جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تاریخی اقدام
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ اب مقدمات میں تاریخیں نہیں ملیں گی، سپریم کورٹ میں التواء کا تصور ختم سمجھا جائے،ذہن سے یہ تصور نکال دیں کہ مقدمات میں تاریخ دی جائے گی،بہت زیادہ کیس ہیں،ایک تاریخ پر فریقین کو نوٹس جبکہ اگلی سماعت میں دلائل پر فیصلہ ہو گا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کوئٹہ سہراب رنگ روڈ کی زمینی حوالگی کے معاہدے کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران وکیل کی طرف سے التواء کی استدعا پر سرزنش کرتے ہوئے اِسے مسترد کر دیا۔اُنہوں نے کہا کہ اِس مقدمے کے ذریعے سب کے لیے پیغام ہے کہ اب التواء نہیں چلے گا،یہ باقی عدالتوں میں ہوتا ہے کہ دستاویزات جمع کرانے کا وقت دیا جائے، سپریم کورٹ آخری عدالت ہے جہاں تمام مقدمات کے فیصلوں کا ریکارڈ پہلے سے موجود ہوتا ہے، مقدمہ سپریم کورٹ آئے تو تمام کاغذات پہلے سے پورے ہونے چاہئیں۔قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ عدالتوں نے اربوں روپے کے ٹیکس مقدمات دبا رکھے ہیں جبکہ ٹیکس مقدمات میں آپ کی حالت یہ ہے کہ ڈیڑھ سال میں جواب تک جمع نہیں کرایا جا سکا۔چیف جسٹس نے دورانِ سماعت وکیل کے آہستہ آواز میں اور اردو کے ساتھ انگریزی کے الفاظ ملا کر دلائل دینے پر سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ وکیل کی آواز نہ آئے تو اُسے وکالت چھوڑ دینی چاہیے،ایک زبان میں دلائل دیں،اپنی اردو بہتر کریں یا انگریزی، ایسے تو سمجھ ہی نہیں آتی۔عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کو آئندہ سماعت پر تیاری کر کے آنے اور اِس سے قبل تحریری جواب جمع کرانے کی مہلت دیتے ہوئے کی سماعت ملتوی کر دی۔
نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جب سے منصب سنبھالا ہے عدالتی نظام میں واضح تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں۔وہ اپنی حلف برداری کے روز ہی سے آنے والے دِنوں کی راہیں متعین کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ماضی کے برعکس وہ پروٹوکول کے بغیرعدالت عظمیٰ تشریف لائے،اُنہوں نے ذاتی گاڑی استعمال کی جبکہ استقبال کے لیے موجود عملے کو نصیحت کی کہ لوگ خوشی سے سپریم کورٹ نہیں آتے،اُن کے ساتھ اچھا میزبان بن کر مہمان جیسا سلوک کریں۔ملک میں جاری معاشی بحران میں ہر طرف سے سادگی اپنانے کی باتیں اور اعلانات تو سامنے آتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ ہوتا نظر نہیں آتا،قاضی صاحب نے پہلے ہی روز عملی طور پر سادگی اپنا کر تمام اداروں اور ذمہ داروں کو اچھا پیغام دیا ہے۔پیر کے روز مقدمات کی سماعت کے دوران اُنہوں نے مقدمات کی غیر ضروری طوالت اور تاریخیں دینے پر شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے فریقین اور وکلاء برادری کو التواء سے متعلق واضح پیغام دے دیا ہے۔ ڈیڑھ دو عشرے پہلے تک سپریم کورٹ میں مقدمات کی تاریخیں دینے کا رواج نہیں تھا،وہاں ”ایڈجرنمنٹ“ (التواء) کا کوئی تصور نہیں تھا تاہم بدقسمتی سے نچلی عدالتوں کی طرح(زیادہ تر وکلاء کے تساہل کی وجہ سے) سپریم کورٹ میں بھی تاریخیں دینے کا رواج عام ہوتا چلا گیا جس کا نتیجہ انصاف کی فراہمی میں غیر ضروری تاخیر کی صورت نکلا۔چیف جسٹس صاحب کے بقول 55 ہزار سے زائد مقدمات فیصلوں کی راہ تک رہے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر دراصل انصاف سے انکار کے مترادف ہے، ہماری عدالتوں میں تاریخ پر تاریخ معمول کا عمل بن چکا ہے،عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب وکلاء کسی مقدمے میں حکم امتناع لے لیتے ہیں تو پھر کئی کئی سال تک مقدمے کو لٹکانے کے لیے کوشاں ہو جاتے ہیں۔چیف جسٹس اگر عدلیہ کی ہر سطح کے لیے اِن اصلاحات کے حوالے سے عدالتی حکم جاری فرما دیں تو انصاف کی فراہمی میں بہت بہتری آ سکتی ہے۔اُنہوں نے وکلاء تنظیموں اور عہدیداروں سے ملاقاتوں کے بعد مقدمات کی سماعت کے حوالے سے اصلاحات بھی متعارف کرائی ہیں۔اب سپریم کورٹ میں ایک مہینے کی کاز لسٹ جاری کرنے کا آغاز ہو گیا ہے جس کا یقینا فائدہ یہ ہو گا کہ وکلاء کو بہتر تیاری کا موقع ملے گا۔
قوم جناب قاضی فائز عیسیٰ سے توقع رکھتی ہے کہ وہ ایسے اقدامات کریں گے کہ قوم انہیں ہمیشہ یاد رکھے۔اُن کے ایک سال کے اقدامات کے اثرات ایک صدی کو محیط ہو سکتے ہیں،شیر شاہ سوری نے فقط چار سال کے قلیل عرصے میں سینکڑوں کلو میٹر طویل گرینڈ ٹرنک روڈ (جی ٹی روڈ جسے ایک زمانے میں جرنیلی روڈبھی کہا جاتا تھا) تعمیر کی جس نے چٹا کانگ (بنگلہ دیش)،بھارت، پاکستان سے کابل (افغانستان) تک انقلاب برپا کر دیا تھا۔ٹیپو سلطان نے کہا تھا:”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے“۔ قاضی صاحب کے ارادوں سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ وہ مختصر عرصے میں ایسے بڑے فیصلے کر جائیں گے جن سے انصاف کی راہ تکتے پاکستانیوں کو سکون کی چھاؤں میسر آ سکے گی اور وہ شیر شاہ سوری کی طرح اَمر ہو جائیں گے۔