چالیسویں قسط۔ ۔ ۔بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ
مشتاق مرزا مدرس جامعہ ہائی سکول جہلم اس علاقے کے مشرقی جانب کا جغرافیہ یوں بیان کرتے ہیں کہ’’جہلم شہر کے مغرب میں ٹلہ کے پہاڑ کا سلسلہ ہے جو جہلم سے بیس میل مغرب میں ہے۔ اس کے مشرقی سرے پر رہتاس کا قلعہ ہے جو نالہ گہان کے کنارے ہے اور جنوبی سرا کوہستان نمک سے جا ملتا ہے۔ یہ ٹلہ ’’جوگیاں‘‘ کے نام سے منسوب ہے اور بلندی ۲۹۰۰ فٹ کے قریب ہے۔ اس کے دونوں طرف چھوٹی چھوٹی بستیاں پھیلی ہوئی ہیں اور ان میں اکثریت گکھڑ قوم سے تعلق رکھتی ہے۔ زمین انتہائی غیر ہموار ہے۔ برساتی نالوں سے پانی میسر آتا ہے پہاڑ کی چوٹی خوشگوار ماحول رکھتی ہے۔ لیکن پانی نایاب ہے۔ ہندوؤں کے دور میں یہ چوٹی آباد تھی اب دو ریسٹ ہاؤس قابل رحم حالت میں ہیں۔ دو بہت بڑے تالاب بھی ہیں اور چیڑھ کے چند درخت ہیں۔
کوہستان نمک میں باغانوالہ گاؤں کے قریب ایک قلعہ کے آثار ہیں جسے نندانہ سے منسوب کرتے ہیں۔ یہ وہی قلعہ’’نندانہ‘‘ تھا جسے ہنڈ(یا ویہند) کے بعد ہندوؤں نے اپنا مرکز بنایا تھا جو اب مکمل طور پر کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے۔
انتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
روایت ہے کہ البیرونی نے یہاں سے زمین کے قطرکی پیمائش کی تھی۔ اور قلعہ نندانہ سے پندررہ میل مغرب کی طرف اسی سللسہ کوہ میں کھیوڑہ کے قریب ایک اور قلعہ کسک ہے جو ہندوؤں کے دور کی نشانی ہے۔ مغل بادشاہوں کا راستہ کوہستان نمک میں کلر کہار کا تھا۔‘‘
الغرض آگے اس مضمون کو پڑھنے اور نقشوں کو غور سے دیکھنے کے بعد صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ شہاب الدین محمد غوی کے عہد حکومت تک پنجاب والے لاہور کا نام تک نہیں تھا بلکہ وہ بعد میں معرض وجود میں آیا۔ جس کی تفصیل ذیل میں درج کی جاتی ہے۔
کھوکھروں کی بغاوت
قوم ککر یا کھکر لاہور اور ملتان کے درمیان پہاڑوں میں رہتی تھی اور ان پہاڑوں کے دشوار گزار ہونے کی وجہ سے قوم ککر کا ایک بڑا گروہ جمع ہوگیا تھا لیکن شہاب الدین کے رعب اور خوف سے یہ اس قدر متاثر تھے کہ سالانہ خراج شاہی خزانہ میں داخل کیا کرتے تھے جس وقت شہاب الدین کی موت کی غلط خبر مشہور ہوئی ککر بگڑ گئے۔ بدعہدی و بغاوت پر کمریں باندھ لیں اور پہاڑی قوموں سے سازش کرکے فتنہ و فساد اور لوٹ مار کا درواہز کھول دیا۔ دن دہاڑے مسافروں کو لوٹ لینے لگے۔ غزنین اور لاہور کے راستے خطرناک ہوگئے۔ آمد و رفت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ شہاب الدین نے اپنے گورنر لاہور محمد بن ابو علی کو لکھ بھیجا کہ ککر سے سالانہ خراج وصول کرکے بھیجو اور بد نظمیوں کو دفع کرکے امن و امان قائم کرو۔ ککر نے محمد بن ابو علی کی کسی بات کی پروا نہ کی۔ شہاب الدین نے قطب الدین ایبک کو قوم ککر کی سرکوبی اور سمجھانے بجھانے کے لیے روانہ کیا ککروں کے سردار نے ایبک کو ٹکا سا جواب دے دیا کہ اگر شہاب الدین زندہ ہوتا تو وہ خود آتا اسے یہ کہاں تاب تھی کہ ہم خراج دینا بند کر دیتے اور وہ خاموش بیٹھا رہتا غرض کہ ککر نے ایبک کی ایک نہ سنی۔ شہاب الدین نے اس سے مطلع ہو کر قریہ شاپور میں لشکر مہیا کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ لشکر مرتب ہونے کے بعد ککر کی گوشمالی کے لیے روانہ ہوا جوں ہی شہاب الدین لاہور پہنچا، ککر نے اطاعت قبول کی۔ شہاب الدین ماہ شعبان ۶۰۱ھ میں لوٹ کر غزنین آیا اور فوراً ترکان خطا پر چڑھائی کر دی۔ (تاریخ ابن خلدون حصہ ششم محولہ بالا ص ۳۳۸) آگے لکھتا ہے:
کھوکھروں کی سرکوبی
شہاب الدین کی واپسی کے بعد ککروں نے پھر بغاوت کا جھنڈا بلند کر دیا رہزنی اور غارت گری کرنے لگے۔ اس مرتبہ ہنود کی اور قومیں بھی غارتگری اور بغاوت میں شریک ہوگئیں۔ شہاب الدین کو اس کی خبر لگی۔ ہند کے مقبوضہ علاقے میں بد امنی پھیلنے کے خیال سے ترکان خطا کے مقابلہ سے لشکر واپس لے کر غزنین کی طرف آیا اور وہاں سے لشکر کو از سر نو آراستہ کرکے ماہ ربیع الاول ۶۰۲ ھ میں ککروں کی سرکوبی کے لیے بڑھا۔ نہایت تیزی سے کوچ و قیام کرتا ہوا ککروں کے سروں پر پہنچ گیا۔ ککر بھی جنگ کے لیے پہاڑوں سے اتر کر میدان میں صف آراء ہوئے۔ ایک شب و روز مسلسل لڑائی ہوتی رہی۔ دوران جنگ میں جب کہ گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی قطب الدین ایبک لشکر اسلام لئے ہوئے دہلی سے آپہنچا اور تکبریں کہتا ہوا ککروں پر حملہ آور ہوا۔ ککروں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ نہایت ابتری سے شکست کھا کر بھاگے۔ مسلمانوں نے ککروں کو جہاں پایا مار ڈالا۔ ککروں کا ایک بڑا گروہ ایک گنجان جنگل میں گھس گیا لیکن مسلمانوں نے اس میں آگ لگا دی ۔ بے انتہا مال غنیمت ہاتھ آیا۔ ککروں کا سردار مارا گیا۔ اسی اثناء میں دانیاں نامی سردار لشکر جودی (یاجوگی) نے بھی سرا اٹھایا۔ شہاب الدین اس کی سرکوبی کی طرف متوجہ ہوا۔ چنانچہ ماہ رجب اسی مہم میں گزر گیا۔ الغرض جس وقت باغیان ہندوستان کی سرکوبی سے فراغت حاصل ہوگئی۔ اس وقت شہاب الدین نے صوبہ لاہور سے غزنین کی طرف کوچ کیا۔
کوکر یا کھکر یا کفار تراہیہ پہاڑی قومیں تھیںَ مذہباً یہ سب بت پرست تھے۔ مسلمانوں کے پکے دشمن تھے۔ ککر اطراف پشاور میں فتنے پھیلاتے رہتے تھے اور مسلمانوں کو ایذائیں دیتے تھے اور کفار تراھیہ پنجاب اور غزنین کے درمیانی پہاڑوں میں سکونت پذیر تھے۔ (تاریخ ابن خلدون۔ حصہ ششم )(جاری ہے)
اکتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔