وہ باپ جس نے بیٹی کو ’افسر‘ بنانے کے لئے اپنا گھر اور رکشہ بیچ دیا

نئی دہلی (ڈیلی پاکستان آن لائن )انڈیا کی ریاست مہاراشٹر کے علاقے یاوتمال سے تعلق رکھنے والے اشفاق احمد کی بیٹی ادیبہ نے ملک گیر پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں 142ویں پوزیشن حاصل کی ہے اور اب وہ ایک آئی اے ایس بن سکتی ہیں۔
بی بی سی کے مطابق’میں نے اپنا گھر بیچ دیا۔ میں نے اپنا رکشہ بیچ دیا لیکن میں نے کچھ کھویا نہیں کیونکہ اس پیسے سے میری بیٹی ایک بڑی افسر بن گئی۔ اپنی بیٹی کو آئی اے ایس افسر بنانے کے لئے اگر مجھے خود کو بھی بیچنا پڑتا تو ایسا کرتا لیکن میں اس پر کبھی مایوس نہ ہوتا۔‘ادیبہ کا خاندان شہر کے کالمب چوک میں کرائے کے ایک مکان میں رہتا ہے۔ ان کا اپنا گھر نہیں ہے۔
ادیبہ کے والد اشفاق احمد رکشہ چلا کر خاندان کی کفالت کرتے ہیں۔ انھوں نے پورے اعتماد کے ساتھ یہ کوشش جاری رکھی کہ کسی طرح ان کی بیٹی تعلیم مکمل کر سکے۔اقلیتی کمیشن کے چیئرمین پیارے خان نے ادیبہ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ’مہاراشٹر کی پہلی مسلم خاتون آئی اے ایس افسر‘ بنیں گی۔
ادیبہ نے یاوتمال کے ایک اردو میڈیم سکول سے تعلیم حاصل کی تھی۔ انھوں نے کبھی بھی آئی اے ایس افسر بننے کا خواب نہیں دیکھا تھا کیونکہ خاندان کے مالی حالات اتنے اچھے نہیں تھے۔
ان کے والد نے انھیں رکشہ چلانا بھی سکھایا تھا مگر ادیبہ کی ایک ہی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح اپنی تعلیم مکمل کر کے کہیں نوکری کریں۔شروع میں وہ میڈیکل کے شعبے میں جانا چاہتی تھیں لیکن اس کے لئے سرکاری کالج میں داخلہ لینا ضروری تھا کیونکہ پرائیویٹ میڈیکل کالج کی استطاعت نہیں تھی۔
مگر میڈیکل میں داخلہ کے امتحان کے نتائج اچھے نہیں رہے۔ ان کے سامنے سوال یہ تھا کہ اب وہ کیا کریں گی۔ حالات کا تقاضا تھا کہ وہ پڑھ لکھ کر جلد نوکری شروع کریں۔وہ بی بی سی مراٹھی کو بتاتی ہیں کہ وہ مایوس تھیں مگر ایک این جی او نے ان کی مدد کی اور یقین دلایا کہ سول سروس کتنی اہم ہے۔ انھوں نے ادیبہ کو نہ صرف آگاہی دی بلکہ ان کی مالی مدد بھی کی۔ پھر وہ تعلیم حاصل کرنے پونے گئیں اور وہاں یو پی ایس ای کی تیاری شروع کر دی۔
میں نے پونے میں پرائیویٹ کوچنگ لی۔ میں اپنی پہلی کوشش میں ناکام رہی لیکن پھر میں ممبئی کے حج ہاو¿س گئی۔ میں نے وہاں سے دوسری بار امتحان دیا۔ تب بھی مجھے مایوسی ہوئی۔'اس کے بعد میں دلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ گئی اور بھرپور طریقے سے مطالعہ شروع کیا۔ مجھے چوتھی کوشش میں کامیابی ملی۔ میری 142ویں پوزیشن دیکھ کر امی اور ابو کو بہت فخر ہے۔'
میں اپنے والدین اور ہر اس شخص کی بہت مشکور ہوں جس نے میری مدد کی۔ میں اپنے والدین کا شکریہ ادا نہیں کر سکتی کہ انھوں نے میرے لئے جو قربانیاں دی ہیں۔'وہ کہتی ہیں کہ اب ان پر معاشرے کی خدمت کی بڑی ذمہ داری ہوگی۔ادیبہ کے والد کی مالی حالت بہت خراب تھی اور انھیں اپنی بیٹی کی تعلیم کے لئے اپنا گھر بیچنا پڑا۔ انھوں نے اپنی بیٹی کی تعلیم کے لئے اپنا رکشہ بھی بیچ دیا تھا۔
بی بی سی مراٹھی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے اپنی بیٹی کی تعلیم پر ایک روپیہ بھی ضائع نہیں ہونے دیا۔ جب فون آیا کہ مجھے تعلیم کے لئے پیسوں کی ضرورت ہے تو میں نے انھیں بتایا کہ میرے پاس پیسے ہیں۔'اس وقت میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ لیکن میں نے اسے اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا۔ کیونکہ اس کی پڑھائی متاثر نہیں ہونی چاہئے۔'وہ کہتے ہیں کہ 'میں نے وہ رکشہ بھی بیچ دیا جو میں بیٹی کو آئی اے ایس افسر بنانے اور خاندان کی کفالت کے لئے استعمال کر رہا تھا۔'انھوں نے کہا کہ 'میں نے لوگوں سے بہت قرض لیا۔ اس سب کے باوجود میری بیٹی کے اچھے نتائج نہیں آئے۔ لیکن میں مایوس نہیں ہوا۔ مجھے یقین تھا کہ میری بیٹی ایک دن آئی اے ایس افسر بنے گی اور ہم نے اسے ہر بار یہی امید دلائی۔'
آخر میں جگر مرادآبادی کی ایک نظم کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ انھوں نے حالات کا کیسے سامنا کیا اور اس سے انھیں کیا حاصل ہوا: یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجئے، اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔
اس سب کے دوران انھوں نے مشکلات کا سامنا کیا۔ 'میں نے گھر بیچا، رکشہ بیچا لیکن میں نے کچھ نہیں کھویا کیونکہ میری بیٹی اس پیسے سے بڑی سرکاری افسر بن گئی۔'اگر مجھے اپنی بیٹی کو آئی اے ایس افسر بنانے کے لئے خود کو بیچنا پڑتا تو خود کو بھی بیچ دیتا لیکن میں کبھی مایوس نہیں ہوتا۔'