جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر70
’’تم تو اپنے متر کو بھول ہی گئے‘‘ اس نے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے شکوہ کیا۔
’’کالی داس! ایسی بات نہیں مجھے تمہاری کسی ٹھکانے کا علم ہی نہیں پھر میں تم سے کیسے ملتا؟‘‘ میں نے کہا۔
’’اب ہم متربن چکے ہیں میرے سارے استھان اب تمہرے ہیں، میں کچھ سمے بعد تمہیں کھد ہی اپنے سنگ لے جاکردکھا دوں گا۔ اس سمے تو میں تمہیں تمہرا وچن یاد دلانے آیا ہوں‘‘ اس نے بے پرواہی سے کہا۔
’’کالی داس میں جب کسی سے وعدہ کر لوں تو اسے بھولتا نہیں ہوں۔‘‘
’’وچن دے کر پھرنا بھلے مانسوں کا کام نہیں۔ رادھا کا جاپ کھتم ہونے میں تھوڑا سمے رہ گیا ہے۔ وہ آتے ہی ضرور تم سے ملے گی تم کیول اتنا کرنا کہ مجھے کھبر کر دینا‘‘ وہ مجھے بڑی گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا شاید اسے بھی یقین نہ تھا کہ میں اپنا وعدہ پورا کروں گا۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر69 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’لیکن میں تمہیں بتاؤ ں گاکیسے؟مجھے توپتا ہی نہیں تم کہاں رہتے ہو میرا مطلب ہے میں تم سے رابطہ کیسے کروں گا؟‘‘
’’تم سچے من سے میرا وچارکرلینا میں کھد آجاؤں گا۔ پرنتو اتنا دھیان رہے کہ رادھا کو دیکھ کرہمیں بھول نہ جانا‘‘ اسنے معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھا۔
’’کالی داس میں نے تمہیں کہا تو ہے کہ جب میں کسی سے وعدہ کر لیتا ہوں تو اسے نبھانامجھے آتا ہے۔‘‘ میں نے اسے یقین دلایا۔
’’دھن باد خان صاحب!‘‘ اسنے کہا۔ گاڑی کی رفتار خودبخود آہستہ ہونا شروع ہوگئی۔ بالآخر وہ رک گئی۔ کالی داس نے اپنی قوت سے اسے روک دیا تھا مقصد مجھ پر اپنی برتری ثابت کرنا تھا۔ اسنے دروازہ کھولا اور باہر نکل کر ایک طرف چل پڑا۔ میں کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ اس واقعہ کے بعد بسنتی نے بھی کوئی رابطہ نہ کیا تھا۔ مجھے حوالات کی وہ رات بھولی نہ تھی جب بسنتی نے مجھے عنائیتوں سے نوازا تھا۔ اس کا والہانہ پن دیوانگی کی حد تک تھا۔ وہ بلا شبہ آگ تھی۔ جوانی کے جوبن سے بھرا جسم ایسا نہ تھا کہ اسے بھلا دیاجاتا۔ یہی سوچتا میں گھر میں داخل ہوا۔ بچے حسب معمول اپنا ہوم ورک کر رہے تھے۔ کھانا کھانے کے بعد ہم کچھ دیر کے لئے پروفیسر صاحب کی طرف چلے گئے۔ واپس آکر رات دیر تک میں اور صائمہ باتیں کرتے رہے پھر سو گئے۔
رات کو جانے کونسا پہر تھا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ میں ابھی جاگنے کی وجہ سے سوچ ہی رہا تھا کہ میرے کانوں میں بسنتی کی مدہر آواز آئی۔
’’مہاراج! اپنی داسی کو اتنی جلدی بھول گئے؟ کچھ جیادہ سمے تو نہیں ہوا کہ میں نے تمری سہائتاکی تھی؟‘‘ اسکی شوخ آواز میرے کانوں میں پڑی۔ میرے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی۔ ایک نظر خوابیدہ صائمہ کی طرف دیکھ کرمیں نے دبی دبی آواز میں پوچھا۔
’’تم کہاں ہو بسنتی؟َ‘‘
’’اپنے من میں جھانک کر دیکھو۔۔۔بسنتی کا استھان تمرے ہردے میں ہے‘‘ وہ کھکھلا کر ہنسی۔
’’اپنی داسی کو درشن نہ دو گے مہاراج! اتنے کھٹور کب سے ہوگئے؟‘‘ وہ حد سے زیادہ شوخ ہو رہی تھی۔
’’تم ہوکہاں؟‘‘میں نے بے چینی سے پوچھا۔
’’وہیں جہاں تمرا اور رادھا کا ملن ہوتا تھا‘‘ اسکی خمار آلود سرگوشی میرے کان میں ابھری ۔ میں نے آہستہ سے دراز کھول کر سگریٹ کاپیکٹ نکالا اور دبے قوموں سے دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ بہار کا موسم شروع ہو چکا تھا۔ فضامیں بھینی بھینی خوشبو رچی ہوئی تھی۔ لان میں آکر میں نے ادھر ادھر دیکھا۔
’’میں یہاں ہوں‘‘ لان کے نیم تاریک گوشے سے بسنتی کی آواز آئی۔ وہ چمبیلی کی بیل کے پاس کھڑی تھی۔ قریب پہنچتے ہی وہ لپک کرمیرے گلے لگ گئی۔ اس کے وجود سے اٹھتی خوشبو مجھے مدہوش کر دیا کرتی تھی۔ کافی دیر ہم ایک دوسرے سے لپٹے رہے پھر وہ میرا چہرہ اپنے کومل ہاتھوں کے پیالے میں تھام کر بولی۔
’’تم سے دور رہ کر میں کتنی بیاکل رہی ہوں تم وچاربھی نہیں کر سکتے۔‘‘
’’تم سے کس نے کہا تھا کہ دور رہو۔تم تو خود ہی چلی گئی تھیں۔ کہاں رہیں انتے دن؟‘‘ میں نے اس کے نرم و ملائم ہاتھ تھام لئے۔
’’سمے کتنا سندر ہے ایسے میں کوئی دو جی بات نہ کرو پریتم! کیول پریم کرو‘‘ اس کی آواز بوجھل ہو چکی تھی۔
وہ میرا سوال بڑی خوبصورتی سے ٹال گئی تھی۔ اس کے بعد محبت کی زبان میں باتیں ہونے لگیں۔ صبح دم جب وہ واپس جانے لگی تو میرا ہاتھ تھام کر بولی۔ رادھا کے آنے میں تھوڑا سمے رہ گیا ہے۔ یدی تم نے مہاراج کالی داس کی آگیا کا پالن نہ کیا توبڑی کٹھن گھڑی آپڑے گی‘‘ مجھے لگا وہ اندر سے خوفزدہ ہے۔
’’رادھا کب آئے گی؟‘‘ میرا دل دھڑک اٹھا۔
’’کیول آٹھ دن رہ گئے ہیں اس کا جاپ پورا ہونے میں مجھے وشواس ہے وہ سب سے پہلے تمرے درشن کرنے آئے گی۔‘‘ بسنتی کے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کہ میں چونکے بغیر نہ رہ سکا۔ میں نے اسکی طرف مستسفرانہ نظروں سے دیکھا وہ کسی سوچ میں گم تھی۔
’’بسنتی! میں نے کالی داس کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ میں اپنا قول نبھاؤں گا لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ وہ خود اتنا طاقتور ہے پھربھی وہ رادھا کو قابو نہیں کر سکتا جبکہ میں تو ایک عام سا انسان ہوں میں اس سلسلے میں اس کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟ نہ تو میں پراسرار قوتوں کا ماہر ہوں نہ اس کام کا مجھے کوئی تجربہ ہے۔ پھر یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوگا؟‘‘ میں بری طرح الجھ کر رہ گیا تھا۔
’’یدی تم اس کام کو کرنے میں سپھل نہ ہوئے تو ۔۔۔؟‘‘ اس کے حسین چہرے پر تفکرات کی پرچھائیاں رقص کر رہی تھیں۔’’میرا کام توصرف اتنا ہے کہ جب رادھا مجھ سے ملنے آئے میں کالی داس کو بتا دوں اس کے بعد وہ کیا کرتا ہے یہ میرا نہیں اس کا درد سر ہے۔‘‘ میں نے بے پرواہی سے کہا۔
’’یہ سب اتنا آسان نہیں جتنا تم وچار کر رہے ہو۔ تمہیں ابھی رادھا کی شکتی بارے جانکاری نہیں‘‘ بسنتی کی آواز کانپ رہی تھی۔
’’تم رادھا سے خوفزدہ ہو؟‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھا۔
’’یہ بات نہیں‘‘ اس کالہجہ اسکی بات کی نفی کر رہا تھا۔’’ یدی کالی داس اسے اپنے بس میں کرنے سے ناکام رہا تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے‘‘ اس کے لہجے میں اندیشے لپک رہے تھے۔
کسی بات کی فکر نہ کرو‘‘ میں نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
’’مہاراج! مجھے وچن دو کہ تم کالی داس سنگ وشواس گھات نہ کرو گے‘‘ وہ ملتجی نگاہوں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔
’’آخر تم لوگوں کو میری بات پر یقین کیوں نہیں آتا؟‘‘ اس کے بار بار کہنے سے میں چڑ گیا۔
’’وشواش تو ہے پرنتو ایسا نہ ہوا تو گجب ہو جائے گا۔‘‘ اس کی ساری شوخی ختم ہوگئی تھی۔ میں نے اس کی ریشمی زلفوں سے کھیلتے ہوئے تسلی دی۔ ایک بار پھر نشہ مجھ پر سوار ہونے لگا تھا۔ لیکن جب بسنتی کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہ ملا تو میں بھی خاموش ہوگیا۔ اس کے جانے کے بعدمیں دبے قدموں اندر داخل ہوا۔ صائمہ محو خواب تھی۔ آٹھ دن ۔۔۔صرف آٹھ دن رہ گئے تھے رادھا کے آنے میں۔ بسنتی کا کہنا تھا کہ وہ کسی طور رادھا سے کم نہیں اس کے علاوہ کالی داس بھی اس کے ساتھ تھا پھر ۔۔۔پھر وہ کیوں خوفزدہ تھی۔۔۔
یہ گھورکھ دھندا میری سمجھ سے باہر تھا۔ بسنتی نے رادھا کو دھوکہ دیا تھا۔ وہ اسے میرا نگہبان بناکرگئی تھی لیکن اس نے دوست بن کر اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا۔ بسنتی کو شاید کالی داس کی پراسرار قوتوں پر کچھ زیادہ بھروسہ نہ تھا۔ رادھا کے آنے کے بعد اگر میں اپنے وعدے سے پھر جاؤں تو؟ اچانک میرے ذہن میں خیال آیا۔ لیکن فوراً ہی میں نے اسے رد کردیا۔ رادھا حسن میں بسنتی کے مقابل نہ تھی البتہ طاقت میں وہ اس سے زیادہ تھی۔ رہی بات محبت کی تو وہ دونوں مجھ سے کرتی تھیں۔ میں دونوں میں موازنہ کرتا رہا۔ دماغ رادھا کی طرفداری کرتا تھا لیکن کمبخت دل بسنتی کے راگ الاپ رہاتھا۔ رادھا نے کئی مواقع پرمیری مدد کرکے مجھے موت کے منہ سے نکالا تھا اور اب تو وہ صائمہ کے سلسلے میں بھی مفاہمت اختیار کرچکی تھی۔ اگر دیکھا جائے تو رادھا ہر لحاظ سے میرے لئے بہتر تھی۔ لیکن بسنتی کا انداز محبت اتنا دلکش تھا کہ میرا دل اسی کی جانب کھنچا جا رہا تھا۔ خیر رادھاکے آنے کے بعد فیصلہ ہوگاکہ کیا کیا جائے؟ یہ سوچ کر میں مطمئن ہوگیا۔
سات دن اور گزر گئے رات بارہ بجے کے قریب مجھے بسنتی نے آواز دے کر باہر بلایا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں خود بھی اس کا منتظر تھا۔ تھوڑی دیر پہلے میں اور صائمہ باتیں کر رہے تھے میں نے آہستہ سے سر گھما کر اس کی طرف دیکھا وہ سو چکی تھی پھر بھی میں نے ہلکے سے اسے آواز دی۔ جواب نہ پا کر میں مطمئن ہوکرباہر نکل آیا۔
’’بسنتی‘‘ میں نے لان میں آکر پکارا۔
’’جی مہاراج!‘‘ بسنتی کے آواز مجھے اپنے پیچھے سے سنائی دی۔ میں جلدی سے مڑا۔ وہ فتنہ گربالکل میرے پاس کھڑی تھی۔ گلابی رنگ کی مختصر سے کھاگر یچولی میں وہ ہمیشہ سے زیادہ حیسن لگی۔ میں سحر زدہ سا اسے دیکھتا رہا گلاب کی پنکھڑیاں واہوئیں۔
’’پریم۔۔۔‘‘ وہ مجھ سے لپٹ گئی۔ ہم دونوں ایک دوسرے میں جذب ہوگئے۔ اسکی چڑھتی سانسیں اس کے اندر کے حال کاپتا دے رہی تھی۔ تپتے بدن کی آنچ مجھے پگھلائے جا رہی تھی۔
’’پریم!‘‘ اسکی بوجھل سرگوشی میرے کانوں میں رس گھول گئی۔
’’ہوں‘‘ مجھ پر خمار چھانے لگا۔
اس کے بعد باتیں ختم ہوگئیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔
’’کیول ایک دن رہ گیا ہے رادھا کے واپس آنے میں‘‘ جب طوفان تھما تو بسنتی نے کہا۔
’’رادھا کے آنے کے بعد ہمرا ملن نہ ہو پائے گا‘‘ اس کے لہجے میں حسرت تھی۔
’’کیا تم رادھا سے خوفزدہ ہو؟‘‘
’’نہیں۔۔۔پرنتو میں نے رادھا سے وشواس گھات کیا ہے۔ یاد ہے اس نے جاتے سمے کیا کہا تھا؟‘‘
’’کیا کہا تھا؟‘‘ میں نے ماتھے پر آئی شریر سی لٹ کوانگلی پر لپیٹتے ہوئے پوچھا۔
’’مہاراج!کیا واقعی تم کالی داس کی آگیا کا پالن کرو گے؟‘‘ اسکی آنکھوں سے بے یقینی کا اظہارہورہا تھا۔
’’کہہ جو دیا کہ میں ہر صورت میں اپنا وعدہ پورا کروں گا پھر باربار تم لوگ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو؟‘‘اسنے میرا ہاتھ تھام کر اپنے سر پر رکھا لیا۔
’’میرے سرکی سوگندکھاؤ کہ تم رادھا کے کارن میرے سنگ وشواس گھات نہ کرو گے‘‘ اس کی آنکھوں میں موتی چمکنے لگے۔ میں نے زور سے اسے بھینچ لیا۔
’’میری جان! یقین کرو میں تمہارے اعتماد کو دھوکہ نہ دوں گا‘‘ وہ میرے سینے سے لگ کر سسکنے لگی۔’’پریم !یدی تم نے کالی داس کی سہائتانہ کی تو۔۔۔‘‘ اسکی ہچکیاں بندھ گئیں۔ میں سوچتا تھا بسنتی کیوں خوفزدہ ہے۔ اسنے رادھا کی محبت پر ڈاکا ڈالاتھا۔ اس کا حق استعمال کیا تھا۔ رادھا کو یہ کسی طورگوارا نہ تھاکہ مجھے اس کے علاوہ کوئی چاہے اور بسنتی کو تو وہ میرا نگہبان مقرر کر کے گئی تھی۔ جاپ پر جانے سے پہلے اس نے بسنتی کو بلا کر اسے میری حفاظت کرنے کا حکم دیا تھا۔ پہلی ملاقات میں میں نے بسنتی کی آنکھوں میں اپنے لئے محبت چھلکتی دیکھ لی تھی۔ رادھا کے جانے کے بعد بسنتی کی حوصلہ افزائی سے میرے قدم ڈگمگا گئے تھے۔ وہ بھی مجھے حاصل کرنے کے لئے بے چین تھی۔ اسی دوران شاید اسکی ملاقات کالی داس سے ہوئی جو خود بھی رادھا پر خار کھائے بیٹھا تھا۔ دونوں نے مل کر سازش سے میرے گرد رادھا کا بندھا ہوا حصار ختم کروایا۔ جس کے لیے کسی کنواری لڑکی سے جسمانی تعلقات قائم کرنا ضروری تھا۔ اس سلسلے میں سبین کو قربانی کا بکرابنایا گیا۔ میں خود بھی بھی بسنتی کے قرب کے لئے مرا جا رہا تھا بلا سوچے سمجھے بسنتی کے اشاروں پر چل کر اس معصوم کی عزت لوٹ لی۔ جسکا خمیازہ مجھے بھگتناپڑا۔ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا تھا۔