گنا ہوں کا اصولی جواز
میری یہ گفتگو پڑ ھنے کے بعد ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگوں کے آنسو بہہ نکلیں ۔ بہت سے لوگ سچے دل سے توبہ کر لیں ۔ مگر انسانوں کی ایک قسم وہ ہوتی ہے جسے اپنے بدترین جرائم کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ توبہ بھی نہیں کرتے ۔
میں اپنی خواہشات اور مفادات کے اسیر ان بے ضمیر اورپتھر دل لوگوں کی بات نہیں کر رہاجن کو اپنے کسی گناہ کا احساس ہی نہیں رہتا۔ ایسے لوگوں کی ناؤ تو بھر کر ڈوبتی ہے ۔ اس سے قبل اللہ ان کو نہیں پکڑ تا۔ میں دراصل ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں جو ہر گناہ کو گناہ سمجھتے ہیں اور ہر ظلم کو ظلم سمجھتے ہیں ۔ وہ دنیا میں دین کے نام پر کھڑ ے ہوتے ہیں اس لیے خدا کے ہر ہر حکم سے واقف ہوتے ہیں ۔ ان کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے بدترین جرائم کو اصولی جواز مہیا کر رکھا ہوتا ہے ۔ جس کے بعد ہر جرم کر کے بھی وہ مطمئن رہتے ہیں ۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 47 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس کی ایک مثال یہود ہیں ۔ انھوں نے دنیا کوغیر یہود جنٹائل اور خدا کی پسندیدہ قوم یہود میں تقسیم کر رکھا ہے ۔ جس کے بعد وہ غیر یہود کے ساتھ ظلم و زیادتی کو اخلاقی جوازدے دیتے ہیں ۔ اسی طرح ہمارے ہاں فرقہ پرستی اور تعصبات میں اندھے ہونے والے لوگ اپنے گروہ سے باہر کے ہرنمایاں شخص کی کسی سیدھی بات کابھی الٹا مطلب نکال کرالزام و بہتان کی ایک مہم چلادیتے ہیں ۔ جب ان کو اخلاقی بنیادوں پر توجہ دلائی جاتی ہے توکہتے ہیں کہ یہ شخص تو ہے ہی گمراہ اور فتنہ ، اس کے خلاف سب جائز ہے ۔
یہی وہ رویہ ہے جو ہمارے ہاں آگے بڑ ھا اور ہم نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا کہ بے گناہ عورتوں اور مردوں سے لے کر ا سکول کے معصوم بچوں تک کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ اس کے پیچھے بھی اپنے جرائم کو اصولی جواز مہیا کرنے کا عمل تھا۔ قیامت کے دن ایسے لوگوں کا منہ بندکر دیا جائے گا۔ اور پھر ان کے ساتھ وہ ہو گا جس کا یہ تصور بھی آج نہیں کرسکتے ۔ مگر ایسے لوگ بھی قیامت سے پہلے ہوش میں آنے والے نہیں ہیں ۔ ان کی ناؤبھی بھرکر ہی ڈوبتی ہے ۔
حضرت عیسیٰ کے ابتدائی منکرین پر عذاب
یہود کا ذکر آ گیا ہے تو ذوالفقار صاحب کے ساتھ کی جانے والی ایک گفتگو کا ذکر بھی ہوجائے جن کا تعلق یہود سے تھا۔ غالباً اسی روز انھوں نے مجھ سے یہ پوچھا کہ حضرت عیسیٰ کا انکار کرنے والے یہود پر نہ براہ راست عذاب آیا نہ ان کے ماننے والوں کو اس طرح اقتدار ملا جس طرح باقی رسولوں پر ایمان لانے والوں کو ملا تھا۔
ان کے اشکال کا پس منظر یہ تھا کہ بائبل کے بعض بیانات کی روشنی میں لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ رفع مسیح 33برس کی عمر میں ہوا۔جبکہ ٹائٹس کے ہاتھوں آنے والی تباہی چونکہ70عیسوی کے لگ بھگ آئی تھی اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ نسل تو اطمینان سے اپنی زندگی گزارکر رخصت ہوگئی جس نے مسیح کا انکار کیا تھا۔ جبکہ مسیح کے حواریوں کو رومی سلطنت میں شدید ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ یوں اللہ کا وعدہ تو ان سے پورا نہیں ہوا جو عام طور پر رسولوں کے ماننے والوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے اور جس کا مسیح کے حواریوں کے حوالے سے قرآن میں بھی ذکر ہے ۔
میں نے اس معاملے میں اپنا نقطہ نظر بیا ن کر دیا۔قرآن مجید کے مطابق یہود کی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کے منکرین کے مقابلے میں ان کے ماننے والوں کی مدد کی اور ان منکرین پر ان کے مومنین کو غلبہ دے دیا تھا، (الصف14:61)، دوسری جگہ یہ واضح کر دیا گیا کہ یہ غلبہ قیامت تک کے لیے ہے ، (ال عمران55:3)۔(ا الاعراف167:7) کے مطابق ان کی دوسری سزا یہ تھی کہ ان پر وقفے وقفے سے تاقیامت ایسے لوگ مسلط کیے جائیں گے جو ان کو سخت عذاب دیں گے ۔
لائیو ٹی وی پروگرامز، اپنی پسند کے ٹی وی چینل کی نشریات ابھی لائیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
یہی رفع مسیح کے بعد ان کے کفر کی پاداش میں ہوا۔ پھر میں نے تاریخ کی روشنی میں ان کا اشکال دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ان کو یہ بتایا کہ حضرت عیسیٰ کی تیس برس کی عمر والی بات انجیل کے ایک دوبیانات سے پھیلی ہے ۔قرآن مجید نے اس کی تصحیح کرتے ہوئے یہ واضح کر دیا کہ حضرت عیسیٰ نے اپنی دعوت کا آغاز سن کہولت (آل عمران46:3، مائدہ110:5)یعنی ادھیڑ عمرمیں کیا تھا۔ دعوت سے لے کر اتمام حجت تک کچھ برس تو لگے ہی ہوں گے ۔چنانچہ رفع مسیح کا وقت کسی پہلو سے بھی پانچویں دہائی سے کم کا نہیں ہے ۔ اس کے بعد ٹائٹس کے بعد آنے والی تباہی میں زیادہ سے زیادہ دس پندرہ برس بچتے ہیں ۔ یہ اتنا وقت نہیں ہے کہ مسیح کا انکار کرنے والی نسل اس دنیا سے گزر جائے ۔
یہی وہ دس پندرہ برس کا عرصہ ہے جس میں مسیح کے حواریوں کی دعوت تیزی سے پھیلی ۔یہ بات بھی یقینی ہے کہ انھوں نے حضرت عیسیٰ کی تعلیمات کی بنا پر یہود کی طرح بغاوت میں حصہ نہیں لیا ہو گا۔ چنانچہ اس بات کا امکان کم ہے کہ وہ یہود کی طرح مصیبت میں مبتلا ہوئے ہوں گے ۔چنانچہ ایک طرف حضرت عیسیٰ کے پیروکار بڑ ھتے گئے اور دوسری طرف ٹائٹس کے حملے کے بعد یہود کی کمر ایسی ٹوٹی کہ پھر ان کے قدم جم نہ سکے ۔انھوں نے اپنی تباہی کو بھی خود دیکھا اور مسیح کے پیروکاروں کو ہر طرف پھیلتے اور غالب ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔
باقی رومی سلطنت میں ابتدائی مسیحیوں پر ظلم ایک الگ داستان ہے ۔انفرادی واقعات کو چھوڑ کر مسیحیوں پر باقاعدہ ظلم و ستم رومی سلطنت میں تیسری صدی عیسوی میں شروع ہوا۔ اس سے پہلے یہ لوگ مجموعی طور پر پرامن زندگی گزار رہے تھے اور خاموشی سے پھیل رہے تھے ۔تاہم ایک صدی کے اندر ہی کونسٹنٹائن کے مسیحیت قبول کرنے کے بعد پوری رومی سلطنت عیسائی ہوگئی۔ اس کے بعد سے لے کر آج کے دن تک مسیحیوں کو یہود پر جو غلبہ رہا ہے وہ تاریخ کی روشنی میں مکمل واضح ہے اور قرآن کی صداقت کا واضح ثبوت ہے ۔ (جاری ہے)
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 49 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں