ایک زمانہ تھا جب برصغیر کے عظیم ستارے لاہور میں چمکتے تھے

ایک زمانہ تھا جب برصغیر کے عظیم ستارے لاہور میں چمکتے تھے
 ایک زمانہ تھا جب برصغیر کے عظیم ستارے لاہور میں چمکتے تھے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 لاہور(فلم رپورٹر)تقسیم ہند سے قبل اور بعد میں لاہور کو فنّی اور ثقافی اعتبار سے بے پناہ اہمیت حاصل رہی ہے کسی زمانے میں اس شہر میں پران،دیو آنند،کامنی کوشل،پریم چوپڑا اورگلوکار محمد رفیع جیسے عہد ساز فنکاروں کا بسیرا تھا،ہندوستان کی تقسیم سے قبل ہی یہ لوگ فلم نگری ممبئی چلے گئے اور پھر زندگی کی مصروفیات نے ان کو دوبارہ واپس لاہور آنے کا موقعہ نہیں دیا۔پاکستان کا قیام عمل میں آنے کے بعد بچے کچے لوگوں نے فلم انڈسٹری کی بنیاد رکھی اور محدود وسائل کے ساتھ کام شروع کیا دیکھتے ہی دیکھتے ہماری فلمی صنعت کامیابی کا زینہ چڑھنے لگی سید شوکت حسین رضوی،داؤد چاند،ایس ایم یوسف،خلیل قیصر،جمیل اختر ،حکیم احمد شجاع،انورکمال پاشا،فضلی برادران ، بابا جی اے چشتی، رشید عطرے،،شباب کیرانوی،عاشق حسین،ماسٹر منظور حسین،ایم اشرف ،ماسٹر عبد اللہ ،قتیل شفائی ، مادام نور جہاں،منیر نیازی ،خواجہ پرویز ،رضا میر ،تنویر نقوی ،احمد رشدی ،مسعود رانا ایسے نام ہیں جن کی انتھک محنت،لگن اور جنون کی وجہ سے ہماری فلمی صنعت بلندیوں کو چھونے میں کامیاب ہوئی۔اداکاری کے شعبے میںآشاپوسلے، نذیر،سنتوش کمار،صبیحہ خانم،درپن، حسنین ،نیر سلطانہ ،اسماعیل شاہ،اسلم پرویز، محمد علی،مادام نور جہاں،سورن لتاء،اکمل،منور ظریف،لالہ سدہیر،وحید مراد ،ظریف ،علاؤالدین ،اقبال حسن ،مظہر شاہ ،شمیم آراء،کمال،حسنہ ،حنیف،یوسف خان،رانی بیگم ،ننھا،ساقی،کمال ایرانی،ابراہیم نفیس ،سلطان راہی،رنگیلا،ساون اور آغا طالش جیسے لیجنڈ اداکاروں کی فنّی صلاحیتوں کو سب مانتے ہیں ان جیسے عظیم فنکار صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں1960سے 1985تک فلم انڈسٹری کا سنہری دور تھا اس دوران سال میں 120،120فلمیں بنا کرتی تھیں۔آہستہ آہستہ وقت گذرتا گیا اور باصلاحیت لوگوں نے فلمی صنعت سے دوری اختیار کرنا شروع کردی اس کی بنیادی وجہ فلم انڈسٹری میں ان پڑھ ،جاہل اور کام کو نہ جاننے والوں کی آمد تھی ان لوگوں نے وقتی فائدے کی خاطر بے ہودہ اور پُرتششد مناظر سے بھرپور فلمیں بنائیں جن کی وجہ سے فیملیز نے فلمیں دیکھنا چھوڑ دیں فلمی بُحران 1990کے بعد مسلسل بڑھتا گیا اور ہمارے نگار خانے جو کبھی بہت بارونق تھے وہاں پر ویرانیوں نے ڈیرے ڈال لئے،فلمی صنعت کی بربادی نے فنکاروں کو بھی بے حد نقصان پہنچایا ان حالات میں کئی فنکار فلم نگری کو چھوڑ کر گوشہ گمنامی میں چلے گئے اداکاری کو خیربادکہنے والی کئی اداکاراؤں نے شادی کرلی اور اداکاروں نے سائڈ بزنس شروع کردیااس وقت لاہور میں ماضی کے کئی نامور اور لیجنڈ آرٹسٹ موجود ہیں جو کئی برس سے گوشہ گمنامی میں زندگی گذار رہیں اُن میں سے اکثریت کا کہنا ہے کہ ہم لوگوں نے اچھے وقت میں شوبز کو چھوڑ دیا تھا کچھ کا یہ کہنا ہے کہ ہمارے پاس کسی دوسرے کام کو کرنے کے لئے وسائل ہی نہیں تھے جس کے باعث ہم غربت اور مفلسی کی زندگی گذار رہے ہیں فلم’’یکے والی‘‘سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی سلونی مرحومہ نے سٹوڈیو اونر ملک باری مرحوم سے شادی کرکے چار دھائی قبل اداکاری کو خیر باد کہ دیا تھا،فلم انڈسٹری کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں میں مہدی حسن ،،گلوکارہ زبیدہ خانم ،اعجاز درّانی ،فردوس بیگم،کویتا،بابرہ شریف،آسیہ،انجمن،نیلو،صائقہ،یاسمین،شیریں ،خالد سلیم موٹا،لہری،داؤد بٹ،نذر شباب،بہار بیگم،شمیم آراء،نیلی،تصّور خانم،موسیقار وزیر افضل ،موسیقار وجاہت عطرے،تنظیم حسن، عمر شریف ودیگر نے فلمی صنعت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔
علی اعجاز،مہناز،نیرہ نور ،ناہید اختر،شاہد،صبیحہ خانم ،طارق عزیز،نشو بیگم،محسن حسن خان ،شبنم،چکرم،افضال احمد،ہمایوں قریشی،ایاز،فیصل رحمٰن،وسیم عباس،آصف رضا میر، گوری،امروزیہ،بازغہ،غزل،نازلی،زمرد،عالیہ بیگم،مسرت شاہین،صابرہ سلطانہ،زیبا بیگم،دردانہ رحمان ،عشرت چوہدری،ایس سلیمان اور روزینہ نے فلمی صنعت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا،نئی نسل ان میں سے کئی ناموں سے واقف بھی نہ ہوگی۔
ان میں سے کچھ لوگ زندہ ہیں لیکن آج ان میں سے اکثریت کا فن کی دنیا میں کوئی کردار نہیں ،کچھ اداکاروں نے اپنی مصروفیات کو منی سکرین تک محدود کرلیا ہے ،نذر شباب نے اپنے والد لیجنڈ شباب کیرانوی مرحوم کے کام کو آگے بڑھاتے ہوئے کئی یاد گار فلمیں بنائیں لیکن فلمی صنعت میں غیر پیشہ وارانہ عناصر کی آمد کے باعث انہوں نے بھی گوشہ گمنامی میں زندگی گذارنے کوعافیت جانی،کئی شہرہ آفاق اور لازوال فلموں کے خالق ایس سلیمان بھی ان دنوں لاہور میں گمنامی کی کی زندگی گذار رہے ہیں،ان کے دونوں بھائیوں سنتوش کمار اور درپن مرحوم نے بھی فلمی صنعت کے لئے ناقابل فراموش خدمات انجام دی تھیں،ماضی کی معروف اداکارہ یاسمین بیگم بھی حسین یادوں کو گلے لگائے اپنے بیٹوں کے ہمراہ لاہور کے شاہ نور سٹوڈیوز میں مقیم ہیں اُن کے شوہر سید شوکت حسین رضوی کا شمار پاکستان فلم انڈسٹری کے بانیوں میں کیا جاتا ہے،بابرہ شریف اداکاری میں اپنا ایک خاص مقام رکھتی ہیں انہوں نے بھی اس فلم انڈسٹری کو اپنے عروج کے دور میں خیرباد کہہ دیا تھاوہ کبھی کبھار شوبز کی محفلوں میں نظر آجاتی ہیں،شباب کیرانوی کی سُپر ہٹ فلم’’تیس مار خان‘‘سے ملک گیر شہرت حاصل کرنے والی ماضی کی معروف ہیروئن شیریں بھی آج گمنامی کے اندھیروں میں گم ہوچکی ہیں،نیلو بیگم اور اُن کے شوہر لیجنڈ ریاض شاہد نے فلمی صنعت کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا ریاض شاہد تو آج ہم میں موجود نہیں لیکن اُن کی بیگم نیلو اپنے بچوں زرقا،شان اور اعجاز شاہد کے ساتھ لاہور میں میں رہتی ہیں نیلو اپنے دور کی نامور ہیروئن تھیں اُن کے صاحبزادے شان لالی ووڈ کے معروف ہیرو ہیں، مرحومہ آسیہ نے بام عروج پر شادی کرکے فلمی صنعت کو خیرباد کہہ دیا تھا ،’’اساں جان کے میٹ لئے اکھ وے جھوٹی موٹی دا پا لیا وے ککھ وے ‘‘جیسے بیشمار سُریلے گیتوں کو گانے والی لیجنڈ گائیکہ زبیدہ خانم اور اُن کے شوہر کیمرہ مین ریاض بخاری لاہور میں اپنی اولاد کے ساتھ مقیم تھے ریاض بخاری کی فلمی صنعت کے لئے خدمات قابل ذکر تھیں ان دونوں کے صاحبزادے سید فیصل بخاری اور سید ایاز بخاری شوبز سے وابستہ ہیں سید فیصل بخاری ایک بہترین کیمرہ مین ہونے کے ساتھ ساتھ ڈائریکشن کے شعبے میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواچکے ہیں سید ایاز بخاری پروڈکشن کے شعبے سے وابستہ ہیں،انجمن بیگم نے سلطان راہی مرحوم کے ساتھ سینکڑوں فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اُن کا کام آج بھی نئی فنکاراؤں کے لئے مشعل راہ ہے ،مہدی حسن کو اپنے اور پرائے سب مانتے ہیں بھارت والے کہتے ہیں کہ اُن کے گلے میں بھگوان بولتا تھا ،زیبا بیگم نے تین دھائی قبل اداکاری کو چھوڑ کر اپنی مصروفیات کو گھر تک محدود کرلیا تھا اُن کے شوہر محمد علی کی جذباتی اداکاری بھی اپنی مثال آپ تھی ،فلموں میں کیریکٹر رول کرنے والی صابرہ سلطانہ گوشہ گمنامی میں غربت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ،یہ آرٹسٹ اگر کسی دوسرے ملک میں ہوتے تو ان کے مجسمے بناکر بڑی بڑی شاہراہوں پر نصب کئے جاتے ،ہمارے ملک کی فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد نے کبھی اپنے سینئرز کی عزت نہیں کی جبکہ پڑوسی ملک والوں نے ہمیشہ اپنے لیجنڈ فنکاروں کو عزت اور احترام دیا ہے یہی وجہ ہے کہ بالی ووڈ والے عروج کی بلندیوں پر ہیں اور ہمارے نگار خانوں کو تالے لگ چکے ہیں چند لوگ آج بھی اس اُمید میں ہیں کہ لالی ووڈ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا،اس حوالے سے سینئرز کا کہنا ہے کہ یہ دیوانے کے خواب کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔جن لوگوں نے اس فلمی صنعت کو پروان چڑھانے کے لئے دن رات کی پرواہ کئے بغیر بے دریغ قربانیاں دیں آج اُن کی روحیں قبروں میں تڑپتی ہوں گی۔لاتعداد سُپر ہٹ فلموں کی ڈائریکشن دینے والے پرویز رانا بھی جہان فانی سے کوچ کرچکے ہیں۔جن فنکاروں نے اپنے کام سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر وطن عزیز کا نام روشن کیا اُن کو فراموش کرنے والے کیسے ترقی کے خواب دیکھ سکتے ہیں، شاہدہ منی نے اداکاری کو تو خیر باد کہہ دیا لیکن فن کی دنیا سے اپنا ناطہ نہیں توڑا انہوں نے گائیکی کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کو منواکر ثابت کردیا کہ وہ ورسٹائل فنکارہ ہیں شاہدہ منی کو اپنے تو اپنے غیر بھی مانتے ہیں۔اس وقت لاہور فنّی اور ثقافتی اعتبار سے تقریباً ختم ہوچکا ہے۔کچھ لوگ لاہور کی ثقافتی رونقیں بحال کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں اُن میں شو میں آف لالی ووڈ سید نور ،ریما خان،محمدپرویز کلیم،شہزاد چوہدری،چوہدری اعجاز کامران،مسعود بٹ،فیاض خان،جونی ملک،شہزاد رفیق،فیضیاب صدیقی،محمد کمال پاشا اور سید فیصل بخاری کے نام قابل ذکر ہیں۔فلمی صنعت کا مستقبل کیا ہوگا اس کا جواب شاید فی الحال کسی کے پاس نہیں ہے۔

مزید :

کلچر -