یکساں نظامِ تعلیم ہمارے ایجوکیشن سسٹم کی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے انتہائی منظم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے

یکساں نظامِ تعلیم ہمارے ایجوکیشن سسٹم کی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے انتہائی ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

زلیخا اویس:


قوموں کی زندگی میں تعلیم بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ دنیا کی تمام قومیں تعلیم سے ہی اپنے اہم ترین مقاصد حاصل کر رہی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کو بنے68سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ہم آج تک ایک قو نہیں بن سکے۔ جس قوم کا نظام تعلیم یکساں نہ ہو وہ ایک قوم آخر کیسے بن سکتی ہے؟ایسا نظام تعلیم جو غیر ملکی خیرات اور فنڈز کے بل بوتے پر بنایا گیا ہو اور اسی کے مقاصد کے لئے کام کرے، ایسا نظام تعلیم جو قوم کو لسانی بنیادوں پہ تقسیم کرے، ایسا نظام تعلیم جس میں غریب کا بچہ ٹاٹ پہ بیٹھ کہ اور امیر کا بچہ اے سی گلے کلاس رومز میں پڑھے، ایسا نظام تعلیم جو نئی نسل کے ذہن سے نظریہ پاکستان کو ہی مٹا دے، ایسا نظام تعلیم جس سے بچہ بچہ ٹیویشن کا محتاج ہو جائے ،ایسا نظام تعلیم جس سے جعلی ڈگری والا وزیر تعلیم بنا دیا جائے، ایسا سسٹم جس میں 60 فیصد سے زیادہ آبادی لکھنا پڑھنا نہ جانتی ہو۔۔۔ ایسے نظام میں جمہوریت ایک بہترین انتقام تو ہو سکتی ہے لیکن نظام نہیں۔غربت، لاقانونیت ،بدعنوانی ،رشوت سفارش قتل وغارت اسٹریٹ کرائمز ،انتہا پسندی ،فرقہ وارانہ قتل، عورتوں اور بچوں کی حق تلفی اور بہت سے مسائل ملک میں موجودہ غلط نظامِ تعلیم کا ہی نتیجہ ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناح نے 1947 میں پہلی تعلیمی کانفرس میں فرمایا تھا:’’اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست کے مستقبل کا دارومدار اس بات پہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو کس طرح کی تعلیم مہیا کرتے ہیں۔‘‘
یونیسکو کی تحقیق کے مطابق دنیا میں ہر دس بچوں میں سے ایک بچہ جو سکول نہیں جاتا اس کا تعلق پاکستان سے ہے۔پاکستان میں تقریباََ 55لاکھ بچے سکول نہیں جاتے جس کی وجہ غربت ،افلاس او ر ہوشربا مہنگائی ہے۔صرف 23فیصد بچے جن کی عمریں 16سال تک ہیں، سکول جاتے ہیں۔ایک کروڑ پانچ لاکھ بچے ایسے ہیں جن سے جبری مشقت لی جاتی ہے تاکہ ان کے گھر کا معاشی نظام چل سکے۔
یونسیف کے مطابق 17فیصد سے زیادہ پاکستانی بچے اپنا اور اپنے خاندان والوں کا پیٹ پال رہے ہیں۔ایک کرٖڑ 5لاکھ مکمل ان پڑھ ہیں یہاں تک کہ گلیوں اور فٹ پاتھوں پر رہتے ہیں۔ایک کروڑ 90 لاکھ بچے انتہائی غربت اور افلاس کی وجہ سے سکول کی شکل نہیں دیکھ پاتے۔تقریباََ 85فیصد سے زیادہ ایسے پاکستانی بچے جن کی عمریں سکول جانے کی ہوتی ہیں وہ صرف گورنمنٹ سکول تک ہی رسائی رکھ پاتے ہیں۔
تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ پڑھ لکھ کر ہی ایک قوم مضبوط بنتی ہے۔ تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی میں ایک بھرپور کردار اد اکرتی ہے اور کامیابی کی طرف گامزن کرتی ہے۔ پاکستان ان ممالک میں سرِ فہرست ہے جہاں بہت سارے تعلیمی مسائل درپیش ہیں۔پاکستان کا موجودہ تعلیمی ڈھانچہ کمزوریوں سے بھرا پڑا ہے۔ پاکستان ان ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے جہاں اچھی تعلیم کا فقدان ہے اور پاکستانی قوم اچھی تعلیم سے محروم ہے ۔یہاں کا ایجوکیشن سسٹم انٹرنیشنل معیار کا ہے ہی نہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام اور نصاب اتنا کمزور ہے کہ وہ ہماری معاشرتی عکاسی نہیں کرتا۔ اور اس پر دوہرا تعلیمی معیار مزید عذاب ہے جب تک پاکستان میں دوہرا تعلیمی معیار موجودر ہے گا ،ہمارا تعلیمی ڈھانچہ اسی طرح مخدوش حالت میں ہی برقرار رہے گا۔اور آنے والی صدیو ں تک ہم ذلت اور پستیوں کی دلدل میں دھنسے رہیں گے۔
امریکہ،جاپان،چین،فرانس،روس الغرض دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں یکسیاں نظامِ تعلیم نافذ ہے جو غریب اور امیر کا میڑک اور اے /او لیول کا فرق ختم کر دیتا ہے۔اسی طرح دوسرے ممالک میں اگر غیر ملکی زبان لازم قرار دی جاتی ہے تو وہاں بھی ٹیوشن،رٹے بازی اور نقل جیسے امراض پیدا ہوجاتے ۔مگر انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ہر سطح کے تمام مضامین کے نصابات اپنی زبان میں وضع کئے اور انہیں نافذ العمل بنایا۔
پاکستان میں دوہرا تعلیمی معیار کیا ہے آئیے اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
پاکستان میں دو قسم کے تعلیمی معیار ہیں ایک گورنمنٹ سکول ہیں جن میں زیادہ تر ایسے بچے زیر تعلیم ہیں جو اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے ۔دوسرا پرائیویٹ سکول ہیں جس میں امیر لوگ یا یا امراء کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔۔۔ پہلے گورنمنٹ سکول کا جائزہ لیتے ہیں۔
گورنمنٹ سکول:
اگر آپ کبھی اپنے ارد گرد موجود کسی سرکاری سکول میں چلے جائیں تو آپ کو محسوس ہو گا کہ آپ کسی بھوت بنگلہ میں آ گئے ہیں یا آپ کوئی آثارِ قدیمہ دیکھ رہے ہیں بوسیدہ عمارتیں،ٹوٹی پھوٹی دیواریں، دیمک زدہ کھڑکیاں اور دروازے،گندے پانی اور جوہڑوں سے اٹے کھیل کے میدان، کسی ہارر فلم (Horror (movie کا منظر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ صورتِ حال تو شہری سکولوں کی ہے ، جبکہ دور دراز علاقوں میں موجود سکولوں کی حالت تو اس سے بھی بُری ہے۔
کئی سکولوں کی عمارات کھنڈر کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہیں۔۔۔ نہ فرنیچر نہ بجلی نہ پانی۔۔۔ ٹوٹی پھوٹی دیواریں،کچے فرش ،کمزور چھتیں،بدبودار کمرے اور گندے پانی سے بھرے پلے گراؤنڈز۔۔۔مقامی وڈیروں اور بااثر زمینداروں نے سرکاری سکولوں میں شادی ہال ،ڈیرے اور یہاں تک کہ مویشیوں کے لئے باڑے تک بنائے ہوئے ہیں۔ یہ ہے سٹینڈرڈ ہمارے سرکاری سکولوں کا۔۔۔ مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔
یہ تمام سکول گورنمنٹ کی طرف سے قائم کئے گئے انتظامی اور مالی معاملات کے تحت چلائے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے بہت سارے سکول گورنمنٹ کی ناقص تعلیمی پالیسیوں اور عدم توجہی کے باعث مالی بدعنوانیوں اور زبوں حالی کا شکار ہیں۔ ان سکولوں میں اساتذہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، اس کی وجہ سیاسی لوگوں کی پسند، نا پسند پر اساتذہ کی بھرتیاں اور تبادلے، پرانی عمارتیں، ناقص سہولیات، غیر معیاری نصاب اور اساتذہ کی کمی فنڈز کی کمی اور اس میں کرپشن ، محکمہ تعلیم سے منسلک اعلیٰ حکام کی عدم توجہی جیسے گھمبیرمسائل ان سرکاری سکولوں سے جڑے ہوئے ہیں۔
بعض سکولوں میں تعلیمی سرگرمیوں کا حال یہ ہے کہ بچے تو ہیں مگر استاد موجود نہیں۔ استاد کیوں موجود نہیں، وجہ یہ ہے کہ جس اُستاد کی بھرتی سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہے، وہ کیوں سکول آئے گا ؟ اس کا سکول آنا کوئی ضروری نہیں۔ وہ گھر بیٹھے ہی ہڈ حرامی سے تنخواہ وصول کر رہا ہے۔دیہی معاشرے میں اقرباء پروری اور سیا سی وابستگی ہی اعلیٰ معیار گردانی جاتی ہے۔
رشوت اور سفارش کے بل بوتے پر ہم اساتذہ کو پرکھتے ہیں۔ان کی کیا تعلیم ہونی چاہئے،اس کی قابلیت اور اہلیت کا معیارکیا ہے، کیا وہ جو مضامین بچوں کو پڑھا رہا ہے اس پر اس کو دسترس حاصل ہے، کیا وہ طلبا کی سوچ اور ان کے ذہنی رجحان کے مطابق ان کی تربیت کرنے کی اہلیت رکھتا ہے،کیا وہ طلبا کو ایک اچھی اور مثبت سوچ دے سکتا ہے،ان باتوں سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ میٹرک اور مڈل پاس اساتذہ کو ہم نے قوم کا مستقبل سنوارنے کا ٹھیکہ دے دیا ہے۔جب قوم کی تقدیر ایسے نااہل اور جاہل استادوں کے ہاتھوں میں دے دی جائے گی تو انجام وہی ہو گا جو یونیسکو کی رپورٹ میں پیش کر دیا گیا ہے۔
بد قسمتی سے ہمارے ہاں سرکاری سکولوں کی کوئی مانیٹرننگ سسٹم نہیں ہے۔ کوئی جواب دہی نہیں ہے ۔جس کے جی میں جو آئے وہ من مانی کرتا ہے۔ بعض علاقے تو ایسے ہیں کہ سکول میں طلبا ء کی تعداد تو 400ہے مگر استاد صرف دو ہیں کیونکہ کوئی استاد ایسی جگہ اپنی تعیناتی کروانا پسند نہیں کرتا جہاں بچوں کی تعداد زیادہ ہو اور اس کو زیادہ محنت کرنی پڑے ۔گھوسٹ سکولوں کے گھوسٹ اساتذہ کرام کی ایک بہت بڑی تعداد ہر ماہ تنخواہیں اور فنڈز باقاعدگی سے گھر بیٹھے وصول کر رہیہیں۔استادوں کو اس جہانِ فانی سے کوچ کئے ہوئے ایک عرصہ بیت گیا ہے مگر ان کے نام سے فنڈز اورباقاعدہ تنخواہیں محکمہ کی ملی بھگت سے وصول ہو رہی ہیں۔
پرائیویٹ سکول:
اب آتے ہیں پرائیویٹ سکولوں کی طرف۔۔۔ سرکاری سکولوں سے عدم توجہی اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث ناکام ہونے کی وجہ سے پرائیویٹ سکول سسٹم پاکستان میں ایک کامیاب اور منافع بخش کاروبار بن چکا ہے ۔ غریب والد بھی اپنے بچوں کو ان پرائیویٹ سکولوں میں داخل کروانے کا خواہشمند ہے مگر ان پرائیویٹ سکولوں کی مہنگی فیسوں کی وجہ سے غریب کا بچہ ان میں نہیں پڑھ سکتا صرف خواب دیکھ سکتا ہے۔پرائیویٹ سکولوں کا معیار اور ڈسپلن سرکاری سکولوں سے بہتر ہوتا ہے۔ پرائیویٹ سکولوں میں باقاعدہ چیکنگ کا نظام،جواب دہی اور شفافیت موجود ہوتی ہیں۔سٹاف پڑھا لکھا اورمحنتی ہوتا ہے صاف ستھرا ماحول ،خوبصورت پلے گراؤنڈز اور ٹرانسپورٹ کا معیاری انتظام ہوتا ہے۔ بچوں کی نصابی تعلیم و تربیت کے ساتھ ان کی اخلاقی اور سماجی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ بعض سکولوں میں غریب اور لائق بچوں کے لئے چند سیٹیں مخصوص ہوتی ہیں اور لائق بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہمارے کمزور تعلیمی ڈھانچے کو کافی حد تک سنبھالے ہوئے ہیں۔ مگر اسی وجہ سے ان تعلیمی اداروں نے اپنی اجاراداری بھی قائم کر لی ہے۔ چند ایک اچھی شہرت کے حامل تعلیمی اداروں کو چھوڑ کر باقی تعلیمی ادارے وہ تمام سہولیات بچوں کو مہیا نہیں کر رہے جس کی وہ بھاری فیسیں وصول کر رہے ہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے متعلق حکومتی پالیسی کے مطابق یہ اس معیار پر پورا نہیں اترتے ہیں۔ ہزاروں سکول ایسے ہیں جو حکومتی ریکارڈ میں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔یہ سکول، والدین سے فیسوں کے علاوہ امتحانات، تقریبات، جا و بے جا جرمانے اور سکیورٹی کے نام پر روزانہ،ماہانہ اور سالانہ کی بنیاد پر بھاری رقمیں تووصول کرتے ہیں مگر سہولیات کچھ نہیں دیتے۔سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران بھی فیس وصول کی جاتی ہے جبکہ اساتذہ کو تنخواہ نہیں دی جاتی جو کہ سراسر نا انصافی ہے ۔اربابِ اختیار کو اس پر سخت ایکشن لینا چاہئے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایجوکیشن سسٹم کی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے انتہائی منظم منصوبہ بندی کی جائیسب سے پہلے گورنمنٹ کو تعلیمی بجٹ کو بڑھانا چاہئے پاکستان کے تمام صوبوں میں ایک ہی سلیبس ہونا چاہئے ۔
پرائمری اور سکینڈری ایجوکیشن کے معیار کو بہتر کرنا چاہئے ۔گورنمنٹ سکول کا معیار وہی ہونا چاہئے جو اچھے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا ہے۔
یو این او کے اسپیشل انڈیکس میں پاکستان کا 173ممالک میں 166 واں نمبر ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے بجٹ کا بڑا حصہ تعلیم پر خرچ کرتے ہیں بنگلہ دیش جیسا ملک بھی اپنے بجٹ کا 14 فیصد تعلیم پہ لگا رہا ہے ۔ان اعدادو شمار کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان ان صفوں میں سب سے آخر میں کھڑا نظر آتا ہے۔
آئین کی شق 25.fکے تحت پانچ سے چھ سال تک کے بچے کو تعلیم کی مفت فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے۔گورنمنٹ آف پاکستان اس بات کی پابند ہے کہ وہ فری تعلیم پاکستانیوں کو مہیا کرے۔
پاکستان کے تعلیمی نظام میں ہنگامی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے کیونکہ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کی تعلیمی پالیسیوں پر ہوتا ہے۔اگر ملک میں 10 کروڈ لوگ موبائل فون استعمال کرتے ہیں تو یہ ترقی نہیں ہے ۔ہم تو اپنے ملک میں آج تک موبائل نہیں بنا سکتے جو کہ ایک تلخ حقیقت ہے۔
نظام تعلیم کی ناکامی کی اور بہت ساری وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ پرائمری سطح پر کم تعلیم یافتہ اساتذہ کی تعیناتی ہے۔ضرور اس بات کی ہے کہ پڑھے لکھے اور قابل لوگوں کو اس شعبے میں لایا جائے۔ سکولوں میں کم از کم یونیورسٹی لیول کے اساتذہ میرٹ پر بھرتی کئے جائیں۔ ان کو اچھی تنخواہ اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کی جائیں۔
اساتذہ کے لئے ٹریننگ ورکشاپ کا انتظام کیا جائے ۔سیاسی تقرریوں اوراقربا پروری سے پرہیز کیا جائے اور صرف اور صرف میرٹ کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔ای ڈی اوز اور ڈی ڈی اوز کو روزانہ کی بنیاد پر سکولوں کا سروے کرنے کا پابند کیا جائے۔ سکولوں کی مسلسل دیکھ بھال اور ان کی ضروریات کا خاص خیال رکھا جائے اور اساتذہ کی حاضری سکولوں میں یقینی بنائے جائے۔
اگرآپ ملک میں یکساں تعلیمی نظام لانا چاہتے ہیں تو آپ کو پہلے ایسا ماحول فراہم کرنا ہوگا جس میں امیر اور غریب کا بچہ ایک ہی چھت تلے بیٹھ کر تعلیم حاصل کر سکے۔اور یہ جو امیر اور غریب طبقوں کے درمیان خلیج حائل ہے یہ تبھی مٹ سکتی ہے جب ہم یکساں تعلیمی نظام نافذ کریں۔
حکومتِ پاکستان کو چاہئے پاکستان کے ایجوکیشن سسٹم میں مساوات اور برابری لائے ہر امیر اور غریب کے بچے کو ایک ہی تعلیمی ماحول ملنا چاہئے۔ حکومت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ نظام تعلیم کو بہتر بنا کر اور شرح خواندگی کو بڑھا کر مسائل حل کئے جا سکتے ہیں ۔تعلیمی انقلاب سے ہر میدان میں انقلاب آئے گا ۔ اگر ہمارا ایجوکیشن سسٹم مضبوط ہو گیا تو ہمارا ملک اقتصادی اور معاشرتی طور پر مضبوط ہو گا۔

مزید :

ایڈیشن 2 -