ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 49
بلو ماؤنٹین کا سفر
سڈنی شہر میں میرے لیے خوشی اور مسرت کا ایک موقع عاطف سے ملنا تھا۔وہ میرے دوست، اسٹوڈنٹ اور دعوت کے ساتھی سب ہی رہے ہیں ۔ وہ ایک بہت قابل نوجوان ہیں ۔ صرف دو برس قبل سڈنی منتقل ہوگئے تھے لیکن تیزی سے ترقی کرگئے ہیں ۔ میں جب سڈنی پہنچاتو پہلے ہی پروگرام میں ان سے ملاقات ہوگئی تھی۔ دوسرے پروگرا م میں وہ اپنی اہلیہ سمیت تشریف لائے جو میرے ایک اوردوست جمیل کی ہمشیرہ تھیں ۔
آسٹریلیا آنے سے قبل ہی میں ان سے رابطہ میں تھا ۔ہمارے درمیان یہ بات طے ہوگئی تھی کہ سڈنی کے قریب واقع بلو ماؤنٹین کامشہور تفریحی مقام وہ مجھے دکھائیں گے ۔اس جگہ کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ اس پہاڑ ی سلسلے کو دور سے جب دیکھا جاتا ہے تو ان کا رنگ نیلا محسوس ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ پہاڑ وں کے دامن میں موجود جنگلات کے درختوں سے نکلنے والا ایک کیمیائی مادہ اس کا ذمہ دار ہے ۔روشنی ان سے ٹکرا کر اس طر ح پھیلتی ہے کہ اس کے سات رنگوں میں سے نیلا رنگ نمایاں ہوجاتا ہے ۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 48 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
عاطف فجر کے بعد ہی مجھے لینے کے لیے گھر آ گئے تھے ۔ ان کے ساتھ میں روانہ ہوا اور سڈنی کے مضافا ت سے ہوتے ہوئے شہر سے باہر پہنچے ۔ راستے میں خوبصورت قدرتی مناظر اور مغربی دیہاتی زندگی کے نمونے دیکھتے گئے ۔ملبورن کے مضافات کی طرح یہاں بعض جگہ صرف ایک ہی گھر تھا جو اردگرد کے علاقے میں کاشت کاری اور گلہ بانی پر گزارا کرتا تھا۔ ایک جگہ وہ پٹرول ڈلوانے کے لیے رکے تو میں بھی گاڑ ی سے باہر نکل آیا۔انھوں نے خود ہی پٹرول ڈالا اور اندر جا کر اس کے پیسے بتائے اور خود ہی ادائیگی کی۔
میں نے پوچھاکہ لوگ پیسوں کی ادائیگی میں ڈنڈی تو نہیں مارتے ۔ کہنے لگے میں بھی جب پہلی دفعہ آیا تو پہلے سے مقیم اپنے بہنوئی سے یہی سوال کیا تھا۔ انھوں نے عاطف سے کہا کہ ہر پاکستانی یہی بات پوچھتا ہے ۔یہ سن کر میں ہنس پڑ ا۔ جب سے ہمارے ہاں ایمان و اخلاق کی تربیت کے بجائے حکومتی اور سیاسی طاقت کی بنیاد پر اسلام نافذ کرنے کی سوچ عام ہوئی ہے ، ہماری عمومی اخلاقی حیثیت اتنی پست ہو چکی ہے کہ کوئی شریف آدمی اس کی توقع نہیں رکھتا کہ ایک شخص چند روپوں کا بھی امین ہو سکتا ہے ۔
عاطف نے مجھے اس حوالے سے بہت سے قصے سنائے ۔ میں کینیڈا میں رہا تھا اس لیے مغربی سماج کی ان خصوصیات سے واقف تھا۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں مغرب کا تعارف یہی ہے کہ یہاں بس لڑ کیاں بکینی اور منی ا سکرٹ میں گھومتی ہیں اور مغرب میں ہر وقت مسلمانوں کے خلاف سازش ہوتی رہتی ہے ۔ کوئی اچھی بات سامنے آئے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ انھو ں نے ہم سے لی ہے ۔ کسی عملی بہتری کی ہم نہ کوشش کرتے ہیں نہ اس کا طریقہ ہم کو معلوم ہے ۔
یہ صورتحال تب تک نہیں بدلے گی جب تک ہمارے کچھ لوگ یہ طے نہ کر لیں کہ وہ افراد اور سماج کی تربیت کے لیے زندگی وقف کر دیں گے ۔یہ کرنے والوں کو نہ شہرت ملے گی، نہ اقتدار اور نہ عوام میں پذیرائی ان کا مقدر ہو گی۔ ان کو تو اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنا بھی مسئلہ بنا رہے گا۔ مگر کوئی تبدیلی اگر کبھی آئی تو انھی لوگوں سے آئے گی۔اور آخرت کے اعلیٰ ترین مقامات ان کا مقدر ہوں گے ۔
نیلے پہاڑ ، تین بہنیں اور جنت
خیر باہر موسم بہت سرد تھا۔اس کی وجہ ٹھنڈ ی اور تیز ہوا تھی۔چنانچہ ہم کافی لے کرآگے روانہ ہوئے اور کچھ دیر میں بلو ماؤنٹین کے پہاڑ ی سلسلے پرجاپہنچے ۔یہ جگہ ایک بالکل منفرد پہلو سے خوبصورت تھی۔میں نے پہاڑ وں کے بہت روپ دیکھے ہیں ہم پاکستانیوں سے زیادہ پہاڑ وں کو کون جان سکتا ہے ۔ پروردگار نے ہمیں دنیا کے بلند ترین اور خوبصورت ترین پہاڑ دیے ہیں ۔میں نے وادی کاغان، کالام اور ہنزہ وگلگت میں ہر طرح کے پہاڑ دیکھ رکھے ہیں ۔ فلک بوس، عظیم الشان پہاڑ۔دیار کی خوشبو بکھیرتے ، بلند قامت درختوں سے اٹے ہوئے پہاڑ۔ سبز گھاس کی پوشاک پہنے اور اپنے دامن پر رنگارنگ پھولوں کے موتی بکھیرتے ہوئے پہاڑ۔ سردیوں میں برف کا لبادہ اوڑ ھے اور گرمیوں میں اپنی چوٹیوں پر برف کا تاج سجائے سفید پہاڑ۔ سردوگرم موسم سے بے نیاز سال بھر برف کی چادرنہ اتارنے والے نانگا پربت ، فلک سیر اور راکا پوشی جیسے بلند ترین پہاڑ۔ کچھ نہ ہو تو مٹی کے رنگ میں رنگے ہوئے پہاڑ۔پھر ابھی حال ہی میں ترکی اور پھر اور اس کے بعد بلوچستان میں دیکھے ہوئے عجیب و غریب خلقت پہاڑ جو پہاڑ کم اورفائن آرٹس کے نمونے زیادہ لگتے ہیں ۔
لائیو ٹی وی پروگرامز، اپنی پسند کے ٹی وی چینل کی نشریات ابھی لائیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مگر بلو ماونٹین پہاڑ ان سب سے جدا تھے ۔یہ پہلے پہاڑ دیکھے جونیلاہٹ مائل تھے ۔ حتیٰ کہ ان پر موجود سبز جنگلات کا رنگ بھی نیلا نظر آ رہا تھا۔بلو ماؤنٹین کی ایک خاص بات یہاں موجود تھری سسٹرز یا تین بہنیں تھیں ۔ یہ بالکل قریب ہی واقع تین چٹانیں تھیں جو سر اٹھائے ایک ساتھ کھڑ ی تھیں ۔میں نے انھیں دیکھا اور دیکھتا رہ گیا۔ ان کی خوبصورتی کی وجہ سے نہیں ۔ میں ا ن سے کہیں زیادہ خوبصورت پہاڑ دیکھ چکا تھا۔ان کے مختلف اسٹرکچر کی وجہ سے بھی نہیں ۔ میں ان سے کہیں زیادہ عجیب و غریب اور مختلف پہاڑ دیکھ چکا تھا۔
انھیں دیکھتے رہ جانے کی وجہ یہ تھی کہ کہیں ان کا ذکر پڑ ھ رکھا تھا۔ ان کی تصویر بھی دیکھ رکھی تھی۔آسٹریلیا آنے سے قبل جب ان کی تصویر دیکھی تو سوچا تھا کہ شاید یہاں جانا ہو۔ مگر یہاں آنے کے بعد سب چیزیں اپنے میزبانوں پر چھوڑ دی تھیں تو خیال نہیں تھا کہ ان کو دیکھ سکوں گا۔ مگر بلو ماؤنٹین آتے وقت یہ معلوم نہ تھا یہاں ان تھری سسٹرز سے بھی ملاقات ہوجائے گی۔
یہ واقعہ میرے لیے جنت کا ایک تجربہ بن گیا۔ خدا کی جنت اپنے تصورات اور خواہشات کو پالینے کا نام ہے ۔مگر قرآن مجید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان وہاں اپنے تصورات اور خواہشات کو بالکل غیر متوقع انداز میں پائے گا۔ انسان کو اس کی متوقع چیزیں بڑ ے ہی غیر متوقع انداز میں ملیں گی۔ پانے کا یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہو گا اور غیر متوقع انداز میں پانے کا یہ طریقہ انسان کو کبھی بور نہیں ہونے دے گا۔(جاری ہے )
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 50 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں