بریک ویگن یا کبوس مال گاڑی کا چھوٹا مگر انتہائی نامعقول سا ڈبہ ہوتا ہے جو اس کی دْم پر باندھ دیا جاتا ہے، جس میں اپنی قسمت کو کوستا شخص تن تنہا بیٹھتا ہے

بریک ویگن یا کبوس مال گاڑی کا چھوٹا مگر انتہائی نامعقول سا ڈبہ ہوتا ہے جو اس ...
بریک ویگن یا کبوس مال گاڑی کا چھوٹا مگر انتہائی نامعقول سا ڈبہ ہوتا ہے جو اس کی دْم پر باندھ دیا جاتا ہے، جس میں اپنی قسمت کو کوستا شخص تن تنہا بیٹھتا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:79
بریک ویگن۔ کبوس
بریک ویگن یا کبوس مال گاڑی کا ایک چھوٹا مگر انتہائی بیہودہ اور نامعقول سا ڈبہ ہوتا ہے جو اس کی دْم پر باندھ دیا جاتا ہے۔ جس میں انجن سے ہزاروں فٹ دور تن تنہا اپنی قسمت کو کوستا ہوا ایک بے ضرر سا شخص بیٹھتا ہے، جسے مال گاڑی کا گارڈ کہتے ہیں۔ یہ غالباً محکمہ ریلوے کی سب سے زیادہ سخت اور نا پسندیدہ ملازمت سمجھی جاتی ہے، کیونکہ یہ ڈیوٹی ایک ایسی ویگن پر ہوتی ہے جس کو ماں سوتیلا بچہ سمجھ کر دہلیز پر پھینک دیتی ہے۔ اس میں بیٹھا ہوا اکلوتا مسافر دنیا جہان سے کٹ کر اور بغیر کسی سہولت کے سفر کر رہا ہوتا ہے۔ 
پچھلے وقتوں میں، بلکہ اپنے ہاں تو ابھی تک، اس میں نہ تو کوئی پنکھا ہوتا ہے، اور نہ ہی برقی روشنی۔ کھانا، پانی بھی اپنے ساتھ ہی لانا پڑتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فولاد کی بنی ہوئی اس دوڑتی بھاگتی جیل میں گرمیوں کے موسم میں پرلے درجے کی حدت ہوتی ہے اور سردیوں میں پنڈے میں اْتر جانے والی سخت سردی۔ انتہا تو یہ کہ شروع میں تو اس ویگن میں بیت الخلاء تک بھی نہیں ہوتا تھا اور ایسی حالت میں گارڈ کو اسٹیشن کے آنے یا گاڑی کے رکنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اگر خدا نخواستہ کچھ زیادہ ہی ہنگامی صورت حال بن جائے تو مجبوراً اسے حاجت روائی کے لیے کوئی اور ہی صورت نکالنا  پڑتی ہے۔ 
لیکن اس کی بیچارگی سے بھر پور زندگی سے یہ نہ سمجھ لیں کہ مال گاڑی کو چلانے میں اس کی شراکت ضروری نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آگے  دور کہیں ایئر کنڈیشنڈ انجن میں بیٹھا ہوا ڈرائیور بھی اس کی معاونت اور ہدایات کا  محتاج ہوتا ہے اور اس کی اجازت کے بغیر ایک قدم بھی  آگے نہیں بڑھا سکتا۔
ترقی یافتہ ملکوں کے زمانہ جدید میں تو کبوس میں اب ہر قسم کی سہولتیں مہیا کر دی گئی ہیں، جن میں کھانا گرم کرنے یا چائے بنانے کے لیے برقی چولہا، ایک ننھا سا ریفریجریٹر، نہانے کے لیے چھوٹا سا حمام، بیت الخلاء اور بیٹھنے اور کام کرنے کے لیے میز کرسی شامل ہے۔ پڑوسی ملک ہندوستان کے گارڈوں نے بھی لڑ جھگڑ کر اپنے لیے کچھ بنیادی سہولتیں حاصل کر لی ہیں۔تنہائی کا البتہ کوئی علاج نہیں کیا جا سکا۔ اب یہ گارڈ کی طبیعت پر منحصر ہے کہ وہ کھڑکی سے باہر جھانکتا رہے اور اگر چاہے تو ریڈیو سے دِل بہلا لے یا طبیعت مائل ہو تو خود کوئی المیہ سا گیت بلند آواز میں گنگنالے، ویسے بھی وہاں سننے والا کون ہوتا ہے۔ کبھی کبھار وہ ایمانداری سے اپنے فرائض نبھانے کی خاطر وہاں لگی ہوئی پریشر اور رفتار بتانے والی سوئیوں پر بھی اچٹتی سی نظر ڈال لیتا ہے۔ وہ اس حد تک تنہا ہوتا ہے کہ مال گاڑی جب کسی اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر کھڑی بھی ہوتی ہے تو تب بھی اس کی طوالت کی وجہ سے گارڈ کا یہ ڈبہ ہمیشہ اسٹیشن سے باہر ہی ٹھہرتا ہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی اسٹیشن کی رونقیں نہیں دیکھ سکتا۔بنیادی طور پر گارڈ مال گاڑی کی حفاظت کے فرائض انجام دیتا ہے۔ اس ڈبے میں ایمرجنسی بریک لگانے کا ایک لیور یا ہینڈل نصب ہوتا ہے جس سے ہنگامی حالات میں وہ ساری گاڑی کی بریکوں کا پریشر کم یا ختم کرکے گاڑی کو آہستہ بھی کر سکتا ہے۔ پریشر کے گرتے ہی انجن کے کیبن میں گیج کی سوئی بھی نیچے گرنا شروع ہو جاتی ہے جسے دیکھ کر ڈرائیور کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کو اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ گارڈ بوجوہ گاڑی کو روکنا چاہتا ہے اور اس کو بھانپتے ہوئے وہ انجن اور گاڑی دونوں کو بیک وقت مکمل بریک لگا کر گاڑی کو آہستہ آہستہ روک دیتا ہے۔ مال گاڑیاں چونکہ کافی طویل ہوتی ہیں جو پوری رفتار سے چلتی ہیں۔اس لیے ایک دم بریک لگانے سے پچھلے ڈبوں کا جھٹکے سے اگلے ڈبوں سے ٹکرا کر الٹ جانے کا خطرہ رہتا تھا۔ بریک لگنے کے بعد بھی یہ گاڑی رکتے رکتے بھی 2 کلومیٹرکا سفر تو طے کر ہی لیتی ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -