غوثِ اعظم ؒ کی شان

اہل بغداد حیرت سے شیخ صدقہ بغدادی کو دیکھ رہے تھے جو بآواز بلند دنیا و مافیہا سے بے خبر ایک ہی بات کہے جارہے تھے کہ ایسا کوئی نہیں ہے جو مُجھ جیسا ہے ۔ عالمِ جذب و سکر میں وہ خود سے اور اہل دنیا سے بھی بے خبر ہوچکے تھے، جذب اور حال اُن پر طاری تھا اور وہ بار بار یہی کلمات دہرائے جا رہے تھے ۔ ان کے الفاظ کی باز گشت آخر کار خلیفہ وقت تک بھی پہنچ گئی۔ آپ کے کلمات کی سزا کے طور پر شرعی حد کے تحت آپ کو سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا ، لیکن پھر اہل بغداد نے جو منظر دیکھا اُسے دیکھ کر وہ تصویر حیرت بن گئے۔ جیسے ہی جلاد نے شیخ صاحب کا سر قلم کر نے کے لئے ہا تھ کو حرکت دینا چاہی تو اُس کا بازو شل ہو کر جیسے پتھر کا ہوگیا ہو، جلاد جیسے سنگی مجسمہ بن گیا ہو، وہ بے حس و حرکت کھڑا تھا، جیسے پتھر کا مجسمہ ہو ۔ اب اہل بغداد پر شیخ صدقہ کی روحانی جلالت کا رعب بیٹھ چکا تھا۔ سرکاری اہل کاروں نے خلیفہ کو جا کر سارا ماجرا سنایا تو خلیفہ وقت خود چل کر شیخ صدقہ کے پاس آیا اور جھک کر معافی کا خواستگار ہوا اور فوری طور پر عزت و احترام کے ساتھ آپ کی رہائی کا حکم دیا ۔ شیخ صدقہ عالم جذب میں دنیا و مافیہا سے بے خبر تھے۔ وہ قید خانے سے نکل کر بغداد کے گلی کوچوں میں آگئے ۔ یہاں پر شیخ صاحب نے حیران کن منظر دیکھا کہ ہزاروں لوگ عقیدت و احترام کے ساتھ ایک مدرسے کی جانب رواں دواں ہیں ۔ شیخ صدقہ بھی اِس قافلے میں شامل ہو کر مدرسے کی طرف چلنے لگے اور زبان پر وہی کلمات جا ری تھے کہ ایسا کو ئی نہیں جو میرے جیسا ہو، اِس وقت کو ئی بھی ایسا نہیں جو میرے ہم پلہ ہو، اِسی حالتِ جذب میں وہ قافلے کے ہمراہ مدرسے میں داخل ہوگئے۔
جیسے ہی وہ اِس مدرسے میں داخل ہو ئے تو اچانک انہیں لگا جیسے اُن کے اندر سے کو ئی چیز نکل گئی ہو اور وہ عالم ہوش میں آگئے۔ مدرسے میں درود و سلام، تسبیح و تہلیل کی آوازیں گو نج رہی تھیں۔ مدرسے کے درو دیوار سے بھی ایسی ہی وجد انگیز آوازیں آرہی تھیں، پھر اچانک حاضرین پر ایک عقیدت بھرا سکو ت طاری ہوگیا۔ تمام حاضرین کی نظریں ایک سمت اٹھی ہو ئی تھیں۔ شیخ صدقہ نے بھی اُدھر دیکھا تو کیا منظر دیکھتے ہیں کہ مدرسے کے حجرے سے ایک دبلے پتلے نو رانی بزرگ بر آمدہو ئے ہیں۔ درمیا نہ قد، گندمی رنگ اور چہرے پر ہزاروں چاند ستاروں کا ملکوتی نور پھیلا ہو ا ہے ۔ اُن بزرگ کے چہرۂ انور کو دیکھتے ہی ہزاروں عقیدت مندوں نے اپنے دامن چاک کر ڈالے۔ آنے والے بزرگ جدھر نظر اٹھاتے، رنگ و نور کی برسات برساتے جا تے۔ لوگ آپ کو دیکھ کر دیوانہ وار تڑپ رہے تھے ۔ یہ منظر شیخ صدقہ کے لئے بہت حیران کن تھا۔ شیخ صدقہ حیرت کے سمندر میں غرق یہ سوچے جارہے تھے کہ آنے والے بزرگ نے ابھی نہ کو ئی کلام کیا اور نہ ہی قاری صاحب کو قرأت کاحکم دیا، پھر لوگوں میں اتنا زیادہ ردِ عمل کیوں ہوا؟ ابھی شیخ صدقہ انہی خیالوں میں گم تھے کہ آنے والے بزرگ نے نظر بھر کر شیخ صدقہ کو دیکھا اور پُر جلال آواز میں کہا: ’’میرا ایک مرید صرف ایک قدم میں بیت المقدس سے یہاں آگیا ہے، اُ س نے میرے ہاتھ پر تو بہ کی ہے۔ آنے والے بزرگ کی آواز کے جلال سے شیخ صدقہ کے حواس گم ہو چکے تھے، انہوں نے دل میں سو چا جو شخص ایک ہی قدم میں بیت المقدس سے بغداد پہنچ جائے، و ہ اس بات سے توبہ کر تا ہے، روحانیت کے اِس مقام پر فائز بندے کو بھلا پیر کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟
اِسی دوران ایک بار پھر آنے والے بزرگ کی با رعب آواز نے فضامیں ارتعاش پیدا کیا اور حاضر ین اور شیخ صدقہ کی سماعتوں میں شگاف ڈالے جو شخص وقت کی لگام کھینچنے پر قادر ہو نے کے باوجود مُجھ سے رجوع نہ کر ے تو وہ اِس امر کا محتاج ہو تا ہے کہ میں اُسے راہ حق دکھاؤں ، پھر آنے والے بزرگ منبر پر کھڑے ہو کر بولنا شروع ہوئے۔ آپ کی با رعب آواز چاروں طرف گونج رہی تھی۔ آپ فرما رہے تھے میری تلوار مشہور ہے، میری کمان چلّے پر اور میرا تیر کمان پر چڑھا ہوا ہے۔ میرا تیرصائب اور میرا نیزہ بے خطا ہے۔ میرا گھوڑا زین کسا ہوا ہے اور میں رب ذولجلال کی روشن آگ ہوں، وہ سمندر ہوں جس کا کو ئی کنارہ نہیں ہے۔ مَیں صبر میں رہ کر بھی کلام کر نے والا ہوں۔ مَیں محفوظ ہو ں اور ملحوظ ہوں، اے پہاڑوں میں رہنے والے لوگو تمہارے پہاڑ ٹوٹ گئے۔ گر جا والو! تمہار ے گر جا گھر گئے۔ تم خدا کی طرف آؤ، میں خدا کے احکامات میں سے ایک ہوں اور سنو میں وہ ہوں جس سے ایک دن اور ایک رات میں ستر دفعہ کہا جا تا ہے کہ ہم نے تجھے اپنے لئے پسند کیا تا کہ تُو ہماری آنکھوں کے سامنے پرورش پا ئے ۔ منبر پر کھڑے بزرگ کی پُر جلال آواز گو نج رہی تھی، اُن کی ہیبت اور جلال کا یہ عالم تھا کہ ہزاروں لوگوں کی موجودگی کے با وجود کسی کے سانس لینے کی آواز تک نہیں آرہی تھی۔ لوگ حیرت و سکوت میں سنگی مجسموں کا روپ دھارے بیٹھے تھے ۔ جیسے اُن کے جسموں سے روحیں پرواز کر گئی ہوں ۔ ہوائیں بھی دم بخود ہو چکی تھیں کہ کہیں بے ادبی نہ ہو جائے۔
پھر اہل بغداد نے ایک اور منظر دیکھا، شیخ صدقہ جو بار بار اپنی بڑائی کا دعوی کر رہے تھے، ایک دم حرکت میں آئے اور دیوانوں کی طرح ہجوم کو چیر تے ہو ئے منبر کی طرف دوڑنے لگے۔ شیخ صدقہ لوگوں کی موجودگی سے بے خبر گر تے اٹھتے دیوانہ وار منبر تک گئے اور بزرگ کے قدموں پر سررکھ کر بے ہوش ہوگئے۔ وعظ دینے والے بزرگ شیخ عبدالقادر جیلا نی ؒ تھے، جن کے حسن و جمال کے سامنے کو ئی دوسرا ولی آج تک نہیں ٹھہر سکا، جو عروج اور شہرت مالکِ ارض وسما نے شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کو عطا کی، وہ کسی اور بزرگ کے حصے میں نہیں آئی۔ ایسی لا زوال شہرت جسے قیا مت تک اندیشہ زوال نہیں ، اہل حق کی پوری جما عت میں جو شہرت اور محبوبیت آپ ؒ کے حصے میں آئی، وہ کسی اور کو نہ مل سکی ۔ آپ ؒ کا وجود اسلام کے لئے نئی زندگی کے مترادف تھا، جس نے اجڑے دلوں کے قبرستان میں نئی زندگی ڈال دی۔ آسمان تصوف پر باقی اولیاء ستاروں کی مانند ہیں تو آپ اکلوتے چاند ہیں۔ اولیاء کی جماعت کو اگر ستاروں کا ہا ر تصور کیا جا ئے تو اِس خوبصورت مالا کا چاند آپ ہیں۔ روحانیت کو اگر ایک چراغ سے تشبیہ دی جا ئے تو اِس چراغ کی لو آپ ؒ ہیں ۔
آپ ؒ کے افکار اور ملفوظات کو قلمبند کر نے کے لئے چار پانچ سو دواتیں مجلس میں لائی جاتیں ۔ آپ کے جملے منہ سے نکل کر ہو ا میں تحلیل نہیں ہو تے تھے، بلکہ تیر بن کر دل میں کھُب جا تے تھے ۔ آپ کے وعظ کے وقت لوگوں پر سحر طاری ہو جا تا، آپ کے وعظ کی تاثیر کا یہ عالم تھا کہ کئی لوگ شدت جذبات سے اپنے گریبان چاک کر لیتے اور کئی جذبات کی شدت سے اپنی جان کھو دیتے۔ آپ کے وعظ کے بعد کئی جنا زے اٹھتے۔ آپ کی پُر جلال آواز کی اثر انگیزی کا یہ عالم تھا کہ لوگ پھڑک کر مر جاتے۔ آپ کی مجلس سے کئی بار جنازے اٹھائے گئے، آپ کبھی کسی حاکم سے ملنے نہیں گئے، البتہ کئی بار خلفا ء اور وزرا ء آپ کے در پر حاضر ہو تے۔ آپ کے ہاتھ چومتے، مگر آپ انہیں جھٹک دیتے ۔ آپ کے دستر خوان پر فقیروں اور غریبوں کا ہجوم ہوتا۔ جو شہرت آپ کو قدرت نے عطا کی بادشاہ وقت اُس کی حسرت ہی کرتے رہ گئے ۔ حق تعالیٰ نے آپ کو دینی اور روحانی خدمات کے لئے پیدا کیا تھاِ س لئے آپ کوتمام خو بیاں دے کر بھیجا تھا۔ تدریس اور خطابت میں آج تک کو ئی آپ کا ثا نی نہ بن سکا۔ یہی وجہ ہے کہ اہل د نیاآج بھی آپ ؒ کو شہنشاہِ بغداد ، شاہ جیلانی محبوب سبحانی ، شیخ الاسلام اور خلقِ خدا آپ کو ’’ غوثِ اعظم ‘‘کہتی ہے اور عوام و خواص آپ کو ’’پیرانِ پیر ‘‘ کہتے ہیں۔ بلا شبہ غوثِ اعظم کی شان سب سے بلند اور نرالی ہے ۔