سچ کیا ہے،جاننا عوام کا حق ہے!
موسم کی طرح سیاست بھی رنگ بدلتی رہتی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے باعث موسم خراب ہوئے تو مفاداتی آلودگی کے سبب سیاست بھی آلودہ بلکہ آلودہ ترہو گئی۔ ہر بات سے معنی نکالے جاتے ہیں کہ حالات بھی ایسے ہیں جب ہم رپورٹنگ کرتے اور یہ موبائل جیسی سہولتیں بھی نہیں تھیں تو بھاگم دوڑ لگی رہتی تھی، تب سیاسی رہنما رکھ رکھاؤ کے قائل تھے، ان کے اجلاس ہوتے تو ہمارا تجسس بھی ہوتا اور اندر کی کہانی تلاش کرنا ضروری ہو جاتا چنانچہ سب شرکاء سے پوچھنے کی کوشش کرتے، یہ راہنما بات بتانا چاہتے توبتا دیتے اگر ایسا نہ کرنا ہی لازم ہوتا تو ٹرخا دیتے، جھوٹ نہیں بولتے تھے اور آج کا دور تو یہ ہے کہ ایک ہی نوعیت کے معاملہ پر ایک ہی جماعت کے حضرات کے موقف مختلف ہوتے ہیں اور یہ حضرات سچ بات بتانے کی بجائے تقریر کرنا مناسب سمجھتے ہیں، رپورٹنگ میں رپورٹر حضرات کے درمیان جہاں دوستی اور تعاون ہوتا وہاں ہر ایک یہ کوشش بھی کرتا کہ اس کو کوئی الگ خبر مل جائے جو اسی کے پاس رہے۔
پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کا دور تھا اور نوستاروں کے اجلاس ہوتے تھے، میں،انور قدوائی، اشرف ممتاز، کرمانی اور دوسرے لوگ دن ہو یا رات خبر کی کھوج میں رہتے، ہم سب کے درمیان اچھے تعلقات تھے اور ایک دوسرے سے تعاون بھی تھا، لیکن انور قدوائی، سجاد کرمانی اور سید فاروق شاہ (مرحومین) بھی اسی دوڑ میں شامل ہوتے تھے تاہم ان حضرات کی کوشش ہوتی کہ زیادہ معلومات مل جائیں اور یہ اپنے تعلقات آزماتے۔ میں اکیلا تو تھا لیکن ایک گر میرے پاس آ گیا، عرض کر چکا کہ موبائل کا دور نہیں تھا اس لئے پی ٹی سی ایل ہی کا سہارا ہوتا، میٹنگ میں شریک دو معزز حضرات باہر نکلتے تو ان کو فون کی ضرورت ہوتی وہ جلدی میں ہوتے تھے، میں ان میں سے کسی ایک (جو پہلے مل جاتا) کو روک لیتا اور خبر پوچھتا وہ جلدی کی کوشش کرتے، میں راہ میں کھڑا ہو جاتا، چنانچہ ان کو مجبوراً بعض نکات بتانا پڑتے پھر میں اندر آکر حضرت مولانا شاہ احمد نورانی کے پاس بیٹھ جاتا اور ان سے خبر کی بات کرنا، پہلے تو وہ کہتے کوئی بات نہیں، بریفنگ ہوگی لیکن جب میں ان کو وہ چند نکات بتاتا جو مجھے ملے ہوتے تو وہ حیران ہوتے کہ کیسے پتہ چلا اور پھر وضاحت کرتے ہوئے خبر بتا دیتے، یوں میری خبر بھی اچھی بن جاتی (دونوں حضرات کے نام نہ لکھنے کی معذرت کہ وہ بھی اللہ کے حضور حاضر ہو چکے ہوئے ہیں)
اس بات کو آگے بڑھانے سے قبل ایک یاددہانی کرانا چاہتا ہوں کہ پی این اے کی زیادہ میٹنگیں چودھری ظہورالٰہی مرحوم کی رہائش پر ہوتی تھیں، دن کی میٹنگ میں لنچ اور شام والی میں ڈنر سے تواضع ہوتی، جب نماز یا کھانے کے لئے وقفہ ہوتا تو ہم سب لیڈران کرام کی طرف لپکتے، اس اثناء میں چودھری ظہور الٰہی مداخلت کرتے اور ٹھیٹھ لہجے میں کہتے ”او، منڈیوچھڈو خبراں ہندیاں رین گئیاں، پہلے تُسی کھانا کھالو“ اور یوں زبردستی بھرپور میز پر لے جاتے جو لذیذ کھانوں سے بھری ہوتی تھی، اس سب یاددہانی کا تعلق آج کے دور سے بھی ہے کہ آج حالات قطعی مختلف ہیں۔ لیڈران کرام کے بیانات ایک دوسرے سے نہیں ملتے، صاف پتہ چل رہا ہوتا ہے کہ کچھ چھپا رہے یا پھر غلط کہہ رہے۔ یہ بات صرف حزب اقتدار یا حزب اختلاف والوں پر ہی نہیں، بعض معزز اور معتبر راہنما بھی پہلا کہا بھول جاتے ہیں، جیسے گزشتہ شب ایک پروگرام میں معتبر راہنما اختر مینگل بھول گئے کہ انہوں نے سینیٹ میں آئینی ترمیم پیش ہونے کے وقت لابی میں سے نکالے جانے کے حوالے سے بات کی تو یہ نہیں کہا تھا کہ دھکے دے کر نکالا گیا بلکہ یہ کہا تھا کہ خاتون گارڈز نے لابی سے نکال دیا، ان کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ ووٹنگ شروع کرنے سے قبل خود چیئرمین سینیٹ نے ہدائت کی تھی کہ سب لابیاں خالی کراکے دروازے بند کر دیئے جائیں اس ہدائت میں کوئی استثنیٰ نہیں تھا، سب لابیاں خالی کرالی گئی تھیں۔
اسی طرح اگر حالات حاضرہ میں مزید دیکھیں تو خود وزراء کے بیانات میں تضاد آ جاتا ہے، رانا ثناء اللہ اور خواجہ آصف تو کمال کے حضرات ہیں، اسی طرح وزیر قانون نذیر تارڑ اور وزیراطلاعات عطاء تارڑ بھی کئی معاملات میں مختلف تاثر دیتے ہیں جبکہ ہمارے بلاول بھٹو شاید اردو پر مکمل عبور حاصل نہیں کر پائے اور ان کو کئی بار اپنے کہے کی بعد میں وضاحت کرنا پڑتی ہے۔ اسی طرح پیارے مولانا فضل الرحمن کی تو حکمت عملی شاید یہ ہے کہ ان کے ذرائع سے جو خوش کن خبر آئے، وہ اپنی تقریر میں اس کی تردید نما وضاحت کر دیتے ہیں۔
جہاں تک ہمارے محترم کپتان کا معاملہ ہے تو انہوں نے اس (جھوٹ یا غلط بیانی) کو ”یوٹرن“ کا نام دے رکھا ہے اوران کے نزدیک یوٹرن بڑے لیڈروں کی صفت ہے، ان کے پیروکار مرشد کی روایت پر اتنا عمل کرتے ہیں کہ ایک ہی واقعہ کے حوالے سے بیرسٹر حضرات ایک دوسرے سے بالکل الٹ بات کر دیتے ہیں حالانکہ جواب تو علی امین گنڈ اپور کا نہیں، جن کا کام دھمکیاں دے کر عمل نہ کرنا اور پھر جواز گھڑ کر نیا الٹی میٹم دینا ہے بہرحال محترم کپتان کے پیارے ہیں۔
اب تازہ ترین حالات یہ ہیں کہ پہلے بشریٰ بی بی کی ضمانت ہوئی اور وہ رہا ہوگئیں، جیل سے بنی گالا گئیں وہاں لاہور جانے کا اعلان کیا، پھر ارادہ بدل کر پشاور پہنچ گئیں، جہاں وزیراعلیٰ کی مہمان کے طور پر وزیراعلیٰ ہاؤس کی انیکسی میں مقیم ہوگئی ہیں، لیڈر آف اپوزیشن ان کے ہمراہ گئے اور علی امین نے عشائیہ پر تحریکی رہنماؤں سے ملاقات بھی کرائی، قارئین! اسی حوالے سے طلال چودھری نے الزام لگا دیا ہے کہ خیبرپختونخوا ملزموں کی پناہ گاہ کا بن گیا ہے، یہ بات اس حد تک درست ہے کہ بڑے بڑے رہنماؤں نے پشاور میں منہ دکھایا اور پھر راہداری ضمانت لے کر اسلام آباد یا لاہور داخل ہوئے، اکثر پھر غائب ہو کر پشاور ہی پہنچے ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے کہ پرانا دور لوٹ آیا جب سندھ، پنجاب سے ملزم قبائلی علاقہ والوں کے مہمان بنتے اور کئی کئی سال وہاں گزار دیتے تھے اب صوبائی حکومت دیوار بن گئی ہے اور یوں محسوس کرایا جا رہا ہے کہ وفاق بے بس ہے اور ایسا تو عدالت نے وکیل پنجوتھا کے حوالے سے آئی جی اسلام آباد کو کہہ دیا ہے۔
بہرحال بات یہاں ختم کرتے ہیں کہ بشریٰ بی بی کے بعد ہی عمران خان کی دونوں ہمشیرگان بھی ضمانت پر رہا ہو گئی ہیں، ماضی میں ان کے اور بشریٰ بی بی کے درمیان تلخی اور خفگی کی خبریں بھی آتی رہی ہیں اور اب حالات یہ ہے کہ بہنوں کا دل بھائی کے لئے دھڑکتا ہے اور بیگم میاں کی خیریت چاہتی ہیں، ہر دو اپنے اپنے حوالے سے بات اور عمل کرتی ہیں جبکہ خود بیرسٹر حضرات بھی ایک دوسرے سے زیادہ بہتر نہیں،اختلاف تو سامنے آتے رہے ہیں، اب کشمکش اعتدال پسندوں اور انتہا پسندوں کے درمیان ہے،ان میں سے ایک طبقے کے ساتھ امریکہ میں مقیم ملزم شہزاد گل صاحب کے گہرے مراسم ہیں، جو یہاں سے ضمانت حاصل کرکے امریکہ بھاگ کر پھر واپس نہیں آئے۔ قارئین! آگے کیا ہوگا، آپ خود بھی تو اندازہ لگالیں، مجھے گناہ گار نہ کریں۔