حق مہر کی ا ہمیت اور مقد ار؟
حا فظ محمد مشتا ق ر با نی
نکا ح کے سا رے عمل میں حق مہر خا ص ا ہمیت رکھتا ہے اور اسے خو شد لی سے ادا کر نے کی ہدا یت کی گئی ہے۔قر آن و حد یث میں اس کی جتنی تا کید ہے ہما رے ہا ں با لعمو م اس کی ادائیگی میں اس قدر کوتا ہی ہو تی ہے۔مو لانا اشر ف علی تھانویؒاسلامی شادی میں فر ما تے ہیں: ”ایک کو تا ہی جو بعض اعتبا ر سے سب سے ز یا دہ سخت ہے یہ ہو تی ہے کہ اکثر لوگ مہر د ینے کا ارادہ ہی دل میں نہیں ر کھتے۔پھر خواہ بیو ی بھی وصو ل کر نے کا ارادہ کرے اور خو اہ طلاق یا موت کے بعد اُس کے ور ثا ء و صو ل کر نے کی کو شش کریں۔لیکن ہر حا ل میں شو ہر کی نیت اداکی نہیں ہو تی۔لوگوں کی نگاہ میں یہ نہایت سَرسَری معاملہ ہے حتی کہ مہر کی قِلّت وکثرت(کمی و زیادتی)میں گفتگو کے وقت بے وھڑک کہہ دیتے ہیں کہ میاں کون لیتا ہے کون دیتا ہے۔یہ لوگ صریح اقر ار کرتے ہیں کہ محض نام ہی کرنے کو ہوتا ہے‘ دینے لینے کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔“(اس کتاب میں حضرت تھانوی کے افادات جمع ہیں‘جن کو مولانامفتی محمدزیدمظاہری ندوی نے مرتب کیاہے)ایسی سوچ رکھناکہ زیادہ مہرلکھوالیتے ہیں کون سا اداکرنا ہے‘مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔مسلمان کے سارے کام ر ضا ئے الہٗی اور اللہ کے حکامات کی تعمیل کے لیے ہو نے چاہئیں۔ کاموں کاانجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ایسے کام جن میں نیت صاف نہ ہواپنے اندرفسادرکھتے ہیں۔ پھرکئی لوگ اپنی حیثیت سے نہایت کم حق مہر مقرر کرتے ہیں اور اکثر مؤجل/ غیر معّجل لکھوا کر عمر بھر ادا نہیں کرتے،حالانکہ مؤجل میں تاریخ کاتعین ہوناچاہیے کہ شوہر کب اداکرے گا۔
ایسا بھی دیکھنے میں آیاہے کہ شوہرکوباندھنے کے لیے لڑکی واے شوہرکی مالی استطاعت مدّنظررکھنے کی بجائے زیادہ حق مہرمقررکرواتے ہیں تاکہ شوہرلڑکی کے تابع رہے۔اس سلسلے میں ضروری ہے کہ مرداپنی مالی حیثیت کو سامنے رکھ کر حق مقرر کرے اور دینے کی غرض سے معّین کرے۔لڑکی والوں سے حق مہر مقر ر کرنے کے حوالے سے مشا ورت کی جا سکتی ہے،لیکن ہر صورت میں مرد کی ما لی حیثیت کو ضرور پیش نظر رکھا جائے۔”مہر“عربی زبان کا لفظ ہے۔یہ لفظ احادیثِ نبویہ میں واردہے،قرآن حکیم میں وارد نہیں ہوا۔قرآن حکیم میں ”مہر“کے لیے جو الفاظ آئے ہیں وہ اُجور،صدُقات،فریضہ اور نفقۃکے ہیں۔ذیل کی سطور میں لغوی اعتبار سے ان کی وضاحت پیش کی جا رہی ہے۔اُجور(:اس کا واحد اَجرہے۔لسان العرب میں اجر کا معنی بیان ہوا ہے،یعنی کام کے عوض ملنے والا معاوضہ۔قرآن حکیم میں اُجُورکا لفظ حق مہر کے لیے مجازاًاستعمال ہوا ہے۔ارشادہے:”اور ان کے حق مہر بھلے طریقے سے ادا کر دیا کرو“یہ الفاظ لونڈیوں کے تناظر میں واردہوئے ہیں‘یعنی ان کو لونڈی سمجھ کران کے مہر کو غیر اہم نہ سمجھا جائے۔آزاد عو رتوں کے حوالے سے بھی اُجُور کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ارشاد ہے:”پس ان میں سے جن سے تم نے ”فائدہ“ حاصل کیا ہو تو ان کو ان کے مہر ادا کرو‘فریضہ کی حیثیت سے“فریضہ مصدرہے جو یہاں بطو ر حا ل استعمال ہوا ہے۔
صَدُقات:اس کا واحد صَدُقہ ہے۔احادیث اور کتب فقہ میں ”صِداق کی اصطلاح آتی ہے۔ صِدقہ دال کی زبر سے ہو تو اس کے معنی خیرات ہے اور دال پر ضمہ(پیش)ہو تو اس کے معنی حق مہر ہے۔صَدُقہ کے لفظ سے ظاہر ہوتاہے کہ حق مہر کوئی ایسی ادائیگی نہیں جس سے عورت کو خریداجاتاہے‘بلکہ یہ ایک تحفہ ہے جسے خوشی سے معین کیا جاتا ہے۔اس سے اخلاص (صدق)اور حق وفا کو تقو یت پہنچتی ہے۔ارشاد ہے:”اور دے دیا کرو عورتوں کو اُن کے مہر خوشی سے“۔یہ مختصرکلمات نہایت اہم اُمور کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ پروفیسر حافظ احمد یار مرحوم اپنی تالیف ”دستورِحیا“ (سورۃ النساء کی تفسیر)میں مندرجہ ذیل نکات کی نشاندہی کرتے ہیں:
(1) جن عورتوں سے تم نکاح کرو ان کے مقرر کردہ مہر ان کی طرف سے تقاضاواصرارکے بغیرہی خود بخودخوشی سے ادا کرو۔یہ ان کا حق ہے۔
(2) مہر کے معاملے میں عورت کو نقصان پہنچانے والے جاہلی راواج اورطریقے استعمال نہ کرو۔مثلاً:
(i)کسی بے آسرا لڑکی سے کم مہر پر نکاح کرلینا۔
(ii)اپنی زیرپرستی پلنے والی یتیم لڑکیوں کو بددلی سے نہایت حقیرمہر پریا بغیر مہر کے ہی بیاہ دینا۔
(iii)نکاحِ شغارکے ذریعے بلامہر دولڑکیوں کاباہم تبادلہ کرلینا۔
(iv) ولی کامہر لے کر خود رکھ لینا اور اس میں سے کچھ نہ دینا وغیرہ۔زمانہ جاہلیت میں یہ سب رواج موجود تھے‘اسلام نے انہیں ختم کردیا۔
(۳) عورتوں کے مہر اتنے ہی باندھو جو بخوشی ادا کر سکتے ہو۔صرف نمودوریا کے لیے ہزاروں اور لاکھوں کے فرضی مہر باندھے اور پھر”سوا من مچھروں کی چربی“کی قسم کی فضول شرائط سے پرہیز کرو۔
حق مہر کوبوجھ نہیں سمجھنا چاہیے‘بلکہ پوری دلی آمادگی کے ساتھ اداکرنا چاہیے۔یہاں صَدُقات کے ساتھ نحلۃکا لفظ استعمال ہوا ہے۔تفسیر بیضاوی میں ہے:”جو خوشی خوشی کسی معاوضہ کے لالچ کے سوادیا جائے“۔نحلۃکا ترجمعہ بعض مفسرین کرام نے عطےۃ واجبۃ/لازمۃسے کیا ہے’جیسا کہ تفسیر القرطبیؒمیں معروف تابعی قتادہؒسے نقل ہے کہ اس کا معنی فریضۃواجبۃہے۔ فریضۃ:فرض‘یعنی مقرر کرنا‘متعین کرنا۔ارشادباری تعالی ہے:”اور اگر تم عورتوں کوان کے پاس جانے سے پہلے طلاق دے دو لیکن مہر مقرر کرچکے ہو تو آدھا مہر دینا ہوگا“
نفقہ:خرچ۔یہ اصطلاح تو خرچ کرنے کے حوالے سے عمومی طورپر بیان ہوئی ہے‘لیکن سورۃالممتحنہ میں انفاق سے مشتق فعل انفقوااور انفقتم حق مہر کے مفہوم میں وارد ہوئے ہیں۔ارشادِباری تعالی ہے:’’اور جو اور کچھ انہو ں نے (ان پر)خرچ کیا ہو،ہ ان کو دے دو“۔(ترجمہ:فتح محمد جالندھریؒ) کئی مترجمین نے یہاں انفقواکاترجمہ حق مہر کے مفہوم سے کیا ہے۔پیر کرم شاہ الازہریؒ ؒ”ضیاء القران“ میں یوں ترجمہ کرتے ہیں:”اور دے دو کفار کو جو مہر انہوں نے خرچ کیا”۔ ان الفاظ میں یہ بیان ہورہاہے کہ جو مسلمان عورتیں دارالاسلام میں آجائیں اور ان کے شوہرکافر ہی رہیں تو اسلامی حکومت پر لازم ہے کہ ان عورتوں کے شوہرں کو حق مہر واپس کرے۔اسی بات کو مزید موکداندازمیں آگے پھر فرمایا:”اور کافروں کی ناموس کوقبضے میں نہ رکھواور جو کچھ تم نے ان پر خرچ کیا ہو ان سے طلب کر لواور جو کچھ انہوں نے (اپنی عورتوں پر)خرچ کیاہو وہ تم سے طلب کرلیں“۔ (ترجمہ:فتح محمد جالندھریؒ)۔قرآن حکیم کے اس مقام پر انفاق کا ذکر ہوا ہے،جس سے مراد حق مہر ہے۔ابوبکر الجصاصؒ کی احکام القرآن میں زہریؒ سے منقول ہے کہ اس سے مراد ”ردالصداق“ یعنی حق مہر کا لوٹانا ہے۔کئی مترجمین نے اس جز کا ترجمہ بھی حق مہر کے لفظ سے کیا ہے۔مولانا مودودیؒ اس مقام کا یوں ترجمہ کرتے ہیں:”اور تم خود بھی کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ روکے رہو۔جو مہر تم نے اپنی کافر بیویوں کو دیئے تھے وہ تم واپس مانگ لو اور جو مہرکافروں نے اپنے مسلمان عورتوں کو دیئے تھے، انہیں وہ واپس مانگ لیں“۔
ولیسئلوا ماانفقوا کی وضاحت واتوھم ما انفقوا کے ذیل میں بیان ہوگئی، لیکن وسئلواماانفقتم میں فرمایا جارہا ہے کہ تمہاری جو بیویاں دارالکفر میں رہ جائیں، یعنی وہ مسلمان نہ ہوں اور ان کے شوہر مسلمان ہو کر دارالسلام میں آ جائیں تو مسلمان شوہر کفار سے اپنے مہر کا مطالبہ کر سکتے ہیں اور کفار کو چاہیے کہ ان کے حق مہر لوٹائیں، کیونکہ ان کے مسلمان ہونے اور اختلاف دارین کی وجہ سے ان کا آپس کا ازدواجی معاملہ ختم ہوگیا ہے۔اگر کفار وہ حق مہر واپس نہ کریں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مال غنیمت سے ان مسلمان خاوندوں کو مہر کی رقم ادا کریں۔ارشاد ربانی ہے:ترجمہ:”اور اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی عورت تمہارے ہاتھ سے نکل کر کافروں کے پاس چلی جائے (اور اس کا مہروصول نہ ہوا ہو)پھر تم ان سے جنگ کرو(اور ان سے تم کو غنیمت ہاتھ لگے) تو جن کی عورتیں چلی گئیں ہیں ان کو (اس مال میں سے)اتنا دے دو جتنا انہوں نے خرچ کیا تھا“۔
یہ چاروں کلمات(اُجور، صدقات، فریضتہ اور نفقہ) اس بات کی رہنمائی کرتے ہیں کہ حق مہر میں ہر گز کوتاہی نہیں ہونی چاہیے او راس کی ادائیگی بطیب خاطر ہونی چاہیے۔اس کے سلسلے میں ہمیں بہت زیادہ حساس ہونا چاہیے، کیونکہ مہر ادا نہ کرنے کی صورت میں یہ انسان کے ذمے ایک قرض ہے اور قرض کے ادا نہ کرنے پر انسان سے پوچھ گچھ ہوگی۔
مہر کی ادائیگی سے مرد کی قوامیت کا ثبوت ملتا ہے اور اسلام نے حق مہر سے عورت کو تکریم بخشی ہے۔ مولانا عبادلماجد دریابادیؒ اپنی تفسیر میں وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”مہرشریعت اسلامی میں بیوی کی وہ قیمت نہیں جو شوہر اس کے اولیاء کو دے کر ان سے بیوی حاصل کرتا ہے، بلکہ مہر بطور ایک نذرانہ کے ہے جو شوہر بہ غرض اکرام و اعزاز براہ راست عورت کو پیش کرنا اپنے اوپر واجب کرلیتا ہے“، لہٰذا اس کے ادا کرنے کے بعد شوہر اپنی بیوی کو اپنی زرخرید لونڈی تصور نہ کرے، بلکہ اس کو وہ مناسب مقام دے جس کی اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی ہے۔