گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 62
لاہور میں سرکاری فضا مسلمانوں اور مسلم لیگ کے خلاف تھی۔ فی الواقع یہ بڑی بدقسمتی تھی کہ سوئے اتفاق سے ایسے حالات پیدا ہوگئے جن سے تقسیم کے وقت پاکستان کو ناسازگار واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔ سرایون جلینکنز کا تقرر انڈین سول سروس میں انتخاب کے بعد پہلی بار مشرقی پنجاب میں ہوا تھا جہاں غیر مسلموں کی اکثریت ہے چنانچہ ان میں غیر مسلموں کے لئے ہمدردی کے جذبات رفتہ رفتہ بڑھتے گئے۔ لارڈویول، وائسرائے مقرر ہوئے تو جلینکنز کو ان کا پرائیویٹ سیکرٹری بنایا گیا چنانچہ انہوں نے اپنے آقا کے جذبات جو ملک کی جغرافیائی اور فوجی تقسیم کے مخالف تھے، اپنے اوپری بھی طاری کرلئے۔ جب انہیں پنجاب کا گورنر مقرر کیا گیا تو ان کے وزیر اعلیٰ سرخضر حیات خاں ٹوانہ بھی پاکستان کے مخالف تھے۔ مجھے کسی نے بتایا کہ سر خضر برطانیہ گئے تھے تو وہاں انہوں نے مسٹر چرچل اور وزیر ہند کے علاوہ اعلیٰ حضرت شاہ برطانیہ سے بھی ملاقات کی اور ان سب سے فرداً فرداً انہیں یقین دلایا کہ ملک تقسیم نہیں ہوگا۔ یہ ان لوگوں کی بدقسمتی تھی کہ لیبر حکومت قائم ہو گئی اور سرخضر حیات اس تبدیلی کا احساس نہ کرسکے اس وقت بہار میں زبردست فرقہ وارانہ فساد پھیل گیا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے دہلی سے، جہاں وہ تقسیم تک قیام پذیر رہے، مجھے فون کیا اور کہا کہ آپ کو بہار جانا چاہیے جہاں فساد نے سنگین صورت اختیار کرلی ہے۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 61 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مجھے یاد ہے کہ طیارہ میں پٹنہ جانے کے لئے مجھے فضائی کمپنی کو کچھ زائد رقم دینی پڑی تھی کیونکہ یہ شہر ان کے طیاروں کے راستے میں نہیں تھا۔ اس موقع پر مَیں یہ بھی کہتا چلوں تو مناسب ہوگا کہ آج تک کسی طرح کا سیاسی سفر یا سیاسی کام مَیں نے پارٹی کے خرچ پر نہیں کیا۔ جب مَیں پٹنہ پہنچا تو حالات ازحد خراب نظر آئے۔ مَیں اس دورہ میں تن تنہا تھا اور جن لوگوں کو مجھے لینے کے لئے ہوائی اڈہ پہنچنا تھا، وہ بہت تاخیر سے آئے، ہوائی اڈے کے قریب گاؤں کے کچھ نوجوان مویشی چرارہے تھے، انہوں نے ایک اجنبی کو حیرت اور تجسس سے دیکھا اور فوراً گھیر لیا۔ ایک جگہ سائے میں کچھ ہندو سپاہی کھڑے تھے لیکن میری خوش قسمتی سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ تم کون ہو اور تمہارا مذہب کیا ہے؟ لندن کے ’’ڈیلی میل‘‘ میں بہار کے فسادات کے متعلق میری ڈائری شائع ہوئی تھی اور مسٹر رالف ایزرڈنے اسے اشاعت کے لئے بھیجا تھا جو ان دنوں ڈیلی میل کے نمائندہ خصوصی تھے۔ مقصد دنیا کو یہ بتانا تھا کہ فرقہ وارانہ جنون جب انتہا کو پہنچے تو یہ کچھ ہوتا ہے۔ ہم نے بہت سے بے خانماں اور لٹے پٹے مسلمانوں کو ریل گاڑیوں میں بٹھا کر پنجاب روانہ کیا۔ لاہورمیں ہمارے سماجی کارکنوں کے لئے مہاجر کیمپ چلانے اور حالیات کے مسائل کو سمجھنے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔
فروری 1947ء میں لاہور مسلم لیگ کے دفتر میں ’’آہنی ٹوپیوں کی جنگ ‘‘ کا واقعہ رونما ہوا۔ اس دن میرے نام مسلم لیگ کے دفتر سے فوری طلبی کے پیغامات بار بار آرہے تھے۔ پہلے تو مَیں نے اس طرف کوئی توجہ نہیں کی اور ہوٹل کے لان میں سرما کی دھوپ سے لطف اندوز ہوتا رہا لیکن بالآخر ایک شخص اس پیغام کے ساتھ وارد ہوا کہ آپ کو فوراً دفتر پہنچنا چاہیے کیونکہ پولیس بہت زیادتی کررہی ہے۔ یہ سن کر میں اُن کی امداد سے انکار نہ کرسکا۔
مَیں نے وہاں پہنچ کر دیکھا کہ میاں افتخار الدین اور بیگم شاہنواز (جو میاں افتخار الدین کے دلائل کی قائم معلوم ہورہی تھیں ) دونوں معزز مسلم لیگی ارکان ایک کمرے کے دروازے پر پیٹھ جمائے کھڑے ہیں اور پولیس کو اندر داخل ہونے سے روک رہے ہیں۔ کمرے کے اندر لوہے کی ٹوپیاں پڑی تھیں جسے پارٹی نے پرانے کپڑوں کے ایک بیوپاری کی دکان سے خریدا تھا۔ جنگ کے بعد شہری دفاع کے محکمہ نے ان ٹوپیوں کو بے مصرف قرار دے کر ردی کردیا تھا۔ مسلم لیگ نے یہ ٹوپیاں اپنے رضا کاروں کے لئے خریدی تھیں جو لیگ کے جلسوں میں نظم و ضبط قائم رکھتے تھے۔ یہ آہنی ٹوپیاں اس ہنگامہ پرور دور میں یقیناًبہت مفید ثابت ہوئیں۔ غنڈے مسلم لیگ کے لیڈروں اور مقرروں کو دھمکی دیتے رہتے تھے چنانچہ پولیس یا مخالفوں کی لاٹھی سے کسی کا سرپھٹ جانا کوئی بات ہی نہیں تھی۔(جاری ہے )