گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 63
میاں افتخار الدین نے اصرار کیا کہ دروازہ کی حفاظت کے لئے آپ بھی میرے ساتھ شامل ہوجائیں۔ انہوں نے مجھے اپنی طرف کھینچا بھی۔ ایسے بحران کے عالم میں جبکہ شہریوں کا ایک بہت بڑا ہجوم ہماری طرف دیکھ رہا تھا۔ مَیں نے یہ محسوس کیا کہ اگر میاں صاحب کی تقلید نہ کی تو لوگ یقیناًمجھے بزدل سمجھیں گے لیکن ہم پولیس کو کمرے کے اندر گھسنے اور آہنی ٹوپیاں ضبط کرلینے سے باز نہ رکھ سکے، اس کے بعد یہ ہوا کہ پولیس کی حکم عدولی کی بنا پر ہمیں جیل پہنچادیا گیا۔ اس طرح قانون، پولیس اور حکومت کے خلاف مسلم لیگ کی تحریک کا آغاز ہوا۔
میاں صاحب ایک ماہر سیاسی کارکن تھے۔ انہوں نے کانگریس پارٹی سے کئی سال وابستگی کی بنا پر اس فن کی خاص تربیت پائی تھی۔ جب وہ کانگریس پارٹی میں تھے تو انگریزوں نے انہیں دو سال کی سزا دی تھی۔ میاں افتخار الدین ایچی سن کالج اور آکسفورڈ سے حصول تعلیم کے بعد کانگریس کے ایک پرجوش کارکن بن گئے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے دو ناقابل فراموش اور ناگوار سال جیل میں گزارے تھے۔ ان کی ایک آنکھ بین الاقوامی شہرت پر تھی تو دوسری قومی قیادت پر۔ شاید انہوں نے یہ اندازہ کرلیا تھا کہ وائسرائے کی کابینہ کا ایک سابق وزیر دفاع اگر جیل چلا جائے تو یہ بات مسلم لیگ کے لئے زبردست پروپیگنڈے اور وقار کا موجب ہوگی۔ دراصل انہوں نے دفتر میں ہر شخص کو اس وقت تک روکے رکھا جب تک مَیں وہاں نہیں پہنچ گیا۔ برصغیر پاک و ہند میں سیاسی خیالات کی بنا پر وقتاً فوقتاً جیل جانا حب الوطنی کی علامت سمجھا گیا ہے چنانچہ آنے والے برسوں میں میری 34 دنوں کی مختصر قید ایک سیاسی سرمایہ ثابت ہوئی۔ اس وقت بعض مسلم لیگی لیڈروں کی عدم موجودگی لوگوں کو کھل رہی تھی لیکن میری گرفتاری نے مسلم لیگ کے تمام بڑے بڑے لوگوں کو اس طرف مائل کردیا اور تحریک ایک خاص رفتا ر سے جاری رہی۔ ابتداء میں چند روز ہمیں لاہور جیل میں رکھا گیا اور میری بیوی نے مجھے بتایا کہ وہ شخص جس نے مجھے ضمانت پر رہا کرانے کی کوشش کی وہ ایک خاتون مسز گلیڈیز مارسڈن تھیں۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 62 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مسز گلیڈیز مارسڈن، میرے عزیز دوست اور حکومت کے سیکرٹری پرسی مارسڈن کی بیوی تھیں۔ یہ صاحب انڈین سول سروس کے ملازم تھے اور ان کے ساتھ میں اکثر تیتر کے شکار کو جاتا تھا۔ ’’آہنی ٹوپیوں کی جنگ‘‘ اور میری گرفتار کے بعد دوسری صبح مسز مارسڈن جھٹ پٹے کے وقت جیل کے صدر دروازہ پر پہنچیں۔ چیک بک اُن کے پاس تھی۔ انہوں نے سپرنٹنڈنٹ سے میری ضمانت پر رہائی کا مطالبہ کیا۔ پرسی مارسڈن اب ملازمت سے ریٹائر ہونے والے تھے۔ انہوں نے 25 سال یا شاید اس سے کچھ زیادہ عرصہ ہندوستان میں ملازمت کی تھی لیکن انڈین سول سروس کے بہت سے افسروں کی خوش مزاج اور سادہ دل بیویوں کی طرح گلیڈیز کو بھی ہندوستانی قوانین حتیٰ کہ رواجات کا بھی پتہ نہ تھا۔ انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ضمانت پر رہا صرف مجسٹریٹ کرسکتا ہے اور سیاسی نظر بندوں کو رہا کرنا اس کے بس کی بات بھی نہیں۔
گلیڈیز نہایت شفیق خاتون تھیں۔ ان کا خوبصورت جواں سال چہرہ اور اس پر بھورے بھورے بال کشش انگیز تھے۔ ایک بار میں پرسی اور گلیڈیز کو مرغابیوں کا شکار کھلانے اپنے گاؤں نور پور نون لے گیا۔ ہم صبح پانچ بجے نبی شاہ جھیل کی طرف جانا چاہتے تھے تاکہ پوپھٹنے تک وہاں پہنچ جائیں۔ میرے بیٹے ظہور نے جو اس وقت چھ سال کا تھا، گلیڈیز سے یہ وعدہ لے لیا کہ جاتے وقت وہ اسے بھی ساتھ لے جائیں گی۔ نوکروں نے اسے بروقت سوتے سے جگادیا۔ چنانچہ وہ جھٹ پٹ تیار ہوکر گلیڈیز سے بھی پہلے کار میں جا بیٹھا لیکن جب کار روانہ ہوئیت و وہ گلیڈیز کی گود میں سر رکھ کر سوگیا۔ اس کے بعد جھیل پر پہنچنے پر بھی گلیڈیز نے اسے نہیں جگایا۔ نتیجہ یہ کہ وہ شکار سے محروم رہ گئیں۔ ظہور کی آنکھ اس وقت کھلی جب اس نے شکار سے واپس آتے ہوئے شکاریوں کی بلند آواز سے باتیں کرتے ہوئے سنا۔ ہم نے بڑا شاندار شکار کھیلا تھا اور اس عرصہ میں گلیڈیز میرے بچے کی پاسبانی کرتی رہی تھیں۔
ان ایام کی کوئی بھی یادداشت اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک میں اپنی بیوی الزبتھ وقار النساء نون کا تذکرہ شامل نہ کروں۔ انہوں نے ہماری گرفتاریوں کے خلاف دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عورتوں کے احتجاجی مظاہروں کی قیادت کی تھی۔ اس دفعہ کے تحت 5 سے زائد افراد کا اجتماع ممنوع تھا۔ برطانوی دور حکومت کے مقابلہ میں اب یہ دفعہ نسبتاً زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔ قانون کی خلاف ورزی کی بنا پر انہیں کئی بار جیل پہنچادیا جاتا اور پھر چھوڑ دیا جاتا تھا۔
ایک دن پولیس انہیں چند دوسری عورتوں کے ساتھ ایک بس میں بٹھا کر شہر سے سات آٹھ میل دور لے گئی۔ وہاں ان سے کہا گیا کہ گاڑی سے نیچے اتریں۔ جب انہوں نے اترنے سے انکار کردیا تو بس کے اندر گیس کے بم پھینک کر دروازے کردئیے گئے۔ وہ اور کچھ دوسری عورتیں بیہوش ہوگئیں۔ لاہور کی چند خواتین ان دنوں جیل کے صدر دروازہ پر رات دن پہر دیتی تھیں اور کچھ خواتین مظاہرین کے ساتھ ساتھ چلتی تھیں۔ ان کے پاس کاریں ہوا کرتی تھیں۔ چنانچہ جب پولیس کی گاڑی مظاہرین کو بھر کر کسی طرف کو روانہ ہوتی تو یہ کارکن خواتین فوراً ان کا پیچھا کرتیں اور جب پولیس انہیں شہر سے دور لے جاکر چھوڑی تو وہ انہیں کاروں میں بٹھا کر لے آتی تھیں۔ وقارالنساء اور ان کے ساتھیوں کو میرا بیٹا نور حیات کار میں واپس لایا تھا۔
مظاہرین کو اور ساتھ ہی برطانوی انتظامیہ کو بھی داد دینی چاہیے کہ اس تحریک کے دوران میں کسی طرح کے خون خرابے کی نوبت نہیں آئی چونکہ اس تحریک میں بیشتر عورتیں شامل تھیں اور اس کا مقصد غیر ملکی حکومت کے قوانین سے انحراف اور آزادی کا حصول تھا لہٰذا فرقہ وارانہ مناقشت بھی رفتہ رفتہ کم ہوگئی تھی۔
تمام اہم مسلم لیگی لیڈر ملک کی آزادی کی خاطر جیلوں میں قید تھے اور یہ ساری شورش آہنی ٹوپیوں کے کباڑ سے پیدا ہوئی تھی۔ پولیس ’’اسلحہ‘‘ کے بارے میں مسلم لیگ کے جال میں پھنس گئی تھی۔ اسے بعد میں معلوم ہوا کہ مسلم لیگ کے دفتر میں جو ’’اسلحہ‘‘ دبا ہوا ہے وہ ٹین کی ٹوبیوں کے سوا کچھ نہیں۔
ایک پرانی کہاوت ہے کہ کھودا پہاڑ، نکلا چوہا۔ یہ کہاوت پنجاب پولیس پر صادق آئی۔ سیاسی اعتبار سے اس چھوٹے سے واقعہ نے بڑی اہمیت اختیار کرلی اور ہر طرف غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ سیاسی ہنگامہ پسندوں کا ہمیشہ یہ مقصد ہوتا ہے کہ ایسے حالات پیدا کردئیے جائیں جن میں حکومت عام لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے پر مجبور ہوجائے کیونکہ اس طرح بے چینی بڑھتی ہے اور حکومت کے دشمنوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد اگر حکومت عوام کو خوش کرنے کے لئے سرکاری ملازموں کے خلاف تادیبی کارروائی کرتی ہے تو اس صورت میں پولیس کی حوصلہ شکنی لازمی ہے۔ ہنگامہ پسند لیڈر اس صورتحال سے بھی خوش ہوتے ہیں۔ ایک دانشمند حکومت کی کوشش حتی الوسع یہ ہوتی ہے کہ سیاسی ہنگامہ پسندوں کے بچھائے ہوئے جال سے بچ کر پھلے اور ہجوم کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کرے، پولیس کو اس وقت تک فائرنگ سے احتراز کرنا چاہیے جب تک خود اس کی جان کو خطرہ لاحق نہ ہوجائے لیکن پولیس امن عامہ کے تحفظ کی خاطر جب ایک بار کوئی قدم اُٹھالے تو حکومت کا فرض ہوجاتا ہے کہ اس کی حمایت کرے بصورت دیگر آئندہ ہنگامی حالات میں پولیس سخت کارروائی کرنے سے احتراز کرے۔ اس طرح قانون شکن عناصر من مانی کریں گے اور قانون پسند شہری نقصان اٹھائیں گے۔
پنجاب کے مسلمانوں نے زوال آمادہ یونینسٹ حکومت کو ختم کرنے کے لئے قانون شکنی کی پرامن تحریک شروع کررکھی تھی اور کم و بیش تیس مسلم لیگی لیڈروں کی جیل سے رہائی کا مطالبہ کررہے تھے لیکن اگر ہماری نظر بندی کے دوران میں اس مفہوم کی مصدقہ خبریں نہ آگئی ہوتیں کہ برطانیہ نے واقعی ہندوستان سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اقتدار کی منتقلی چند ہی مہینوں کے اندر مکمل ہوجائے گی تو اس تحریک کا کوئی نتیجہ نہ نکلتا۔ آخر فروری 1947ء کے اواخر میں اس کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا۔(جاری ہے )