وہ شہر جہاں رہنے والی 70 فیصد نوجوان لڑکیاں زندہ رہنے کیلئے جسم فروشی پر مجبور ہیں

وہ شہر جہاں رہنے والی 70 فیصد نوجوان لڑکیاں زندہ رہنے کیلئے جسم فروشی پر مجبور ...
وہ شہر جہاں رہنے والی 70 فیصد نوجوان لڑکیاں زندہ رہنے کیلئے جسم فروشی پر مجبور ہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پورٹ موریسبی (نیوز ڈیسک) جسم فروشی کی لعنت یوں تو کسی نا کسی حد تک ہر جگہ پائی جاتی ہے لیکن آپ کو یہ جان کر شدید حیرت ہوگی کہ پاپوا نیوگنی دنیا کا وہ ملک ہے کہ جہاں کم عمر اور نوجوان لڑکیوں میں سے 70 فیصد جسم فروشی کرکے زندگی کے شب و روز گزار رہی ہیں۔
جریدے ڈیلی میل کی ایک رپورٹ کے مطابق اس ملک میں جانے والے غیر ملکی یہ دیکھ کر اپنی آنکھوں پر یقین نہیں کرپاتے کہ 12 یا 13 سال سے لے کر 25 سے 30 سال کی لڑکیاں سڑکوں پر نیم برہنہ ہوکر پھرتی نظر آتی ہیں۔ خصوصاً اس ملک کے دارالحکومت میں جس بڑی سڑک پر دیکھیں درجنوں کی تعداد میں نوجوان اور کم عمر لڑکیاں دعوت گناہ دیتی نظر آتی ہیں۔ جریدے نے سڑک پر موجود ایک 40 سالہ خاتون برتھا سے گفتگو کی جس نے بتایا کہ اس کے آس پاس موجود درجنوں لڑکیاں اس کی بیٹیوں کی طرح ہیں لیکن وہ ان کے لئے آنے والے گاہکوں کے ساتھ معاوضہ طے کرتی ہے اور انہیں ضروری جنسی سامان فراہم کرتی ہے۔

اگرچہ اس ملک میں جسم فروش لڑکیوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں لیکن اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہاں 15 سے 24 سال کی ہر تین لڑکیوں میں سے دو جسم فروشی کرتی ہیں۔ یہ لڑکیاں رقم، کھانے، یا کہیں رات بسر کرنے کے عوض اپنا جسم بیچ دیتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق جسم فروشی کرنے والی لڑکیوں میں سے تقریباً 33 فیصد ایسی ہیں کہ جن کے گھر والوں کو بھی اس معاملے کے متعلق مکمل طور پر علم ہے۔
پاپوا نیوگنی میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق نوعمر جسم فروش لڑکیوں کو اکثر تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہاں ان لڑکیوں کے جسم سے کھیلنے والے مردوں کو بھی کسی قسم کے حکومتی یا معاشرتی خوف کا سامنا نہیں ہے اور ان کی اکثریت مانع حمل ذرائع کا بھی استعمال نہیں کرتی، جس کی وجہ سے لڑکیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایڈز جیسے جان لیوا مرض میں بھی مبتلا ہوچکی ہے۔ مقامی زبان میں ’پامک میری‘ کہلانے والی ان لڑکیوں میں سے 13 فیصد کے متعلق اعداد و شمار موجود ہیں کہ وہ ایڈز میں مبتلا ہوچکی ہیں، جبکہ ایک بڑی تعداد ایسی ہے کہ جن میں ایڈز کی موجودگی کے متعلق کچھ معلوم نہیں کیونکہ ان کا کبھی طبی معائنہ ہی نہیں کیا گیا۔

مزید :

ڈیلی بائیٹس -