ریکوڈک قومی اہمیت کا حامل منصوبہ قرار

ریکوڈک قومی اہمیت کا حامل منصوبہ قرار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے کو انتہائی قومی اہمیت کا حامل منصوبہ قرار دیتے ہوئے اِس کے لئے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ای سی سی اجلاس کی صدارت چین سے ویڈیو لنک کے ذریعے کی،وہ اِن دنوں 2025ء کے ”بواؤ فورم برائے ایشیاء“ میں شریک ہیں۔ بیان کے مطابق ای سی سی نے پٹرولیم ڈویژن کی جانب سے ریکوڈک منصوبے اور اِس کے مجموعی ترقیاتی منصوبے میں تبدیلیوں اور مالیاتی وعدوں اور منصوبے کی مالی اعانت کی سمری پر غور کیا جس میں مہنگائی اور منصوبے کی صلاحیت، انرجی مکس، متبادل پانی کی فراہمی کے اختیارات اور جدید پراسیسنگ پلانٹس کے علاوہ مشینری کے حوالے سے منصوبے کے دائرہ کار میں اضافے کی وجہ سے ہونے والی تبدیلیاں سامنے رکھی گئی تھیں۔ بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ ای سی سی نے منصوبے میں اضافے کا باعث بننے والے عوامل کو نوٹ کرنے کے علاوہ سمری میں شامل تجاویز کی منظوری دی جبکہ کمیٹی نے وزارتِ پیٹرولیم اور خزانہ کو تمام متفقہ اقدامات پر بروقت عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے رابطے میں رہنے کی ہدایت بھی کی۔ یاد رہے کہ ریکوڈک منصوبے کو دنیا کے سب سے بڑے غیر ترقی یافتہ تانبے اور سونے کے ذخائر میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جو پاکستان کی اقتصادیات کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ خبروں کے مطابق آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) نے بھی ریکوڈک منصوبے کے لئے اپنی فنڈنگ میں اضافہ کرتے ہوئے اِسے 627 ملین ڈالر کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ بات کمپنی کی طرف سے پاکستان سٹاک ایکسچینج کو بھیجے گئے نوٹس میں سامنے آئی جس کے مطابق کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے کمپنی کی وعدہ کردہ رقم کو 627 ملین ڈالر تک بڑھانے کی منظوری دے دی ہے جو منصوبے کی مجموعی سرمایہ کاری میں اِس کے حصے کو ظاہر کرتی ہے اور اِس میں منصوبے کی مالی اعانت کے اخراجات شامل ہیں، اضافی رقم کو حقیقی منصوبے کی مالی اعانت کے اخراجات اور مہنگائی کے حساب سے ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ ریکوڈک منصوبے میں او جی ڈی سی ایل کا حصہ 8.33 فیصد ہے جو پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ اور گورنمنٹ ہولڈنگز (پرائیویٹ) لمیٹڈ سمیت ریاست کے تین ملکیتی اداروں (ایس او ایز) کے مجموعی طور پر 25 فیصد حصص کا حصہ ہے۔ یہ ایس او ایز پاکستان منرلز (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے ذریعے منصوبے میں شامل کیے گئے ہیں۔ باقی کے 75 میں سے 25 فیصد بلوچستان حکومت کے پاس جبکہ 50 فیصد حصص بیرک گولڈ کارپوریشن کے پاس ہیں جو منصوبے کا آپریٹر ہے۔ سامنے آنے والی معلومات کے مطابق بیرک گولڈ نے منصوبے کی فیزیبلٹی رپورٹ بھی مکمل کرلی ہے،اِس منصوبے پر دو مرحلوں میں کام ہو گا اور اِس منصوبے سے 37 سال تک کان کنی کی جا سکے گی، پہلے مرحلے میں 5.6 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی جس سے سے ایک کروڑ 31 لاکھ میٹرک ٹن تانبہ حاصل ہوگا جبکہ اِس منصوبے سے ایک کروڑ 79لاکھ اونس سونا پیدا ہونے کی بھی توقع ہے۔ فراہم کردہ معلومات کے مطابق فی ٹن تانبہ قریباً 9813 ڈالر کا ہے جبکہ فی اونس سونا قریباً 3040 ڈالر کا ہے، مجموعی طور پر یہاں سے 183 ارب ڈالر مالیت کی دھاتیں اور تانبہ نکلنے کی توقع کی جا رہی ہے جس میں سے لگ بھگ 91 ارب ڈالر بارک گولڈ جبکہ باقی ماندہ اندازاً 45 ارب ڈالر بلوچستان حکومت سمیت دیگر شراکت داروں کے حصے آئیں گے۔

گزشتہ سال کے آخر میں سامنے آنے والی خبروں کے مطابق منصوبے کی مالیاتی تکمیل رواں سال جون تک جبکہ تھرڈ پارٹی گارنٹی کا انتظام مئی 2025ء  تک ایشیائی ترقیاتی بینک سے منظور ہونے کا قومی امکان ہے۔ رواں سال کے پہلے ماہ میں یہ خبربھی آئی تھی کہ سعودی مائننگ کمپنی منارہ منرلز پاکستان کی ریکوڈک کان میں سرمایہ کاری کرنے پر غور کر رہی ہے۔ سعودی عرب کے وزیر کان کنی بندر الخوریف کے مطابق سعودی ترقیاتی فنڈ پاکستان کے کان کنی کے بنیادی ڈھانچے میں 100 ملین ڈالر سے زیادہ کا حصہ ڈال سکتا ہے، غور اِس بات پر ہو رہا ہے کہ وہ کس طرح بنیادی ڈھانچے میں پاکستان کی مدد کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ منارہ، سعودی ریاست کی ملکیتی کمپنی مادین اور 925 بلین ڈالر کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) کے درمیان ایک مشترکہ منصوبہ ہے جسے سعودی معیشت کے تیل پر انحصار کم کرنے اور اسے متنوع بنانے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر قائم کیا گیا تھا جس میں بیرونِ ملک اثاثوں میں اقلیتی حصص خریدنا بھی شامل تھا۔ عالمی مائننگ کمپنی بیرک گولڈ ریکوڈک کو دنیا کے سب سے بڑے زیر ترقی تانبے اور سونے ذخائر قرار دیئے جانے والے منصوبے ریکوڈک میں حصص خریدنے کے حوالے سے بات چیت کے لئے منارہ کے عہدیدار گزشتہ سال پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔اِس دورے کے بعد کہا گیا تھا کہ سعودی مائننگ کمپنی منارہ منرلز آئندہ دو سہ ماہیوں میں پاکستان کی ریکوڈک کان میں سرمایہ کاری کر سکتی ہے۔

ریکوڈک منصوبے پر طے شدہ وقت کے مطابق کام جاری ہے، اُمید یہی کی جا رہی ہے کہ اِس میں کسی قسم کا تعطل پیدا نہیں ہو گا لیکن یہ کام شروع ہونے سے پہلے سب سے زیادہ ضروری  بلوچستان میں اَمن قائم کرنا ہے۔ بلوچستا ن میں جاری دہشت گردی سے تو بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ پاکستان دشمن عناصر اس کے حق میں نہیں ہیں۔وہ کسی طور نہیں چاہتے کہ بلوچستان کے عوام ریکوڈک، سی پیک اور گوادر جیسے منصوبوں کے ثمرات سمیٹیں۔ بعض مٹھی بھر مقامی افراد اپنے ذاتی مفادات کی خاطر بد امنی پھیلا رہے ہیں، بیرونی قوتوں کا آلہ کار بنے بیٹھے ہیں۔یہ منصوبے بلوچستان کی حالت بدل سکتے ہیں،یہ مواقع ملکی معیشت کے لئے گیم چینجز کی حیثیت رکھتے ہیں، ریکوڈک میں آپریٹر کے حصص نکال دیئے جائیں تو بلوچستان کا برابر کا حصہ بچتا ہے جس سے حاصل ہونے والی اربوں ڈالر کی آمدن سے بلوچستان کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ بلوچستان کی آبادی دیگر صوبوں کی نسبت کم ہے اور سی پیک اور گوادر جیسے منصوبے اپنے وقت پر کام شروع کر دیں، اُن میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ آئے تو یہاں روزگار کے مواقع اندازے سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں، صرف ایک لاہور۔اسلام آباد موٹر وے کے فوائد ہی دیکھ لیں، نہ صرف لوگوں کو روزگار ملا، چھوٹے چھوٹے شہروں کو راستہ ملا، ان کا رابطہ بحال ہوا اور سفر کی آسانی اِس کے علاوہ ہے،اِسی لئے تو ملک میں موٹر ویز کا جال بچھتا جا رہا ہے۔ منصوبہ کوئی بھی ہو، ریکوڈک،گوادر پورٹ یا پھر سی پیک اِن سب کا فائدہ بلوچوں کی آنے والی نسلوں کو ہی ہو گا، وہاں پنجاب کی طرح کاشتکاری نہیں کی جا سکتی لیکن مختلف صنعتوں کے کلسٹرز ضرور بنائے جا سکتے ہیں۔جیسے جیسے بلوچستان کی آمدن میں اضافہ ہو گا ان کا احساسِ محرومی خود بخود ختم ہو جائے گا۔ملک دشمن عناصر جوصرف اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے فساد کر رہے ہیں، شر پھیلا رہے ہیں ان پر قابو پانے کے لئے صوبائی و وفاقی حکومت مل کر کام کرے اور عوام بھی ان کا ساتھ دیں، کسی بھی ایک علاقے کی معاشی ترقی پورے ملک کی خوشحالی کی ضامن ہے۔ 

مزید :

رائے -اداریہ -