لکیر کے فقیر
دوسری جنگ عظیم کے شروع ہونے سے پہلے جرمنی کے بادشاہ نے اپنے وزیرخارجہ کو روس کے بادشاہ کے پاس بھیجا جسے زارِ روس کہا جاتا تھا کہ ان سے پوچھ کر آؤ وہ جنگ میں ہماری مدد کس طرح کر سکتے ہیں اور دفاعی تعاون کے حوالے سے وہ ہم سے کیا چاہیں گے۔ جرمنی کے وزیرخارجہ کو سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا گیا رات کو اس نے کمرے میں جا کر کھڑکی کھولی تو اسے ایک سپاہی صحن میں کھڑا نظر آیا۔ اس نے صحن میں تنہا کھڑے اس سپاہی کو دیکھاتو سوچنے لگا اس سپاہی کو تو مین گیٹ یا میرے کمرے کے باہر ڈیوٹی پر ہونا چاہیے تھا۔ یہ صحن کے وسط میں کھڑا کیا کررہا ہے وہ خود ہی سوچتا رہا اور ساری رات اسے نیند نہ آئی۔ دوسرے دن صبح اس کی روس کے بادشاہ سے ملاقات شیڈول تھی، زارِ روس نے سوال کیا کہ جنگ شروع ہونے کی صورت میں آپ ہماری کیا مدد کر سکتے ہیں کون کون سے ہتھیار ہمیں فراہم کریں گے اور ہم سے کس قسم کا تعاون چاہیں گے۔ جرمنی کا وزیر خارجہ ساری رات جاگنے کی وجہ سے جواب نہ دے پا رہا تھا۔ بادشاہ سوال کچھ کرتا اس کا جواب کچھ ہوتا تو زارِ روس نے کہا کہ آپ انتہائی اہم موضوع پر مذاکرات کے لئے آئے ہیں ایسا لگتا ہے کہ آپ مذاکرات پر سنجیدہ نہیں ہیں اس پر جرمن وزیرخارجہ نے کہاعالی جناب یہ بات درست ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ میں ساری رات گیسٹ ہاؤس میں سو نہیں سکا، اس پر زارِ روس نے پوچھا کہ آپ سوئے کیوں نہیں ہیں کیا وہاں آپ کو سہولتیں میسر نہیں تھیں، اس نے جواب دیا نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں میں اصل میں گیسٹ ہاؤس کے صحن میں جس ایک سپاہی کی ڈیوٹی لگی ہوئی ہے اس کا مقصد میری سمجھ میں نہیں آ رہا، زارِ روس نے کہا کہ یہ تو کوئی پریشانی کی بات نہیں میں ابھی بتائے دیتا ہوں۔ اس نے اپنے وزیر دفاع کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ گیسٹ ہاؤس کے صحن میں ایک سپاہی کی ڈیوٹی کیوں لگی ہے، اس نے کہا کہ: میں ابھی کمانڈر انچیف سے پوچھ کر بتاتا ہوں۔ کمانڈر انچیف کو بلا کر پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ اس کی ڈیوٹی میں نے نہیں لگائی مجھ سے پہلے جو کمانڈر انچیف تھا اس نے لگائی تھی وہ ریٹائر ہو چکا تھا اس کو بلا کر پوچھا گیا کہ اس کی ڈیوٹی آپ نے لگائی ہے اس کا جواب بھی یہی تھا کہ مجھ سے پہلے جو کمانڈر انچیف تھا اس نے لگائی تھی اور وہ فوت ہو چکا ہے، بادشاہ نے حکم دیا کہ ریکارڈ کو چیک کیا جائے، ریکارڈ چیک کیا گیا تو اس کی فائل نہ مل سکی اس نے متعلقہ افراد سے بھی پوچھا مگر کوئی جواب نہ دے سکا۔ زارِ روس نے حکم دیا کہ یہ اعلان کیا جائے کہ جو بھی تین دن کے اندر آکر بتائے گا کہ اس سپاہی کی ڈیوٹی یہاں کس نے اور کب لگائی تھی اسے منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔ دو دن تک کوئی نہیں آیا تیسرے دن ایک بڑھیا آئی اس نے کہا! مجھے معلوم ہے تو زارِ روس نے بڑی حیرت سے کہا کہ تمہیں کیسے معلوم ہے جبکہ میرے نہ وزیراعظم کو معلوم ہے نہ کمانڈر انچیف کو، نہ وزیر دفاع کو اور نہ ہی متعلقہ افسروں کو، بڑھیا نے جواب دیا کہ مجھے اس لئے معلوم ہے کہ میری ڈیوٹی آپ کی دادی جان کے ساتھ تھی اور یہ گیسٹ ہاؤس پہلے شاہی محل تھا آپ کے دادا جان اور دادی جان شام کو لان میں چہلم قدمی کیا کرتے تھے اور یہاں پر گلاب کا ایک پودا تھا جس میں نہایت خوبصورت گلاب کے پھول کھلا کرتے تھے،ایک دن آپ کی دادی جان نے ان گلاب کے پھولوں کو دیکھ کر کہا کہ ان کی حفاظت کا کوئی انتظام ہونا چاہیے، آپ کے دادا جان نے اپنے کمانڈر کو حکم دیا کہ یہاں اس پودے کی حفاظت کے لئے ایک سپاہی کی ڈیوٹی لگائی جائے جو اس پودے کا خیال رکھے وہ گلاب کا پودا تو کب کا ختم ہو چکا ہے مگر سپاہی کی ڈیوٹی آج تک لگی ہوئی ہے۔ یہ تو تھی ایک روس کی کہانی مگر ایسی کئی روایات آج تک ہمارا پیچھا بھی کررہی ہیں اور ہم جن کاموں کے عادی ہو چکے ہیں وہ کرتے ہی چلے جا رہے ہیں، پاکستان بننے کے بعد بھی یہ بہت سی غلط روائتوں کے امین بنے بیٹھے ہیں۔ نظام تعلیم ہی کو لے لیجئے ہم بدقسمتی سے کوئی قابل فخر کارنامہ سرانجام نہیں دے سکے۔ جس کی بناء پر ہم مغربی دنیا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے سامنے یہ کہہ سکیں کہ ہم نے جدید ٹیکنالوجی اور ایجادات میں بہت ترقی کی ہے، تعلیمی اداروں میں جو نصاب پڑھائے جاتے ہیں وہ وقت کے تقاضوں کے عین مطابق نہیں ہیں، اس قسم کے فرسودہ نصاب کو پڑھ کر رٹے لگا کر طالب علم ذہنی غربت کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہاں ترقی کا پیمانہ صرف مادہ پرستی سے جڑا ہوا ہے۔ ہمارا معاشرہ پڑھے لکھے افراد سے بھرا پڑا ہے لیکن دن بدن اخلاقی زوال اور پسماندگی بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان کا نظام تعلیم بہت بوگس اور گھسا پٹا ہے لاکھوں نوجوان تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود عملی میدان میں ناکارہ اور نااہل ثابت ہوتے ہیں، رٹا سسٹم اور کاپی پیسٹ بچوں سے ان کی خداداد صلاحیتیں چھین لیتی ہیں۔ سالہا سال سے چلا آ رہا نظامِ تعلیم اساتذہ کو بھی فرسودہ اورروایتی طریقہ تعلیم سے نکلنے نہیں دیتا،ہمارا پرانا نصاب ِ تعلیم بچوں کو رٹا سسٹم سے نکلنے نہیں دیتا یہی بچے جب بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں تو ان کے دماغوں پر پڑے تالے کھلنے لگتے ہیں۔ آپ کسی بھی ترقی یافتہ ملک کا نظام تعلیم اٹھا کر دیکھیں کہیں بھی کتابوں اور مضامین کی بھرمار، امتحانات کی تلوار اور نمبر گیم کی یلغار نظر نہیں آئے گی، وہاں طلباء و طالبات کی ذہنی استعداد اور ان کی خداداد صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی کیریر کونسلنگ کی جاتی ہے یہاں ہر بچے کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے۔ ہمیں طالب علم کی سوچنے، سوال کرنے اور مثبت و تعمیری مباحثے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، امتحانات کا اصل مقصد طالب علم کی حقیقی قابلیت اور علم کو جانچنا ہوتا ہے۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے فرسودہ نظام تعلیم کو بدلیں، خاص طور پر اساتذہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ طریقہء تدریس کو جدید بنیادوں پر استوار کریں۔ ہمارا فکر اور عمل اپنا ہونا چاہیے۔ہمیں کسی بھی عمل میں لکیر کا فقیر نہیں ہونا چاہیے۔ ہر چیز کو بغیر غور و فکر اور تحقیق کے تسلیم نہیں کرنا چاہیے ہمارے راستے اپنے طے کردہ ہونے چاہئیں جن پر ہم چل کر اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے سامنے سرخرو ہو سکیں۔
نجانے کیوں ہم اس امید پر زندہ ہیں کہ کوئی ہستی آئے گی اور ہمارا مقدر سنوار دے گی۔ ہمیں خود اپنا مقدر بدلنا ہے ہمیں اپنی قوم کو خود سنوارنا ہے، ہمیں خود ترقی کے راستوں پر چلنا ہے ہم اکثر کسی کو اپنا رہنما مان کر اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں جو آخر کار اپنی جان چھڑوا کر ہمیں اکیلا چھوڑ دیتا ہے۔ ہمیں اب لکیر کے فقیر نہیں بننا ہے،ہم کب تک ایسا کرتے رہیں گے اور پھر تنگ و تاریک راستوں پر چلتے رہیں گے، تاریخ کا سکھایا ہوا سبق ہے جن قوموں نے اعلیٰ کردار کا ثبوت دیا اور صحت مند اصولوں پر قائم رہیں وہ اوجِ کمال کو پہنچیں۔