سیاسی پنڈتوں کا معلق پارلیمنٹ والا تجزیہ درست ثابت نہیں ہوا

تجزیہ :سہیل چوہدری
کپتان نے ڈنکے کی چوٹ پر بیلٹ پیپر پر مہر لگا کر نہ صرف اسی طرح ووٹ ڈالا جیسے وہ ہزاروں شائقین کی موجودگی میں چوکے چھکے لگایا کرتے تھے لیکن کھیل کی طرح سیاست میں بھی انکے سیاسی کارکن کم اور پرستار زیادہ ہیں اس لیئے وہ شاید اپنے سیاسی پرستاروں کو مایوس نہیں کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے قانون و سیاسی نتائج کی پروا کئے بغیر بیچ چوراہے بلے پر ٹھپہ لگایا۔ تاہم انکے اس طرز عمل پر انکے سرپرست نہ صرف مزید مایوس ہوئے ہوں گے بلکہ ان کے لیئے یہ ایک فوری امتحان بھی ہو گا کہ وہ خان کو کیسے آبیل مجھے مار جیسی مشکل صورتحال سے باہر نکال پائیں گے۔ سر منڈواتے ہی اولے پڑے کے مصداق کپتان کو 30جولائی کو الیکشن کمیشن نے طلب کر لیا ہے۔ دارالحکومت میں پچھلے الیکشن2013کی نسبت اس بار انتخابی مہم کی گہما گہمی نظر آئی نہ ہی پولنگ ڈے پر انتخابی جوش و خروش کے ماضی جیسے مناظر دیکھنے کو ملے، ضیاء الحق مرحوم کے صدارتی ریفرنڈم والا ماحول تھا تاہم دارلحکومت اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں بھی صورتحال2013جیسی تو نہیں لیکن بہتر تھی صبح کے وقت پولنگ میں تیزی نظر آئی لیکن دوپہر میں پولنگ سٹیشنوں پر کوئی خاص رش نہیں تھا تاہم شام کے وقت خاصا رش پڑ گیا ۔ جبکہ اسلام آباد میں تو تبدیلی کے نعرے لگانے والوں نے حسب معمول صبح کا آغاز دوپہر سے کیا۔ اسلام آباد میں کچی بستیوں، مضافاتی علاقوں میں شہری پوش علاقوں کی نسبت ٹرن آؤٹ بہتر نظر آیا ۔ مجموعی طور پر پولنگ ڈے پر سر گرمیاں2013کے تقابل میں انتہائی دھیمی تھیں پولنگ ڈے پر بھی انتخابی مہم کی مانند بددلی اور بے یقینی کے سائے تھے، دلچسپ امر یہ ہے کہ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر خوب دھما چوکڑی رہی جس کی وجہ سے لوگ پولنگ ڈے میں سرگرمیوں کا حصہ بننے کے بجائے گھروں میں متجسس بیٹھ کر نیوز چینلز سے محفوظ ہوتے رہے بالخصوص پوش علاقوں کے باسیوں نے تو پہلی بار ووٹ ڈالنے کی مشق سے گزرنے کے لیئے انوکھے تجربہ کو فیس بک پر انگوٹھے دکھا دکھا کر شیئر کئے رکھا عام تاثر یہی تھا کہ اس بار ٹرن آؤٹ شاید زیادہ نہ ہو سکے ،کیونکہ ’’سیاسی بھل صفائی‘‘ اور’’ گوڈی‘‘ نے مجموعی طور پر انتخابی ماحول کو گہنائے رکھا۔سیاسی بھل صفائی کا یہ عمل شاید مقررہ ضرورت سے زائد ہو گیا تھا اس بنا پر شاید پولنگ ڈے پر دھاندلی کا کوئی بڑا منظم واقعہ دیکھنے میں نہیں آیا پولنگ کا عمل جڑواں شہروں میں مجموعی طور پر پر امن اور بلا روک ٹوک جاری رہا لیکن پولنگ سٹیشنوں پر ایک مخصوص میکانزم کی بدولت پولنگ کا عمل غیر معمولی طور پر سست روی کا شکار نظر آیا ۔ ووٹروں کی تعداد میں کمی کے باوجود انکی دیر سے باری آتی تھی جس پر وہ جز بز ہوتے نظر آئے ۔ راولپنڈی ڈویژن میں پولنگ مجموعی طور پر پر امن رہی ، کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ رپورٹ نہیں ہوا ۔ سیکیورٹی کے سخت انتظامات تھے۔رات گئے پی ٹی آئی کی جانب سے قومی اسمبلی کی 100سے زائد نشستوں پر کامیابی کی اطلاعات کے نتیجے میں بنی گالہ میں عمران خان کی قیادت میں پارٹی رہنماء ایک دوسرے کو مبارک بادیں دے رہے تھے جبکہ اسلام آباد میں بعض مقامات پر آتش بازی کا مظاہرہ کیا گیا جبکہ راولپنڈی میں لال حویلی کے سامنے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے ایک جشن کا سماں تھا تحریک انصاف کے کارکنان ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالتے رہے دوسری طرف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بالترتیب قومی اسمبلی میں دوسری اور تیسری پوزیشن تو حاصل کی لیکن ساتھ ساتھ دونوں جماعتوں کی جانب سے انتخابی نتائج کی تیاری پر سنگین الزامات لگاتے ہوئے شدید تحفظات کااظہارکیا،دارالحکومت میں انہی دونوں جماعتوں کے حلقے انتخابی نتائج کی تدوین کے عمل پرسوالیہ نشانات اٹھارہے تھے کیونکہ بعض نتائج غیرمعمولی طورپر التواء کاشکار تھے ۔جبکہ رات گئے مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں انتخابی نتائج مسترد کرنیکا سنگین نوعیت کے مضمرات پرمبنی قدم اٹھایا،انتخابی نتائج کی روشنی میں یہ بات قرین قیاس ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی آئندہ سیاست میں اس ایشو پر کوئی متفقہ لائحہ عمل بنانے پر اتفاق کرسکتی ہیں کیونکہ پری پول رگنگ کے حوالے سے ن لیگ پہلے ہی اپنا کیس عوام میں پیش کرچکی ہے جس کی توثیق عالمی دنیا اور میڈیا بھی کرچکا ہے اگر جوڑ توڑکی سیاست میں دونوں بڑی جماعتیں اپوزیشن میں بیٹھتی ہیں تو یہ ایک نہایت طاقتور اور موئثر اپوزیشن کاروپ دھارسکتی ہیں جو آئندہ پارلیمانی و ملکی سیاست کو باآسانی کوئی رخ دے سکتی ہیں۔جبکہ ن لیگ کیلئے اہم ترین سیاسی ٹاسک پنجاب میں حکومت کی تشکیل ہوسکتا ہے کیونکہ مسلم لیگ ن اورپی ٹی آئی کے مابین کانٹے دارمقابلے کے نتیجے میں صوبائی سیٹوں کا فرق کسی اپ سیٹ کا باعث بن سکتا ہے۔سیاسی پنڈتوں کا معلق پارلیمنٹ کا تجزیہ تو شاید پوری طرح درست ثابت نہیں ہوا لیکن اگر مسلم لیگ ن پنجاب میں حکومت بنالیتی ہے اورمرکز میں کوئی وسیع البنیاد اپوزیشن قائم کرلیتی ہے تو تحریک انصاف کی متوقع حکومت کیلئے سنگین چیلنجز پیدا ہوسکتے ہیں جو سیاسی استحکام پر مسلسل سوالیہ نشان بنے رہیں گے اب یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہوگی کہ تحریک انصاف کی ممکنہ حکومت کیا ترجیحات مقررکرتی ہے کیونکہ ملک کی اقتصادی حالت دگرگوں ہے خارجہ پالیسی ڈانواں ڈول ہے اور اس تناظرمیں ملک کے اندر ایک انتقامی سیاست کی رو بہہ رہی ہے اگر پاکستان تحریک انصاف نے سیاسی بنیادوں پر شروع ہونے والی کرپشن کے خلاف مہم کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ کارکردگی کی نسبت اپنی بقاء کیلئے انتقامی کاروائیوں پر ہی تکیہ کیا تو داخلی سیاست مسلسل انتشار کا شکار رہے گی ۔
کارکنانبھنگڑے