ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 50
ایبوریجنل، توہمات اور نئی دنیا کے مالک
عاطف نے مجھے ان تین چٹانوں سے متعلق ایبوریجنل(Aboriginal)لوگوں کی ایک داستان سنائی۔ ایبوریجنل؛ریڈانڈین کی طرح یہاں کے مقامی باشندے تھے اوریورپین نوآبادکاروں کے ہاتھوں اسی انجام کو پہنچے جس کا سامنا ریڈ انڈین کو امریکہ میں کرنا پڑ ا۔ یعنی ساری آبادی ختم اور بطور نمائش گنتی کے چند لوگ قدیم کلچر کے ایک زندہ نمونے کے طور پر موجود ہیں ۔بہرحال اس کہانی کے مطابق یہ تین بہنیں تھیں جنھیں ایک دوسرے قبیلے کے تین بھائیوں سے عشق ہوا۔ کہانی کے مطابق آخرکار ایک جادوگر نے ان کو چٹانوں میں بدل دیا۔
اس کہانی کا ایبوریجنل کے انجام سے بہت گہرا تعلق ہے ۔ جو لوگ توہمات میں جیتے ہیں وہ آخر کار ریڈ انڈین اور ایبوریجنل کے انجام کو پہنچتے ہیں اور جو لوگ توہمات کو چھوڑ کر علم و تحقیق کو زندگی بناتے ہیں وہ نئے براعظموں کے مالک بن جاتے ہیں ۔ ہم جو بھی کہیں ، اس دنیاکی حقیقت یہی ہے ۔ کیا اس میں ہماری لیے کوئی سبق ہے یا نہیں ؟
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 49 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک بہن کی زیارت
اس وادی ، پہاڑ ی سلسلے اور تین چٹانوں کے نظارے کے لیے جو بلند جگہ تھی ہم کافی دیر کھڑ ے وہاں کا منظر دیکھتے رہے ۔ میں نے ان تین چٹانوں میں سے پہلی کی جڑ میں کچھ لوگوں کو دیکھا۔ عاطف نے بتایا کہ وہاں تک جانے کے لیے پہلے ایک ٹریک ہے اور پھر کافی سیڑ ھیوں سے اتر کر جانا پڑ تا ہے ۔ گرچہ میرے گھٹنے میں تکلیف تھی، مگر میں نے جانے کا ارادہ کر لیا۔
ٹریک ختم ہوا تو سیڑ ھیاں شروع ہوگئیں ۔ چٹانی سیڑ ھیوں کے اسٹیپ بڑ ے بڑ ے ہوتے ہیں اور ان پر چڑ ھنا اترنا آسان نہیں ہوتا۔ عام حالات میں میں باآسانی ان پر چلا جاتا مگرگھٹنے کی تکلیف کے ساتھ یہ مشکل تھا۔ چنانچہ میں ہمت ہار کر ان کے آغاز میں ایک جگہ سیٹ پر بیٹھ گیا اور سردہوا میں گرم دھوپ سینکنے لگا۔عاطف نے میرا حوصلہ بڑ ھانے کے لیے اپنا بیگ کھولا اور وہ سینڈوچز نکالے جو ان کی بیگم نے زادِراہ کے طور پر ان کو بنا کر دیے تھے ۔
ان کو کھانے کے بعد جسم میں جو حرارت آئی اس نے ذہن میں یہ خیال پیدا کیا کہ زندگی میں دوبارہ کبھی یہاں آنا ہو یا نہیں بہتر ہے کہ یہ مشقت بھی کر لی جائے ۔ چنانچہ ہم نیچے اترنا شروع ہوگئے ۔ جہاں سیڑ ھیاں ختم ہوئیں وہاں ہوا میں معلق لوہے کا ایک پل بنا ہوا تھا اور نیچے دور دور تک جنگلات کا نظارہ تھا۔ اس کو عبور کر کے ہم پہلی چٹان کی گود میں جابیٹھے ۔
عاطف نے بتایا کہ سیڑ ھیاں نیچے وادی اور جنگل تک جاتی ہیں ۔ ایڈونچر پسند لوگ نیچے تک جاتے ہیں اور وہاں موجود کسی آبشار تک جاپہنچتے ہیں ۔یہ جنگلات اتنے نیچے تھے کہ مزید کسی ایڈونچر کاخطرہ مول لیے بغیر میں نے واپس آنے میں عافیت سمجھی۔
جنگلات میں
لیکن عاطف نے مجھے جنگلات تک پہنچانے کا ایک دوسرا راستہ ڈھونڈ لیا۔ وہ اپنی گاڑ ی میں بٹھا کر مجھے ایک دوسری جگہ لے گئے جہاں بذریعہ ٹکٹ ایک ٹرین کے ذریعے نیچے جانے کا انتظام تھا۔ مگر یہ ٹرین سیدھی نہیں چلتی تھی بلکہ بالکل ٹیڑ ھی ہوکر نشیب کی طرف جاتی تھی۔نیچے گئے تو معلوم ہوا کہ ایک زمانے میں یہ جگہ کوئلہ نکالنے والے کار کنوں کے نیچے آنے جانے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔اس زمانے کی بعض معلومات اور استعمال ہونے والی چیزیں لوگوں کے لیے بطور نمائش موجود تھیں ۔
لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔
ایندھن اور جدید انسان
ان سب چیزوں کو دیکھ کر یہ اندازہ ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جدید انسان کی زندگی کتنی آسان بنادی ہے ۔ آگ اور حرارت زمانہ قدیم ہی سے زندگی کی بنیادی ضرورت رہی ہے ۔ یہ ضرورت انسان نے ہر دور میں کوئلے اور ایندھن کی دیگر اقسام سے پورا کرنے کی کوشش کی۔ مگر ایندھن حاصل کرنا اور اسے جلا کر روشنی اور حرارت حاصل کرنا ہر دور میں ایک بڑ ا مسئلہ بنا رہا ہے ۔ آج جب ہم اپنے گیس کے چولہے کو ماچس یا لائٹر سے جلاتے ہیں ، یا بغیر ماچس کے خودکار چولہے جلاتے ہیں ۔ یا وہ برتن استعمال کرتے ہیں جو بجلی اور گیس کے بغیر خود کار طور پر گرم ہوجاتے ہیں ۔ یا اپنے گھروں میں گرم پانی کے لیے گیزر جلاتے ہیں ۔ یا پھر چوبیس گھنٹے ہوا، روشنی اور ٹھنڈک کے لیے پنکھے ، لائٹ اور اے سی ایک بٹن دبا کر کھولتے ہیں تو ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ ہزا رہا برس تک انسان کے لیے ان چیزوں کا حصول کتنا بڑ ا مسئلہ تھا۔
آج کے انسان کو سب سے بڑ ھ کر خدا کا شکر گزار ہونا چاہیے ۔ مگر آج کا انسان سب سے بڑ ھ کر خدا کو بھولا ہوا ہے ۔(جاری ہے)
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 51 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں