میں نے تو سب نفاق کے شعلے بجھا دیئے
اِس آتشِ نفاق کو میں نے ہوا نہ دی
غُنچے نکھر کے پھولوں کا پیکر نہ بن سکے
اِس باغباں نے غُنچوں کو بادِ صبا نہ دی
وہ عشق کیا؟ جو دل کو بنا دے نہ شمعِ طور
کیا حسن کو بھی صورتِ حسنِ ادا نہ دی؟
کیوں شترِ بے مہار کی صورت ہے قافلہ؟
دامن کو ہم نے خاکِ رہِ کربلا نہ دی
میں تیغِ بے نیام ہوں مقصود جعفری
کیا میں نے دشتِ زیست میں بانگِ درا نہ دی؟
کلام : ڈاکٹر مقصود جعفری (اسلام آباد)