عدلیہ کی تضحیک،عمران خان نے ثاقب نثار کے مشورے پر بظاہر کان نہیں دھرا

عدلیہ کی تضحیک،عمران خان نے ثاقب نثار کے مشورے پر بظاہر کان نہیں دھرا
عدلیہ کی تضحیک،عمران خان نے ثاقب نثار کے مشورے پر بظاہر کان نہیں دھرا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ:محمد نوشاد علی 

       سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سابق وزیر اعظم عمران خان سے انکی زمان پارک لاہور کی رہائشگاہ پر ملاقات کی اور خبر کے مطابق انہوں نے عمران خان کو عدلیہ کی عزت کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ سابق چیف جسٹس نے  عمران خان کو باور کرایا کہ عدلیہ کی تضحیک برداشت نہیں کی جا سکتی، عدلیہ کے تمام جج  فرض شناس، ایماندار اور قابل احترام ہیں۔یہ اور بات کہ بقول سابق چیف جسٹس سابق وزیر اعظم عمران خان نے ان کی باقی تمام باتوں سے تو اتفاق کیا لیکن عدلیہ کے معاملے پر کان نہیں دھرے بلکہ یہ کہہ کر ٹرخا دیا کہ عدلیہ پر تنقید تو سوشل میڈیا کرتا ہے اور سوشل میڈیا کو روکنا ان کے بس سے باہر ہے۔یہ بات پاکستان کا بچہ بچہ بخوبی جانتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جب تک لیڈر نہ چاہے اس کے چاہنے والے اپنے طور پر کوئی ٹرینڈ بناتے ہیں اور نہ ہی چلاتے ہیں۔اور اگر کبھی غلطی سے بنا بھی لیں تو چلا نہیں پاتے کیونکہ اس کیلئے ایک مربوط اور منظم نیٹ ورک کی ضرورت ہوتی ہے جس کی کنجی لیڈر کے پاس ہی ہوتی ہے۔سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے ”الگوردھم“ سمجھنے والے اس بات سے بہر طور واقف ہیں کہ کوئی بھی بیانیہ وائرل کیسے کیا جاتا ہے، اور اگر بالفرض کسی کو کسی بھی قسم کی جانکاری نہیں ہوتی تو تو کم از کم یہ تومعلوم ہوتا ہے کہ پیسہ پھینک تماشہ کیسے دیکھا جاتا ہے۔  حال ہی میں اداروں کیخلاف چلنے والے ٹرینڈز کے بارے تحقیقات کی جا رہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایسے ٹرینڈز بنانے اور چلانے والے روپوش ہوچکے ہیں یا پھر ملک سے فرار ہو گئے ہیں لیکن مصروف عمل ضرور ہیں، انہوں نے ہمت نہیں ہاری ہے۔عمران خان نے حال ہی میں اپنے سوشل میڈیا جنگجوؤں کا شکریہ ادا کیاہے اور ”کی بورڈ جنگجوؤں“ کی تعریف اور شکریے پر مبنی ٹویٹ ریکارڈ پر موجود ہے۔تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کی جانب سے چلائے جانے والے ٹرینڈز کسی سے چھپے نہیں ہیں، اسی لئے عمران خان کی سوشل میڈیا سے متعلق دی جانیوالی منطق ٹرخانے یا ”چٹا جواب“ دینے کے مترادف ہی نظر آتی ہے۔ چلیں کچھ دیر کے لئے عمران خان صاحب کی ”منطق“ کو درست مان بھی لیا جائے تب بھی یہ ماننا مشکل معلوم ہوتا کہ عمران خان اپنے چاہنے والوں کو اداروں کی عزت و تکریم  کا درس دیں اور وہ اسی لائن پر کھڑے نظر نہ آئیں۔بیانیہ بنانااور پھر جائز ونا جائز طریقے سے اس کی ترویج کرنا پاکستان تحریک انصاف سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔کہا جا رہاہے کہ سابق چیف جسٹس کی سابق وزیر اعظم سے ملاقات عمران خان صاحب کے ایما پر کی گئی۔ثاقب نثار صاحب کے مطابق بطور سابق چیف جسٹس وہ پرائیویٹ آدمی ہیں اور کسی سے بھی کسی بھی وقت ملک سکتے ہیں۔ ان کی بات یقیناً درست ہے لیکن اتنی سادہ ہرگز نہیں ہے جیسے کہ انہوں نے بیان کیا ہے۔ بطور چیف جسٹس انہوں نے جو فیصلے کئے وہ آج بھی تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان صاحب نے انہیں قانونی مشاورت کیلئے اسی لئے طلب کیا کیونکہ ماضی میں انہوں نے جو کارنامے سر انجام دیے وہ  شائد ہی کسی دوسرے ماہر قانون کے بس کی بات ہو۔ اس وقت تحریک انصاف کو الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کیس اور منحرف اراکین کی ناہلی ریفرنس سمیت حمزہ شہبازکے حلف جیسے قانونی معاملات کا سامنا ہے اور عمران خان  صاحب کو لگا کہ ان معاملات میں بہترین مشورہ سابق چیف جسٹس صاحب ہی دے سکتے ہیں۔ خیر یہ بلی بھی جلد ہی تھیلے سے باہر آجائے گی، بلکہ تحریک انصاف کے آئندہ چند روز کی ہینڈلنگ ہی بہت کچھ واضح کر دے گی۔دو ہزار تیرہ سے دو ہزار اٹھارہ کے دوران ثاقب نثار کے فیصلوں اور خان صاحب کی سیاست کا براہ راست اور بالواسطہ تعلق سابق وزیر اعظم نوازشریف کومنصب سے ہٹائے جانے اور مختلف حکومتی معاملات پراثر انداز ہونے سے ہی رہا ہے۔ بہت سے ایسے سوال ہیں جن کی پھنکار آج بھی واضح سنائی دیتی ہے۔خیر فی الوقت تو سابق چیف جسٹس نے عمران خان کو اداروں سے ٹکراؤ اور سیاسی تلخی کو بڑھانے سے گریز اور پرہیز کا مشورہ دیا ہے لیکن اس ”خصوصی پیغام“ کوعمران خان شائد بہت سنجیدگی سے نہ لیں۔ عمران خان صاحب تو اپنی حکومت کیخلاف ہونیوالی بیرونی سازش کا راگ ہی الاپ رہے ہیں اور اس معاملے کی کھلی سماعت کی خواہش رکھتے ہیں اور اس مطالبے سے کسی طور دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں، ان کو لگتا ہے کہ یہ واحد بیانیہ ہے جو ان کو ہر قسم کا ”استثنیٰ“ دے سکتا ہے، وہ اپنے ووٹرز کو  بہرحال یہ باور کرانے میں کامیاب ہو چکے ہیں کہ انہیں بیرونی سازش کے تحت ہی نکالا گیا ہے اور ان کا ووٹر اس بات پرصدق دل سے ایمان لا چکا ہے کہ ان کا ہر گناہ معاف کرنے کو تیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم  شہباز شریف  نے کمیشن بنانے کے آئیڈیا کو مسترد نہیں کیا، شاید ان کے شعور ولاشعور میں بھی کہیں نہ کہیں یہ بات موجود ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور چارہ شائد نہ ہو۔ اگرچہ پاکستان میں حمود الرحمان سے لیکر اب تک کئی کمیشن بنے لیکن سچ باہر نہ آ سکا، نظریہ ضرورت کے تحت سچ چھپایا جاتا رہا لیکن قوم سچ جاننا چاہتی تھی اور چاہتی ہے۔ مسلم لیگ بھی ”ٹرتھ کمیشن“ کی بات کرتی رہی ہے اور اب تحریک انصاف بھی عوام کو سچ بتانا چاہتی ہے تو بہتر تو یہی ہے کہ گزشتہ لگ بھگ پندرہ سالوں کی تین جمہوری حکومتوں کا پورا سچ عوام کے سامنے رکھا جائے۔ جھوٹ در جھوٹ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ نہ صرف عوام اور اداروں کے درمیان فاصلہ بڑھ رہا بلکہ اداروں کے مابین ٹکراؤ کا خدشہ بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
تجزیہ نوشاد علی

مزید :

تجزیہ -