ستائیسویں قسط۔۔۔ سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان
سائیں سردار جیسے حق شناس اور فنا الشیخ ہونے والے خلفاء کو باطنی رفعتوں کے ساتھ کئی دنیاؤں کا نظارہ کرایا جاتا تھا۔سالکین کو معراجِ باطن سے پہلے مجاہدوں اور چلّوں کے دوران ایسی بہت سے آزمائشوں اور امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے۔جو شیطان کی دستبرد سے بچ نکلتا ہے وہ اپنے لطیفۂ نفس کو قابو کرنے پر قادر بھی ہو جاتا ہے ۔سائیں سردار کا کہنا ہے’’چند روز بعدکی بات ہے۔ یہ منگل وار کا دن تھا ۔صبح دس بجے کے قریب ذکر میں مشغول تھا کہ مشرق کی طرف سے روشنی پھوٹتی نظر آئی۔ تصوّر قبلہ عالم سامنے آیا ،مشرق کی جانب ایک مکان نظر آیا اس کے اوپر سفید سرخ اور پیلے کبوتر اڑ رہے تھے۔ پیر صاحب اس مکان کا مغربی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے۔ اس کے اندر پلنگ تھا اوراس پر ایک بزرگ چادر تانے ہوئے سورہے تھے ۔چادر بادامی رنگ سے منقوش تھی ۔قبلہ عالم نے اس بزرگ کے منہ سے چادر ہٹائی۔ اسی وقت آپ کا چہرہ مبارک چمکا تو آنکھوں پر اندھیرا ہو گیا۔ اس کے بعد روشنی ہوئی ۔آپ نے پردہ پھر اٹھایا تو چمکار پیدا ہوئی اور اندھیرا ہو گیا۔ اسی طرح تین دفعہ پردہ اُٹھایا گیا ۔ اب کی بار صرف سفید داڑھی نظر آئی۔ روشنی کی شدت کے باعث باقی حصّہ اور وجود نہ نظر آ ئے۔ اندر کبوتر کھیل رہے تھے جب باہر آئے تو اندھیرا ہو چکا تھا اور اسکے ساتھ ہی میرا تصوّر بھی ختم ہوگیا۔
سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان۔۔۔چھبیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اسی روز ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر متوجہ ہوا۔ مغرب کی جانب روشنی ہو گئی ۔ایک اعلیٰ باغ دکھائی دیا ۔ جب میں اس باغ میں گیا تو باغ میں سائبان لگا ہوا پایا۔نزدیک ہوا تو تصوّر شیخ سے مشرف ہوگیا۔ سائبان کے نیچے ایک میز اور کرسی بچھی ہوئی تھی۔ قبلہ عالم پیر صاحب سائبان کے نیچے ٹہل رہے تھے ۔ پیر صاحب سے مصافحہ کیا اور واپس ہوا تو مغرب کی جانب بہت سے مکانات اور خانقاہیں دکھائی دیں۔ جب میں دروازہ سے گزرنے لگا تواچانک ایک آدمی سامنے آگیا۔اس نے کانوں میں مُندریاں ڈالی ہوئی تھیں۔ اس نے کہا آؤ میں تجھے زیارت کرادوں ۔میں نے اسکے ساتھ چلنے سے انکار کیا تواس نے مجھے بازو سے پکڑ کر کھینچنا شروع کردیا۔ میں بازو چھڑا کر چل پڑا ۔اس نے بددعا دی ’’ جا بدنصیب میں تو تیری خیریت مانگ رہا تھا ۔اب تمہارا منہ کالا ہوگا اور توگدھے پر سوار ہوکر میرے قدموں میں آ کر غلامی کرے گا‘‘۔اسکی بات سن کر میں نے لاحول پڑھا تو تصوّر سے مشرف ہوا اور اسی سائبان کے نیچے حاضر ہو گیا جہاں قبلہ عالم پیر صاحب چارپائی پر آرام فرما تھے ۔ایک اور بزرگ پاس ہی نیچے بیٹھے تھے۔ قبلہ عالم نے حکم دیا کہ سائبان کے نیچے دریاں بچھا دو ۔میرے ساتھ جو آدمی تھے ،اندر سے دریاں نکال کر لائے اور بچھا دیں ۔ کرسیاں اور میز بھی لگا دیں۔ جب وہاں سے فارغ ہوئے تو دیکھا اندھیرا پھیل چکا تھا۔
اس سے اگلے روز نماز ظہر سے قبل ذکر میں مشغول ہوا۔ شبیہ قبلہ عالم سامنے آئی۔ اچانک روشنی شدت سے دکھائی دی۔ جس میں ایک اور دروازہ دکھائی دیا جس کے سامنے دونوں کونوں میں کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ ایک کرسی پر حضور قبلہ عالم اور دوسری کرسی پر ایک دوسرے بزرگ تشریف فرما تھے۔ وہ آپس میں گفتگو فرمارہے تھے۔ ان بزرگوں نے کہا ’’آپ کے آدمی بہت جلد قرب حاصل کر لیتے ہیں، اس کے مقابل ہم بیس بیس سال سے کوشاں ہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی، اس کی کیا وجہ ہے؟؟‘‘
آپؒ نے فرمایا ’’قبلہ یہ گنج بخش ؒ اور حضور غوث الاعظمؒ کا کرم ہے ‘‘ اس لمحہ آپؒ کو دربار حیدری سے بلاوا آ گیا اور قبلہ عالم اس بزرگ کے ساتھ تشریف لے گئے۔ باقی درویش بھی پیچھے چل دئیے ۔سامنے ایک برآمدہ میں چٹائی بچھی ہوئی تھی ۔ ہمیں اس پر بیٹھنے کا حکم ملا۔آپؒ دربار حیدری میں تشریف لے گئے ۔اس کے بعد دو آدمیوں نے ایک آدمی کو چوکی پر اُٹھا کر دری کے اُوپر رکھا۔اس کا وجود جلا ہوا تھا۔ ہمیں حکم دیا گیا کہ اب سب لوگ واپس چلے جاؤ ورنہ تمہارا حال بھی یہی ہو گا۔ ایک اور آدمی چارپائی پر لایا گیا جس کا وجود گلا ہوا تھا اور کہا گیا ۔
’’دیکھو یہ بھی درویشی کا متلاشی تھا ۔اس واسطے ایسا ہو گیا۔ اس کے بعد ایک بزرگ تشریف لائے اور فرمایا دیکھو یہ جو سامنے آگ نظر آرہی ہے تمہیں اس آگ سے گزرنا ہو گا ۔ اس پر اِکتفا نہیں اس کے بعد اگر تم بچ نکلے تو جو نیچے دریا نظر آ رہا ہے اس میں کودنا پڑے گا جس سے بچنا مشکل ہے۔ اگر سلامت رہنا پسند کرتے ہو تو یہ خیال چھوڑ دو اور واپس چلے جاؤ۔ تمہارے پیر صاحب تو تمہیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ اب تم کو اس سے گزرنا ہے اور اب اس سے گزرو ورنہ بھاگ جاؤ‘‘۔
اسکی بات سُن کر میں اُٹھا تودروازہ کھل گیا۔ میں اللہ پر توکل رکھتے ہوئے آگ میں داخل ہو گیا۔ داخل ہوتے ہی میرا وجود ٹھنڈا ہو گیا،آگ گویا گلزار بن گئی۔ آگ سے گزرا تو سامنے قبلہ پیر صاحب نظر آئے ۔ ایک دوسرے بزرگ نے کہا ’’اگر دربار میں جانا چاہتے ہو تو اس دریا سے گزر کر دربار میں جاؤ ،یہاں کھڑا ہونے کی اجازت نہیں‘‘
جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں