علامہ اقبالؒ اورڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم

علامہ اقبالؒ اورڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم
علامہ اقبالؒ اورڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم
کیپشن: dr m saleem

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اےک بار ڈاکٹر آفتاب احمد نے ان کے مقالے ”اقبال اور ملا “ کی تعرےف کرتے ہوئے کہاکہ اےک اور مقالے کا امکان ابھی باقی ہے اور وہ بھی صرف آپ ہی لکھ سکتے ہےں۔ کہنے لگے: وہ کون سا؟ انہوں نے کہا:” © دی ملا ان اقبال “ (The Mullah in Iqbal) ۔ےہ سن کر بہت محظوظ ہوئے۔
علامہ اقبال اےک اےسے شاعر ، فلسفی اور مفکر تھے جو صدےوں کے بعد پےدا ہوتا ہے۔ان کا مزاج درویشوں کا سا تھا۔ لوگ ان سے ملنے کے لیے بے روک ٹوک آتے رہتے:
ہر کہ خواہد گو بیا و ہر کہ خواہد گو برو
گیرداد و حاجب و درباں دریں درگاہ نیست
خلیفہ صاحب لکھتے ہیں کہ 1913ءمیں دہلی کالج میں داخل ہوا تو تعطیل کے زمانے میںاپنے بہنوئی ڈاکٹر عطاءاللہ بٹ کے ہمراہ انارکلی والی بیٹھک میں پہلی مرتبہ ان سے ملا۔ ڈاکٹر صاحب علامہ اقبال کے دُور کے عزیز بھی تھے اور سیالکوٹ میں ہم کوچہ بھی۔میں نے دیکھا کہ اس شاعرِبے بدل اور مشہورِ آفاق شخص کے سینے میںایک سادہ دل ہے۔ کچھ بڑائی کا رعب نہیں۔ کچھ دور باش کا انداز نہیں۔اس اثر نے مجھ میں یہ جرا¿ت پیدا کردی کہ ان سے ملاقات کے لیے آجایا کروں۔ہر دوسرے تیسرے روز شام کو انارکلی کا رخ کرتا اور گھنٹوں ان سے باتیں کرتا رہتا۔یہ ان کی فراخ دلی اور فیضان تھا کہ ایک نوجوان سے اتنی طویل گفتگو سے بھی نہ گھبراتے تھے۔نہ تکان،نہ ماتھے پر شکن اور نہ کوئی اشارہ کہ اب بس کرو اور چل دو۔برسوں میں شاید ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ وہ کوئی بڑا اہم مقدمہ تیار کر رہے تھے اور مجھے بے شرفِ ملاقات واپس ہونا پڑا۔ اےک شام کو مےں نے دےکھا کہ کچھ دےر ہو رہی ہے۔ عرض کےا کہ اب مےں جاتا ہوں کہ آپ کے کھانے کا وقت ہو گا۔ کہنے لگے کہ نہےں بےٹھو۔ مےں تو رات کو کھانا نہےں کھاتا۔ فقط دودھ کی پےالی سونے سے قبل پی لےتا ہوں۔ اس زمانے مےں ان کی عمر چالےس سے بھی کم تھی لےکن کم خوری کی عادت اس وقت بھی راسخ ہو چکی تھی۔ایک روز انہوں نے مجھے بتایا کہ کوئی آٹھ سو روپے ماہوار تک کا وکالت کا کام کرلیتا ہوں۔
 
خلیفہ عبدالحکیم کہتے ہیں:ےہ احساس علامہ اقبال کو ضرور تھا کہ مجھے خاص کمال، خاص علم اور بصےرت عطا کی گئی ہے۔ شعر مےں تو شاعر بہت کچھ کہہ جاتا ہے لےکن ان کی گفتگو مےں اپنی ذات کے متعلق تعلّی نہےں ہوتی تھی۔ مےں نے برسوں مےں فقط اےک مرتبہ ان کے منہ سے ےہ فقرہ سنا کہ فےضی مےں کےا رکھا تھا جو مجھ مےں نہےں ہے۔ اس کو اکبر سا قدر دان مل گےا اور ہم فرنگی کی غلامی کے زمانے مےں پےدا ہوئے۔ فارسی اشعار مےں اپنا گوئٹے سے مقابلہ کرتے ہوئے بھی اسی قسم کا اظہارتاسف کےا ہے کہ اس کو قوم اور سلطنت قدر دان ملی اور اس کے جوہر درخشندہ ہو گئے اور
من دمےدم از زمےن مردہ¿ !
سچ بات تو یہ ہے کہ ہربڑے آدمی کی طرح علامہ اقبال کواپنی عظمت کا شدےد احساس تھا اور بجا طور پر سمجھتے تھے کہ وہ عالم اسلام کو اس کی عظمت رفتہ کا احساس دلانے کے لےے اس دنےا مےں آئے ہےں۔اس کا اظہار وہ وقتاً فوقتاً اپنی تحریروں اور شاعری میں کرتے رہتے تھے۔ اےک خط مےں عطیہ بیگم کولکھتے ہےں:”۔۔۔ مجھے ےقےن ہے کہ دنےا مےری موت کے بعد اےک نہ اےک دن مےری پرستش کرے گی۔ لوگ مےری کوتاہےوں کو بھول جائےں گے اور آنسوﺅں کی صورت مےں مجھے خراج عقےدت پےش کرےں گے“۔
12مئی 1935ءکو انہوں نے راس مسعود کو لکھا: َ ”مےری خواہش ہے کہ اعلیٰ حضرت (نواب بھوپال ) خود مےرے لےے اپنی رےاست سے پنشن منظور کر دےں تاکہ مےں اس قابل ہو جاﺅں کہ قرآن پر اپنی کتاب لکھ سکوں۔ مےں آپ کو ےقےن دلاتا ہوں کہ ےہ اےک بے نظےر کتاب ہو گی اور ان کے نام اور شہرت کو بقائے دوام بخشے گی۔ ےہ جدےد اسلام کے لےے اےک بہت بڑی خدمت ہو گی اور مےں شےخی نہےں بگھا رتاجب ےہ کہتا ہوں کہ آج دنےائے اسلام مےں مےں ہی وہ واحد شخص ہوں جو اس کام کو کر سکتا ہے“۔
شاعری میں تو انہوں نے اپنی بے مثال صلاحیتوں کا بار بار دعویٰ کیا ہے۔اپنی وفات سے چند ماہ پہلے علامہ اقبال نے اپنے بارے میں یہ رباعی کہی:
سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سرآمدِ روزگار ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید
(ترجمہ: سرودِ رفتہ واپس آئے کہ نہ آئے، حجاز سے ٹھنڈی ہوا آئے کہ نہ آئے، یہ فقیر دنیا سے جا رہا ہے، دوسرا دانائے راز آئے کہ نہ آئے)۔
اور اس سے بہت پہلے انہوں نے کہا تھا:
پس از من شعرِ من خوانند و در یابند و می گویند
جہانے را دگرگوں کرد یک مردِ خود آگاہے
(ترجمہ: میرے بعد لوگ میرے شعر پڑھیں گے اور انہیں سمجھ کر کہیں گے کہ ایک مردِ خود آگاہ نے دنیا کو بدل دیا)۔
انہوں نے سچ کہا تھا:
من مثال ِلالہ¿ صحراستم
درمےانِ محفلے تنہا ستم
(ترجمانی: لالہ صحرا کی طرح میں بھری محفل میں تنہا ہوں) 
خلیفہ عبدالحکیم راوی ہیں کہ علامہ اقبال کی عادات مےں بعض غےر معمولی خوبےاں تھےں ۔ اےک بہت اچھی عادت ےہ تھی کہ وہ ہر شخص کے خط کا جواب ضرور دےتے تھے اور ہمےشہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔ انگرےزی اردو دونوں زبانوں مےں خوشخط تھے ۔ ۔۔ ۔ ا گر کوئی علم وفن ےا مسائل دےن و حکم کی بات پوچھتا تو اکثر طوےل اورمبسوط جواب لکھنے سے بھی گرےز نہ کرتے تھے۔ طبےعت مےں علمی پندار بالکل نہ تھا۔ جن باتوں کے متعلق وہ سمجھتے تھے کہ دوسرا مجھ سے زےادہ جانتا ہے وہ بے درےغ اس سے استفادہ کرتے تھے۔ داد دےتے تھے۔ اظہار تشکر کرتے تھے۔ بعض لوگ حےران ہوتے ہےں کہ بعض خطوط مےں انہوں نے مولانا سےد سلےمان ندوی کی بہت مداح سرائی کی ہے اور اےسے الفاظ لکھ گئے ہےں جن سے ےہ خےال پےدا ہوتا ہے کہ سےد سلےمان ندوی عالم کل ہےں اور اقبال ان کے شاگرد ہےں۔ ےہ اقبال کی فےاضی طبع تھی۔ اقبال کا علم اور انداز کا تھا اور سےد سلےمان کا اور اندازکا۔ لےکن جب سےد صاحب کی مخصوص معلومات سے استفادہ کرتے تھے تو دل کھول کر اس کا اقرار کرتے تھے۔ شاعری مےں جب ان کا مرتبہ مسلم ہو چکا تھا، اس وقت بھی اگر کوئی شخص معقول اعتراض کرے تو اس کو بشرح صدر قبول کرتے تھے۔ یہ بات ان کی عظمت کی ایک بڑی دلیل ہے۔
ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم رقم طراز ہیں کہ عام طور پر شاعروں کواپنے اشعارسنانے کا بڑا شوق ہوتا ہے۔اس معاملے میں حضرت اقبال بالکل انوکھے شاعر تھے۔انجمن کے جلسوں کے علاوہ، وہ ہمیشہ محفلوں اور مشاعروں میں اشعار سنانے سے گریز کرتے تھے۔مشاعروں میں تو وہ قطعاً شریک نہ ہوتے تھے۔اقبال اپنے توسیعی لیکچر پڑھنے کے لیے جب مدراس کے بعد حیدرآباد گئے توعثمانےہ ےونےورسٹی کی اےک تقرےب مےں سروجنی نائےڈو کی بڑی بےٹی پدمجانے میری موجودگی میںاقبال سے بزور درخواست کی کہ کوئی نظم سنائےے۔ اقبال نے مزاحاً کہا کہ مےرے مرشد نے منع کےا ہے ،عورتوں کو شعر مت سناےا کرو۔ سر اکبر حےدری پاس کھڑے تھے ۔کہنے لگے کہ ان کو سنا دےجئے، مرشد کی خلاف ورزی نہےں ہو گی! ےہ عورتےں اس نوع کی نہےں جو آپ کے مرشد کے ذہن مےں ہو ں گی!
خلیفہ عبد الحکیم یہ بھی لکھتے ہیں کہ ایک طرف ان کے انداز میں قلندری اور بے نیازی تھی اور دوسرے طرف یہ بھی تمنا تھی کہ مجھے کوئی ایسا عہدہ مل جائے جو مجھے مطمئن اور روزگار سے بے فکر کر دے۔ ایک دو مرتبہ ہائی کورٹ کی ججی خالی ہوئی جسے ایک مسلمان جج سے پر کرنا تھا۔ انہیں معلوم ہوا کہ شیخ عبد القادر بھی اس کے لےے کوشاں ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ ڈاکٹر صاحب یا تو آپ کسی خاص مقصد کی تمنا چھوڑ دیں یا اس کے حصول کے لےے جو راستے ہیں وہ اختیار کر لیں۔ ان عہدوں کو حاصل کرنے والے خاص طریقے استعمال کرتے ہیں۔ کچھ حکام رسی ہے۔کچھ آداب تملق ہیں۔کچھ غلامانہ حرکتیں ہیں۔ ان سب طریقوں سے آپ کی طبیعت گریز کرتی ہے اور پھر آپ چاہتے ہیں کہ اس فرنگی حکومت میں آپ کو کوئی بڑا عہدہ مل جائے۔ آپ کے ساتھی اور معاصر جو آپ کے مقابلے میں عشر عشیر استعداد بھی نہیں رکھتے‘ وہ ان عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں اور آپ دیکھتے کے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ یا اپنی تمنا بدلئے یا اس تمنا کے حصول کے راستے اختیار کیجےے۔ یہ خدا کی بڑی رحمت تھی کہ ان کی اس قسم کی کوئی تمنا پوری نہ ہوئی۔ خود ہی فرماتے تھے کہ انسان کی بعض دعائیں ایسی ہوتی ہیں کہ خدا اپنی رحمت کی وجہ سے انہیں قبول نہیں کرتا۔
اقبال نے اپنے مشہور عالم خطبات میں آئن سٹائن کے نظریہ¿ اضافیت کی روشنی میں فلسفہ¿ زمان و مکاں پر بحث بھی کی ہے۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم نے ان خطبات کا ترجمہ و تلخیص کی ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ ( ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم )نظریہ¿ اضافیت سے ناآشنا تھے۔انہیں کائنات کے لحاظ سے infiniteاورboundless کے فرق کا پتہ ہی نہیں چل رہا تھا۔ عاجز ہوکر لکھتے ہیںکہ اب آئن سٹائن کی اس بات کو کون سمجھے اورسمجھائے کہ مکاںمحدود بھی ہے اورلامحدود بھی! حالانکہ آئن سٹائن نے اس قسم کی کوئی بات نہیںکہی ۔ ادھر علامہ اقبال کی خداداد صلاحیتوںپر غور کیجئے کہ ریاضی کے علم کے بغیر بھی ان کاذہن یہ بات ماننے سے انکار کر رہا ہے کہ وقت چار ابعادی کائنات کا چوتھا بُعد ہو سکتا ہے۔
26جنوری1959ءکو خلیفہ عبدالحکیم اسلامی مجلسِ مذاکرہ میںشرکت کے لیے کراچی گئے۔ 30جنوری کوممتاز حسن نے ڈاکٹر باقر کو بتایا: ابھی ابھی خلیفہ صاحب آئے اور کہنے لگے کہ میں حافظ عبدالمجید سے مل کر آرہا ہوں۔ پھر باتھ روم کا پوچھا۔ میں نے بتادیا۔ آپ وہاں غیر معمولی دیر لگا نے کے بعد لوٹے اور آکر میری میز کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ میں کاغذات سنبھال رہا تھا۔ اس لیے خلیفہ صاحب سے کہاکہ آپ تشریف رکھیں، کام ختم کرلوں تو فراغت سے باتیں کریں گے۔ جب ان کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا تو مجھے یہ بات خلیفہ صاحب کی طبیعت کے پیشِ نظر خلافِ معمول نظر آئی۔نظر اٹھا کر دیکھا تو معاملہ دوسرا تھا۔ سانس پھولی ہوئی تھی اور دایاں ہاتھ دل پر رکھ کر کہہ رہے تھے:
Oh my heart. This has never happened before. 

( ہائے میرا دِل۔ پہلے کبھی یہ کیفیت نہیں ہوئی)۔ممتاز حسن نے انہیں صوفے پر لٹادیااور ڈاکٹر بلوایا اور بس۔ یوں ہنستا کھیلتا انسان ایک منٹ میں اس دنیا سے رشتہ توڑ کررخصت ہو گیا۔31جنوری1959ءکو انہیں لاہور میں دفن کردیا گیا:
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

مزید :

کالم -