سیاسی استحکام اور جمہوری تسلسل کی اہمیت کو سمجھیں
پاکستانی دنیا کی شاید واحد قوم ہے جو ہمہ وقت اپنے وطن کی ترقی چاہتی ہے اور اپنے وطن کی برائیوں کا رونا بھی روتی ہے. ہر بندہ اپنے ہی ملک اور ملکی اداروں پر تنقید کرتا نظر آتا ہے. مگر اپنا مثبت کردار ادا کرنے سے قاصر ہے. ہمارے سیاسی، مذہبی اور علاقائی نام نہاد راہنماوں نے قوم کو اتنے زیادہ حصوں میں اس شدت سے تقسیم کر رکھا ہے. کہ وہ اپنے گروہ کے علاوہ سب کو دشمن گردانتے ہیں. پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لیکر کوئی بھی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا اور حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ تسلسل سے ہوتی رہی ہے. دوسری طرف آمروں کی حکومتوں کی کوئی حد مقرر نہ تھی. جب تک وہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر زیرو نہیں ہوئے اس وقت تک سیاہ و سفید کے مالک بن کر حکومت کرتے رہے. آمروں کا مگر مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی مستقل ملکی پالیسی بنانے کی بجائے اپنی حکومت بچانے کی فکر میں رہتے ہیں اور مخالف سیاستدانوں کے خلاف جھوٹے سچے مقدمات دائر کروانے اور انہیں زیر عتاب رکھنے کے طریقوں کی تلاش میں رہتے ہیں. جبکہ کسی بھی ملک کی ترقی کا راز جمہوریت اور ملکی پالیسیوں کے تسلسل میں پنہاں ہوتا ہے. اگر ہم پچھلی 5 دہائیوں کا جائزہ لیں تو اس عرصے میں ترقی کرنے والے تمام ممالک میں حکومتوں کا تسلسل رہا ہے.
راقم کو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے ایک ملاقات میں کہا تھا کہ اگر مجھے پاکستان میں بیس سال تک بااختیار حکومت کرنے کا موقع مل جائے تو میں پاکستان کو یورپ کے برابر لا سکتی ہوں. یہ تو شاید ممکن نہ ہوتا، لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی بھی باصلاحیت لیڈر کو اپنی پالیسیوں کے تسلسل کا موقع ملے تو وہ ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتا ہے. ترکیہ کے موجودہ صدر طیب اردگان پچھلے 23 برس سے منتخب ہو رہے ہیں. اتنا ہی عرصہ روس کے صدر پیوٹن کا ہے. چین کے موجودہ صدر اب تیسری مدت کے لیے منتخب ہوئے ہیں. بھارت کے وزیراعظم مودی بھی دوسری مدت کی حکومت کر رہے ہیں. اندرا گاندھی کو بھی ایک لمبا عرصہ حکومت کرنے کا موقع ملا، اگر وہ قتل نہ ہوتی تو مزید حکومت کر سکتی تھی. پچھلی آدھی یا پون صدی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو کوریا، سنگاپور، چین، ملائیشیا، برازیل، اسرائیل اور دوسرے کئی ترقی کرتے ممالک کے اندر حکومتوں کا تسلسل رہا ہے. ان ممالک کے لیڈروں کو اپنے منشور اور اپنی ملکی پالیسیوں پر عملدرآمد کے لیے معقول عرصہ ملا ہے. یہی وجہ ہے کہ وہ ممالک ترقی کر گئے ہیں. جبکہ وطن عزیز کے اندر جمہوریت کو پنپنے دیا گیا نہ کسی سول حکومت کو آرام سے مدت پوری کرنے دی گئی چہ جائیکہ کسی حکومت کو دوسری اور تیسری مدت کے لیے منتخب کیا جاتا، ہماری مقتدرہ کلاس کو ملک توڑنے کے بعد بھی یہ عقل نہیں آ سکی کہ عوامی مقبول لیڈروں کے آگے طاقت، جھوٹے مقدمات اور تشدد سے بند نہیں باندھا جا سکتا بلکہ ایک عوامی لیڈر کو بیلٹ پیپر سے ہی منتخب کیا جاتا ہے اور اسی راستے سے ہی نکالا جا سکتا ہے.
ہمارے ملک میں غداری، وفاداری اور پارسائی کے سرٹیفکیٹ تقسیم کیے جاتے ہیں اور انہی کے گرد عوام کا بیانیہ ترتیب دیا جاتا ہے. پچھلے 10 برس میں تو حد ہو گئی ہے. نواز شریف وزیر اعظم بنا تو اس کی حکومت کو عدم استحکام کا شکار کر دیا گیا. اور آخر کار پاناما کا کیس بنا کر پھنسایا اور اقامہ کے نام پر بھگایا، عمران خان کی حکومت کے ایک سال بعد کورونا کی وبا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس سے پوری دنیا میں مہنگائی کی لہر اٹھی لیکن عمران خان کی حکومت نے محدود وسائل کے باوجود پاکستان میں کورونا اور مہنگائی دونوں کو کسی حد تک قابو میں رکھا، لیکن عوام میں شدید بے چینی تھی کہ عمران خان اپنے سیاسی وعدوں پر عمل کرنے میں ناکام رہا ہے. اور ملک میں مہنگائی ہے. دوسری طرف حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے طوفان اٹھائے رکھا. اوپر سے خان صاحب نے ایک صفحہ سے ہٹ کر سبق پڑھنے کی کوشش کی اور ایک ایسے وقت میں روس کا جا دورہ کیا جب مغربی دنیا روس کا بائیکاٹ کر رہی تھی اور روس نے یوکرائن پر حملہ کر دیا. اس کے علاوہ عمران خان کے اپنی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے سے تعلقات بھی سرد مہری کا شکار تھے. جب امریکہ اور اپنی اسٹیبلشمنٹ دونوں ہی خوش نہ ہوں تو پھر پاکستان کا وزیراعظم رہنا ممکن نہیں رہتا ہے. لہذا خان صاحب کا جانا ٹھہر گیا لیکن اس سے پاکستان مزید سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو گیا ہے اور اس وقت عوام کی اکثریت عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے. اگر ہمارے سیاستدان اور ادارے پاکستان کی بہتری کے خواہاں ہیں تو انہیں ہر حال میں سیاسی استحکام پیدا کرنا ہوگا. یہ اسی طرح ممکن ہے کہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم میں کسی ضابطہ اخلاق کے تحت معاہدہ ہو اور جلد انتخابات کروا کر معیشت پر توجہ مرکوز کی جائے. اور عوام کو چاہیے کہ جسے پانچ سال کے لیے منتخب کرتے ہو اس کو صبر کے ساتھ پانچ سال کام کرنے کا موقع دیا کریں اور کسی پروپیگنڈا کا شکار ہونے کی بجائے زمینی حقائق پر غور کیا کریں. جب تک کوئی حکومت نئے نظام اور اداروں کی درست پالیسیاں بنانے کا کام نہیں کرے گی ملک میں بہتری نہیں آ سکے گی. اسٹیبلشمنٹ کو بھی اب سوچنا چاہیے کہ وہ اپنی اجارہ داری اور اپنی انا کے لیے ملک کو کمزور نہ کیا کریں اور سیاست میں مداخلت سے باز رہیں. ویسے تو لوگ پہلے بھی جانتے تھے مگر عمران خان کے حالیہ بیانات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ہماری عدلیہ اور کئی دوسرے اداروں پر اسٹیبلشمنٹ کا گہرا اثر ہے. الیکشن کمیشن اور نیب جیسے اداروں کو مکمل آزار ہونا چاہیے. وزیراعظم ہی ملک کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے. لہذا تمام اداروں کو وزیراعظم کے ویڑن کے مطابق کام کرنے اور اپنی آئینی اختیارات کا استعمال غیر جانبداری سے کرنا چاہیے. یاد رکھیں یہ ملک ہم سب کا ہے. اس ملک کی بقا کے ساتھ ہماری بقا ہے۔