تبدیلی کے آثار
شروع میں جب لینڈ ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا عمل شروع کیا گیا تو سب کو نظر آ رہا تھا کہ بیش بہا چیلنجز ہوں گے۔ اسی مقصد کے لئے ایک تجربہ کار پروفیشنل ضرورت تھا جو آئی ٹی کے معاملات کا تجربہ رکھتا ہوتا اور دفتر کو سنبھالنا جانتا ہوتا۔سرکار کو ضرورت تھی کہ ایسا ایک افسر ہو جو کمپیوٹرائزیشن کے سارے پراسیس کو دیکھے اور سٹاف سے کام کروائے جن میں پرانے ریکارڈ کی سکیننگ کرنے والی کمپنی سے لیکر ڈیٹا انٹری کرنے والے آپریٹر تک شامل ہوں اور جس کو مزید کچھ سرکاری عملہ دے کر موضع پر فرد اور انتقال کا کمپیوٹرائزڈ عمل شروع کرائے لہذا*سروس سنٹر انچارج کو بھرتی کیا گیا*۔ سالوں بعد گھروں میں نوکری کا خواب دیکھنے والے 150 پروفیشنل بھرتی کئے گئے جو مختلف اداروں میں لی جانے والی اپنی لاکھوں روپیوں کی تنخواہیں چھوڑ کر لینڈ ریکارڈز یونٹ کا حصہ بن گئے۔شروع میں دفتر قانونگو سے انتقالات کو نکلوانا، انکو ریکارڈ کا حصہ بنانا اور پھر پٹواریوں اور آفیشلز کی مدد سے فرد بدریں بنو اکر ریکارڈ کو درست کرنا، یہ وہ کام تھا جو شروع کرنے کا سوچا گیا تو جواب ملا تھا کہ نا ممکن ہے، لیکن ہر انچارج نے 2, 2 تحصیلوں کو یک مشت سنبھالتے ہوئے یہ ممکن بنا دیا اور پھر وہ دن آ گیا کہ بورڈ آف ریوینیو نے مواضعات کی کمپیوٹرائزڈ سروس کے نوٹیفیکیشن جاری کرنے شروع کر دیئے۔
عوام کو اراضی ریکارڈ سنٹرز پر فردوں کی فراہم شروع ہو گئی۔ تحصیلداروں کی مدد سے سروس سنٹر انچارج نے انتقال بھی پاس کرانا شروع کر دئیے۔اسکے بعد سرکار کو خیال آیا کہ سروس سنٹر انچارج کو بھرتی کرنے کا تجربہ اتنا کامیاب رہا ہے تو کیوں نہ انہی جیسا "ینگ بلڈ" لایا جائے جو تحصیلداروں سے بھی نجات دلا دے۔ اس لئے اراضی ریکارڈ سنٹرز پر انتقالات کو پاس کرنے کے لئے اے ڈی ایل آر کو بھرتی کیا گیا۔ ان نئے ای ڈی ایل آرز کو ٹریننگ کے لئے 3 ماہ پھر انہی پٹواریوں اور تحصیلداروں کے حوالے کر دیا جنہوں نے ریونیو ریکارڈان اے ڈی ایل آر زکے سپرد کردیا۔ اور ان اے ڈی ایل آرز کو اراضی ریکارڈ سنٹرز پر بٹھا دیا گیا کہ اب عوام آپکے حوالے ہے۔انکو بتایا یہ گیا کہ آپ نے انتقال اسی دن پاس کرنا ہے، لیکن مڑ کے کبھی یہ نہیں پوچھا گیا کہ آپکو تو اسی دن انتقالات کے بیانات کے لئے بھرتی کیا گیا تھا لیکن آپ عوام کو ہفتوں کے بعد انتقال پاس کر کے دے رہے ہیں، کیوں!پوچھتا بھی کون۔
کیونکہ لینڈ ریکارڈ والے پوچھتے تو انکو جواب ملتا کہ ہم تو بورڈ آف ریونیو کے بھرتی شدہ ہیں۔بورڈ آف ریونیو پوچھتا تو جواب ملتا کہ ہم تو پرانے سسٹم کے نیچے نہیں آتے۔اسسٹنٹ کمشنرز نے آواز اٹھائی تو انکو یہ کہہ کر چپ کرا دیا گیا کہ آپ بھی ہمارے والے سکیل میں ہیں، ہم سے اوپر نہیں ہیں، لہذا آپ ہمیں نہیں پوچھ سکتے۔لینڈ ریکارڈز یونٹ ہیڈ آفس کو حقیقت کا ادراک ہونے لگا۔انتظامی معاملات کی ذمہ داری انچارچ کے پاس رہی جس نے پٹواریوں اور نئے سیکھے ہوئے افسروں کے درمیان کرپشن فری سروس کا جھنڈا اٹھائے رکھا، مزید یہ کہ انچارج کو اکاؤنٹس، فنانس اور ایچ آر دے دیا گیا جو وہ ریونیو، ریکارڈ درستگی اور آئی ٹی کے معاملات کے ساتھ ساتھ آج تک انتہائی پروفیشنل طریقے سے نبھاتا آرہا ہے۔لیکن چونکہ انچارج کو بروقت انتقالات پاس کروانے کی ذمہ داری اور انتقالات پاس کے معاملات میں supervision نہ دی گئی اور اس اہم معاملے کو بے لگام چھوڑ دیا گیا تو اس سسٹم میں انتقالات پاس کرنے کی سائیڈ پہ کرپشن کو نہ روکا جا سکا۔ ضروری تھا کہ دفتر اراضی
ریکارڈ سنٹر میں تمام معاملات ایک افسر کے سپرد کر دئیے جاتے اور جس کو 100فیصد ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا۔تاہم، کمزور منصوبہ بندی کی وجہ سے، ایل آر ایم۔آئی ایس میں آج تک ایسا نہیں کیا جا سکا۔ اور انتقالات کو پاس کرنے پر کوئی چیک نہیں رکھا جا سکا۔جس کی وجہ سے عوام ج بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ "تحصیلدار ہمارے ساتھ ایسا نہیں کرتا تھا"۔درمیان میں وزیر اعلیٰ کی بلا سود سکیم کے انتقالات کو پاس کرنے کے لئے سروس سنٹر انچارج کو ایک دفعہ پھر اسسٹنٹ کلکٹر درجہ دوئم کی اضافی ذمہ داری دے دی گئی جس نے روزانہ کی بنیاد پر ہزارہا انتقال پاس کرنے شروع کر دئیے۔ لیکن پھر سافٹ وئیر تبدیلی کا بہانہ بنا کر انچارج کے اس کردار کو ختم کر دیا گیا۔معاملہ اب بھی ایسا ہے کہ پنجاب بھر میں سینکڑوں انتقالات اور رجسٹریاں پڑی ہوئی ہیں جن کو پاس نہیں کیا جا رہا۔ کمپیوٹرائزیشن کی روح یہی تھی کہ عوام کو جس طرح فرد اسی روز مل جاتی ہے، انتقال بھی اسی روز پاس ہو گا لیکن افسوس اے ڈی ایل آرز کو بھرتی کرنے کے 5 سال بعد بھی ایسا ممکن نہ ہو سکا ہے اور اسکی وجہ یہی کہ کہ اس معاملے پر چیک رکھنے والا کوئی نہیں ہے۔
ہیڈ آفس میں بیٹھے حکام کی خاموشی بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے کہ یا تو سرکار کو اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے یا سرکار کی جانب سے احکامات کچھ ایسے ہیں کہ عوام کو مکمل ریلیف نہیں دینا۔شاید اکیسویں صدی میں عوام کو اپنے حق کے لئے خود آواز اٹھانا ہو گی۔ستم بالا ستم یہ ہے کہ جو انتقالات التوا میں رکھے گئے ہیں ا س حوالے سے انتہائی دلیری اور ڈھٹائی سے گمراہ کن رپورٹس بھی بنائیج ا رہی ہے جس پر نوٹس لینا تو درکنار روک تھام بھی نہیں کی جا سکی۔پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کے اس نظام میں بے پناہ خامیاں موجود ہیں جو کہ بروقت دور کرنا موجودہ انتظامیہ کی ذمہ داروں میں بھی شامل ہے اور درحقیقت بنیادی کام بھی یہی ہے جو کہ تاحال دور ہوتے دیکھائی نہیں دے رہی ہے، اللہ تعالیٰ پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کے انتظامی افسران کو صحیح سمت میں درست فیصلے لینے کی ہمت عطا کرے۔ آمین