جناب چیف جسٹس کے نام

شجسٹس ثاقب نثار 18 جنوری 1954ء کو پاکستان کے دل لاہور میں پیدا ہوئے۔ جامعہ پنجاب سے اپنی قانون کے ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1980ء میں وکالت کا پیشہ اختیار کیا اور 1982 میں وہ ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ بن چکے تھے۔ جبکہ 1994 ء میں انہیں سپریم کورٹ کا ایڈووکیٹ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔1998 ء میں انہیں ہائی کورٹ کے جج کے عہدے پر ترقی دے دی گئی جبکہ 2010 ء میں انہیں سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیااور بطور چیف جسٹس کے31 دسمبر 2016 ء سے کام کر رہے ہیں ۔ دسمبر 2018 ء کو ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔ ان کے پاس کام کرنے کے لیے پانچ ماہ باقی ہیں ۔انہوں نے یہ پانچ ماہ مسلسل کام کرنے کا اعلان کیا ہے ۔چھٹی کے دن بھی کام کر رہے ہیں ۔جسٹس ثاقب نثار نے اخباری ا طلاعات کے مطابق چھ ماہ میں صرف ایک چھٹی کی ہے ۔ ہر ہفتے اور اتوار کو عدالت لگ رہی ہے۔وہ دن رات کام کر رہے ہیں۔پاکستان کی عوام کی بڑی تعداد ان کی عزت کرتی ہے۔
انہوں نے سب سے بڑا اعلان جو کیا ہے جو اس کالم کو لکھنے کا سبب بنا ہے وہ ہے کہ وہ جانے سے پہلے تین کام کر کے جائیں گے۔ ڈیم کا بنانا، کرپشن کا خاتمہ اور قرضوں سے نجات۔اگر یہ تین کام ہو جاتے ہیں تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا ۔اگر وہ صرف ایک کام کرپشن کا خاتمہ ہی کر جائیں تو باقی دونوں کام خودبخود ہو جائیں گے ۔کیونکہ ڈیم بنانا اور قرضوں سے نجات کا تعلق کرپشن سے ہے ۔تاریخ میں وہی لوگ زندہ رہے جنہوں نے تاریخ رقم کی، چیف جسٹس اس وقت اس موڑ پر ہیں چاہیں تو تاریخ رقم کر سکتے ہیں ۔اللہ نے ان کو موقع دیا ہے ۔
چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی شاید اللہ نے ملک کی تاریخ کا رخ موڑنے کے لیے چن لیا ہے ۔ کیونکہ ڈیم بنانے کے لیے چندہ مہم کے بعد ملکی قرضہ 24 ہزار ارب روپے کی ادائیگی کے لیے مہم چلانے کا بھی انہوں نے عندیہ دے دیا ہے۔ ان کے الفاظ تھے کہ’’ ملکی قرضہ اتارنے کے بارے میں مہم شروع کرنے کا سوچ رہے ہیں‘‘۔اس سے قبل وہ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم فنڈز کے لیے مہم کا آغاز کر چکے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں پانی کی کمی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے ۔اس پر ملک کا سنجیدہ حلقہ احباب کافی عرصہ سے رپورٹ دے رہا ہے جو اخبارات و رسائل کا حصہ بنتی رہی ہے ۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پانی کا بحران پاکستان کے لیے دہشت گردی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔بلکہ یہ اس وقت سب سے بڑا خطرہ ہے ۔بین الاقوامی ادارے رپورٹس پر رپورٹس جاری کیے جا رہے ہیں کہ 2025 ء میں پاکستان خشک اور بنجر ہو جائے گا ۔ آج تک کسی حکومت نے پانی کے مسئلے کے حل کیلئے سنجیدگی سے کوئی کام نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔اس وقت ڈیم پوری قوم کی ضرورت ہے۔ پانی کی قلت قومی مسئلہ بن چکا ہے۔
ڈیم بناؤ مہم کا آغاز سوشل میڈیا سے ہوا تھا ۔جو تحریک بنا ،اور اب چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس پر طوفانی رفتار سے کام شروع کر تے ہوئے ملک میں ڈیمز کی تعمیر کے سلسلے میں ’’دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم فنڈ۔2018‘ ‘کے عنوان سے فنڈز اکھٹے کرنے کے لیے بینک اکاؤنٹ کھول دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر چیف جسٹس کو مفت اور گراں قدر مشوروں سے نوازا جا رہا ہے جن میں چند ایک یہاں مختصر درج کیے جا رہے ہیں ۔یہ سب اس قابل ہیں کہ ان پر اگر عمل ہو جائے تو ایک تیر سے دو نہیں اس سے کہیں زیادہ فوائد ممکن ہیں ۔کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا ،موروثی سیاست کا ناسور کافی حد تک کنٹرول ہو جائے گا ۔ملکی قرضہ اتر جائے گا ۔غرباء کے حالات زندگی بہتر ہو جائیں گے ۔ خیال رہے ملک میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد نصف آبادی سے بھی زیادہ ہے ۔
قومی اسمبلی کے ہر ممبر سے ایک ایک کروڑ اور ہر صوبائی اسمبلی کے ممبر سے پچاس پچاس لاکھ ڈیم بنانے اور ملکی قرض اتارنے کے لیے جمع کیے جائیں ۔طریقہ کار جو بھی طے کیا جائے ۔اس طرح عوام بھی نمائندوں کی حقیقت کے بارے میں جان جائے گی کہ وہ کتنے ملک و قوم سے مخلص ہیں ۔یا صرف نعرے لگا کر ہی ان کو نچایا جاتا ہے ۔اسی طرح سیاسی اثر و رسوخ پر قرضے معاف کروانے والے تقریباً اڑھائی سو افراد سے یہ رقم واپس لی جائے ۔یہ رقم ان کو کس خوشی میں معاف کی گئی ہے ۔معاف کرنے والوں کو بھی سزا اور جرمانہ کیا جائے ۔اس کے ساتھ ساتھ ہر منسٹر، بیوروکریٹ اور فوجی افسر کو بھی جیل بھجوائیں جس جس نے قومی دولت لوٹی ہو۔
ہر قومی و صوبائی اورپارلیمنٹ کے افراد کی تنخواہ ایک عام مزدور کے برابر کر دی جائے۔یعنی پندرہ ہزار روپے ۔باقی رقم اسی فنڈ میں جمع کی جائے ۔ان کی تمام ایسی سہولیات جو عام شہری کو حاصل نہیں مثلاََ سفر، راشن، بجلی، پانی، فون بل ختم کیا جائے ۔واپڈا کی طرف جاری کیا جانے والا بل اگر دیکھا جائے تو اس میں کافی ایسے ٹیکس ہیں جو بالکل عوام پر ظلم ہیں ۔ان کا خاتمہ کیا جائے اور سابقہ رقم ان اداروں سے وصول کی جائے ۔اسی طرح واپڈا ملازمین ،قومی و صوبائی ممبران کو جو مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے اس کا خاتمہ کیا جائے اور اس رقم کو ملکی خزانے میں جمع کیا جائے ۔جس سے بہت جلدنہ صرف ملکی قرض اتر جائے گا بلکہ ہمارے ملک میں سیاحت و صنعت پر توجہ دی جائے تو لاکھوں بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی اپنے ملک میں کام کرنے کے لیے پلٹ سکتے ہیں ۔
خیر بات ہو رہی تھی ڈیم بنانے کی ،قرض اتارنے کی اور ہم نے عرض کیا ہے یہ دونوں کام ممکن ہیں اگر صرف ایک کام ہو جائے اور وہ ہے کرپشن کا خاتمہ ،ذمہ داروں کو نہ صرف سزا بلکہ ان سے لوٹی دولت واپس بھی لینے سے ۔ذرا تصور کر یں اگر ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس وطن آجائے ،اگر معاف کیے گئے قرض وصول لیے جائیں ،اگر کرپشن سے بنی ملک کے طول وعرض میں جائیدادیں بیچ دی جائیں تو ایک ڈیم تو کیا کئی ڈیم بن سکتے ہیں ۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔