مذاکرات کا نقصان

کیا پاکستان کو پی ٹی آئی کے حکومتی اتحاد سے مذاکرات کا نقصان ہوگا؟عمران رہا ہو جائیں گے؟دوبارہ وزیر اعظم بن جائیں گے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ فارم 47کی حکومت کی تکرار ختم کر کے پی ٹی آئی نے اقتدار کی لڑائی سے پسپائی اختیار کرلی ہے اور اب فرار کی راہ پر بگٹٹ بھاگنا چاہتی ہے۔تہمت اوور سیز پاکستانیوں پر ہے کہ انہوں نے امریکہ،برطانیہ اور یورپی یونین کو متحرک کردیاہے۔ کچھ اندازہ نہیں کہ وہ اس قدر طاقتورکیسے ہو سکتے ہیں جو بے چارے دُڑکی لگا کر موت کے سمندر وں میں ڈبکیاں کھا کر امریکہ،برطانیہ اور یورپ پہنچتے ہیں، وہاں کے اداروں کو اپنی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی کیسے بناسکتے ہیں؟
حکومت نے سپریم کورٹ کو نکیل کیا ڈالی بین الاقوامی سطح پر عمران خان کی رہائی کے لئے پاکستان کو دھمکیاں ملنے لگی ہیں۔گویا کہ 26ویں آئینی ترمیم سے سپریم کورٹ پر قابو پایا گیا تو بین الاقوامی لابیاں بے قابوہو گئیں۔عمرانڈو حلقے ایک بار پھر بغلیں بجانے لگے کہ عمران خان رہا ہو جائیں گے۔ممکن ہے پھر سے بغلیں جھانکنے لگیں کیونکہ ابھی صرف مطالبہ سامنے آیا ہے،پاکستان کے مفادات پر کوئی ضرب نہیں لگی ہے۔ابھی فوجی عدالتوں کی سزاؤں سے بین الاقوامی لابی کو بات کرنے کا موقع ملا ہے۔برطانیہ،یورپی یونین،امریکہ اور اسرائیل سے آوازیں آرہی ہیں مگر چین اور مڈل ایسٹ کی خاموشی ہے، وہاں سے کوئی مطالبہ نہیں ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین پاکستانی ریاست کی آڑ میں علاقائی سیاست سے ڈیل کرنا چاہتی ہیں۔
برطانیہ اور یورپی یونین نے اصولی موقف اپنایا ہے کہ شہری حقوق کو نظر اندازکرتے ہوئے فوجی عدالتوں سے سزائیں ہوئی ہیں۔ مگر امریکہ نے تو حد ہی کردی ہے کہ عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کردیا ہے۔ وہ بے اصولی کو اصولی موقف بنائے ہوئے ہے۔افغانستان سے پسپا ہو کر نکلنے والا پاکستان کو پھنسانا چاہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کی عالمی تنہائی بڑھتی جا رہی ہے، پاکستان سے ٹکراس کے تابوت میں آخری کیل بھی ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستانیوں کو خریدنے کو ترجیح دی ہے جبکہ چین اور مڈل ایسٹ نے پاکستان کو فروخت ہونے سے بچایا ہے۔ اب بھی امریکہ سمجھتا تھا کہ وہ سپریم کورٹ اور میڈیا کے زور پر پاکستان کی ریاست کو فتح کرلے گا، جنرل فیض اور عمران خان کے دس دس سالہ منصوبوں کو کیش کرلے گا مگر مشیت ایزدی کچھ اور تھی، امریکہ خواہش کے باوجود پاکستان کو بنگلہ دیش یا شام نہیں بنا سکا۔ اب رچرڈ گرنیل کی گیدڑ بھبھکیاں ہی بچی ہیں مگر شکیل آفریدی کی طرح عمران خان بھی ان کے حوالے نہیں کیے جائیں گے۔
افسوس کی بات ہے کہ آج عمران خان کا تقابلی جائزہ شکیل آفریدی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ شکیل آفریدی نے ضمیر کا سودا کیا اورغداری کا مرتکب ٹھہرا تھا۔ عمران خان تو نجات دہندہ بنے ہوئے تھے، تبدیلی کا استعارہ سمجھے جاتے تھے، چور سیاستدانوں کے مقابلے میں سادھ بنے ہوئے تھے اور اب ایک طرف پلڑے میں شکیل آفریدی ہیں تو دوسری طرف عمران خان ہیں۔ تب بھی پاکستان نے عافیہ صدیقی لے کر شکیل آفریدی دینے کی بات کی تھی، آج بھی عافیہ صدیقی کے بدلے عمران خان دینے کی بات ہو رہی ہے۔ پاکستان کو اپنی بیٹی ایسے نالائق بیٹوں سے کہیں زیادہ عزیز ہے تاکہ امریکہ کو باور کروایا جا سکے کہ عافیہ صدیقی کے ساتھ ہونے والی بدسلوکیاں اس کے اصل چہرے کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہیں اور پاکستان تب تک شکیل آفریدی دے گا نہ عمران خان جب تک پاکستان کی عافیہ پاکستان کے حوالے نہیں کی جاتی ہے۔
گزشتہ کالم میں مذاکرات کے آغاز پر ہم نے مذاکرات کے فائدے کا اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی اور مذاکرات کے ایک ہفتے بعد اس کے نقصانات جانچنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس ایک ہفتے میں سوائے 9مئی کے مجرموں کو سزا کے کوئی اور بڑی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ اگر برطانیہ اور یورپی یونین چاہتے ہیں کہ یہ سزائیں پاکستان کی آئینی عدالتوں سے ہوں تو انہیں تسلی رکھنی چاہئے کہ فوجی عدالتوں کی سزاؤں پر اپیل وہیں سنی جائے گی۔ یہ الگ بات کہ ان کے من پسند جج صاحبان کو یہ سعادت نہ مل پائے گی اور اس کے برعکس غیر متنازع اور انصاف کو ملحوظ خاطر رکھنے والے جج صاحبان اپنا فیصلہ صادر فرمائیں گے۔مگر جہاں تک امریکہ کی بات ہے تو اس کی نوٹنکی تو یونہی لگی رہے گی، پاکستان اب اس کے جھانسے میں نہیں آنے کا ہے۔
عمران خان اور عمرانڈو حلقوں کو بھی ہوش کے ناخن لینا چاہئیں کہ وہ ریاست کی سیاست کریں، ریاست کو اپنی گھٹیا سیاست کی بھینٹ مت چڑھائیں۔ نواز شریف سے بغض پالتے پالتے وہ پاکستان سے بغض پال بیٹھے ہیں۔ اس کے نظام کو تہہ و تیغ کردینا چاہتے ہیں کیونکہ ایک نالائق اور کھلنڈرے رنگیلے شاہ کی چاہت نے انہیں اندھا کیا ہوا ہے۔ نوجوان اس ملک کا اثاثہ تھے مگر خفیہ ہاتھوں نے نواجوانوں اور عورتوں کو اکٹھا کرکے انہیں ملک کا سب سے بڑامسئلہ بنادیا ہے۔ یہ دو طبقے ایک ایسے سراب کے پیچھے سرگرداں ہیں جو انہیں بھگا بھگا کر ماردے گا۔ افسوس تو یہ ہے کہ کچھ عاقل بالغ بلکہ بوڑھے اور دماغی طور پر لاغر حضرات بھی اس بین کو اپنے ہونٹوں میں دبا کر پھونکیں مارنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر ان حلقوں کے پیچھے چلا جائے تو پاکستان ایٹمی قوت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا اور قومی حمیت سے بھی جائے گا۔ مگر اللہ نے جس طرح ہر بار پاکستان کی حفاظت کی ہے، انشاء اللہ آگے بھی کرے گا اور پاکستان سے دشمنی مول لینے والوں کو منہ کی کھانی پڑے گی کیونکہ واصف علی واصف ایسا مردقلندر بہت پہلے کہہ گیا تھا کہ پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں!